ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018اور اس کے معاشرتی اثرات کا جائزہ
ٹرانس جینڈر کی جنس کا تعین کرنے کے لیے بنایا جانے والا قانون جو ہر شہری کو اپنی جنسی شناخت خود متعین کرنے کا اختیار دیتا ہے، بڑیی خرابی کا دروازہ ہے
ٹرانس جینڈر ایکٹ 2018اور اس کے معاشرتی اثرات کا جائزہ
راؤ عبدالحمید۔لاہور
پاکستان ادارہ شماریات (Pakistan Bureau of statistics) کے مطابق مردم شماری منعقدہ 2017ء میں پاکستان کی کل آبادی تقریباً بیس کروڑ 77 لاکھ سات سو (207.77 ملین) نفوس تھی، جس میں مرد 51 فی صد، عورتیں 49 فی صد اور ٹرانس جینڈر (مخنث/خواجہ سرا، ہیجڑا) 0.005 فی صد یعنی صرف 10418 افراد ہیں، آبادی میں شرح اضافہ 2.4 فی صدہے۔اگر ہم انھی اعداد و شمار کو آگے بڑھائیں تو 2022ءمیں پاکستان کی کل آبادی تقریبا تیئیس کروڑ انتالیس لاکھ (233.9 ملین) اور ٹرانس جینڈر 11728 بنتے ہیں۔ ٹرانس جینڈر کمیونٹی بلا شک وشبہ زیر ِعتاب رہی ہے اور تاحال یہ سلسلہ جاری ہے۔ کچھ سال پہلے تک ان کو شناختی کارڈ تک جاری نہیں کیے گئے تھے، ان کو برابر کا انسان نہیں سمجھا جا رہا تھا ۔ یہ لوگ بہت ہی مظلومیت کا شکار رہے ہیں اور تاحال ہیں۔ پاکستان جیسی ریاست جس کا سالانہ بجٹ 8 ہزار ارب سے بھی زیادہ ہوچکا ہے۔ وہ بارہ ہزار ٹرانس جینڈرز کو نہیں سنبھال پا رہا، اس کی کوئی منصوبہ بندی نہیں کر پارہا۔ صرف سالانہ ایک ارب روپیہ بھی ان لوگوں کی سہولت کے لیےمختص کیا جائے تو اس چھوٹی سی کمیونٹی کو کیا کیا سہولت نہیں دی جاسکتی؟اگر یہ بھی ممکن نہیں تو محض ان کا ماہانہ خرچ ہی باندھ دیا جائے تو ایک بھی خاندان ان کو اپنے سے جدا نہیں کرے گا۔ ان کے والدین کی تربیت کی جائے اور ان کو گھروں سے علاحدہ کرنا غیرقانونی قرار دیا جائے۔ برابر کا انسان ہونا تو ان کا ویسے ہی بنیادی حق ہے۔ بلاتفریق تمام حقوق ان کو ملنے چاہییں۔ اس پر تو کسی بھی کمیونٹی چاہے وہ مذہبی ہو یا لبرل وغیرہ کا اعتراض نہیں بنتا۔
ٹرانس جینڈر کو ایک عام انسان کی طرح ہی سمجھا جانا چاہیے اور اس کے حقوق ویسے ہی ہوں، جیسے کسی بھی عام انسان کے ہوتے ہیں۔ انھیں تعلیم، صحت، رہائش جیسے بنیادی حقوق ویسے ہی ملنے چاہییں، جیسے سب کے لیے ہوتے ہیں۔ معاشرے میں کردار ادا کرنے کے حوالے سے بھی ان کے پاس مواقع ہونے چاہییں۔پہلی کوشش تو یہ ہونی چاہیے کہ ان کا علاج کرکے ان کا طبی نقص دور کیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے ان کو معاشرتی نظام سے جدا نہیں کرنا چاہیے، جن کے ہاں ایسے بچے کی پیدائش ہو، وہی اس کے حقوق کا ذمہ دار ہو۔ گھریلواور خاندانی زندگی گزارنا ان کا حق ہے۔ اس کو اخراجات کی مد میں حکومت مدد کرے تو اور زیادہ مفید رہے گا۔معاشی مجبوریاں انھیں غیراخلاقی سرگرمیوں کی طرف دھکیلتی ہیں۔ لہٰذا ان کا بھیک مانگنا، ناچ گانا، جنسی عمل کے لیےخرید و فروخت کو غیرقانونی بنایا جائے۔ جب ان کے خاندان ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو بہت ساری قباحتیں ختم ہوجائیں گی۔ ان کا اکیلا پن اور لاوارث ہونا ہے ان کے استحصال کا راستہ کھولتا ہے۔
یہ عقلی اعتبار سے بالکل صحت مند لوگ ہوتے ہیں۔ جسمانی طاقت بھی عام انسانوں جیسی ہوتی ہے۔ صرف اپنی نسل آگے بڑھانے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔ وہ تو بہت سی عورتوں اور مردوں میں بھی کئی وجوہات کی بنا پر نہیں ہوتی۔ ان کی تذلیل تو نہیں کی جاتی،نہ ہی ان کو گھر سے الگ کیا جاتا ہے۔ بالکل ایسے ہی اگر ان کو بھی عام انسان کی طرح اہمیت دی جائے تو کوئی قباحت نہیں ہے۔
قانون سازی اس نکتہ نظر سے ہونی چاہیے کہ ان ٹرانس جینڈرز کو سوسائٹی کا مفید رکن بنایا جائے ۔جو خدشہ بیان کیا جارہا ہے اس کا تدارک کیاجائے کہ ان کے نام پر نفسیاتی مریضوں کو اپنی شناخت کا فیصلہ کرنے کا اختیار دے کر پورے سماج میں مزید بگاڑ کا راستہ نہ کھولا جائے۔پاکستان میں ہر قانون کو موم کی ناک کی طرح استعمال کیا جاتا ہے، جس طرف موڑ دیا جائے۔ ٹرانس جینڈر کی جنس کا تعین چاہے میڈیکل بورڈ سے ہو یا وہ خود اس کا تعین کرےجب تک قانون کےغلط استعمال کاانسداد نہیں کیاجاتا تو کوئی بھی قانون مطلوبہ نتائج نہیں دیتا-
جو قانون ٹرانس جینڈر کے نام سے بنایاگیا ہے وہ ٹرانس جینڈر کے علاوہ لوگوں کو بھی اپنی جنس کا تعین خود کرنے کا اختیار دیتا ہے۔ یہ اصل مسئلہ ہے۔ یہ خرابی کا دروازہ ہے۔ بہت سارے نفسیاتی/معاشرتی/شرارتی لوگ (محض بگاڑ اور توجہ کے لیے) اپنی جنس سے غیرمطمئن ہونے کی نشان دہی کرسکتا ہے۔ ایکٹ کے صفحہ نمبر 1باب نمبر 1، اصطلاحات کو متعارف کرواتے ہوئے ایف کے عنوان سے لکھا گیا ہے کہ:
f. "Gender identity" means a person's inner most and individual sense of self as male, female or blend of both or neither: that can correspond or not to the sex assigned at birth.
اس کا ترجمہ یا مفہوم کچھ اس طرح بنتا ہے " جنسی شناخت ایک انسان کے اندرونی احساسات کا نام ہے کہ وہ اپنی جسمانی ساخت کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے آپ کو مرد محسوس کرتا ہے، عورت محسوس کرتا ہے یا دونوں احساسات بیک وقت رکھتا ہے۔ اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ اسے پیدائش کے وقت کون سی جنس متعین کیا گیا تھا۔ (یعنی پیدائش کے وقت جسمانی اعتبار سے وہ واضح لڑکا ہو یا لڑکی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔)
یہ اصطلاح بل میں چلتی ٹرین کے لیے کانٹا بدلنے کا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ ایکٹ بہ ظاہر خواجہ سرا یا مخنث کے لیے بنایا گیا ہے، لیکن یہ اصطلاح تمام مکمل مرد و عورت کو اپنی شناخت بدلنے کا اختیار دیتا ہے۔ اس ایکٹ کی سب سے بڑی خرابی یہی اصطلاح ہے۔ اس اصطلاح کو بدلنے سے ایکٹ کے منفی خدشات ختم ہوسکتے ہیں۔ یہی اصطلاح اور اختیار خرابی کی جڑ ہے۔ ورنہ اس پورے ایکٹ سے خواجہ سرا کو پھر بھی کچھ فائدہ متوقع ہے، لیکن باقی سوسائٹی کے لیے کچھ خطرناک نہیں۔
اسی اختیار کو آگے بڑھاتے ہوئے صفحہ نمبر 2 پر ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کا مفہوم بیان کیا گیا ہے۔ اس کے مطابق طبی مراحل سے گزر کر (آپریشن سے) اپنی جنس کو تبدیل کرنے کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ اس سے اگلی سطر میں تیسری قسم یہ ہے کہ ایک ایسا انسان جو اپنی جنس کی شناخت اپنی ثقافت اور روایت سے ہٹ کر بتائے، وہ بھی ٹرانس جینڈر ہی کہلائے گا، جیسے مرد عورت والا لباس اور انداز اپنائے اور عورت مرد جیسا۔ چاہے جسمانی طور وہ مرد مکمل مرد ہی ہو اور عورت مکمّل عورت ہی ہو، یہ مفہوم نفسیاتی مریضوں کے لیے معاشرے میں بگاڑ کا راستہ ہموار کرے گا۔ ایکٹ کے الفاظ غور طلب ہیں۔
(n) "Transgender Person" is a person who is
1. Intersex (Khunsa) with mixture of male and female genitals features or congenital ambiguities or :
2. Eunuch male is assigned at birth but undergoes genital excision or castration or:
3. A transgender man, transgender woman or khawajasra or any person whose gender identity and/or gender expression differs from the social norms and cultural expectations based on the sex they were assigned at the time of their birth.
صفحہ نمبر 3، ایکٹ کا دوسرا باب ہے ٹرانس جینڈر کی شناخت کیسے ہو گی۔ اس شق کا مفہوم کچھ اس طرح ہے۔
1۔ ٹرانس جینڈر اپنی شناخت کا تعین خود کرے گا۔
2۔ ٹرانس جینڈر اپنی خود کی گئی شناخت کو نادرا کے علاوہ بھی ہر جگہ استعمال کر سکے گا۔
3۔ ہر ٹرانس جینڈر بہ طور پاکستانی شہری اٹھارہ سال کی عمر پر پہنچ کر اپنی خود تعین کردہ شناخت کے مطابق اپنا شناختی کارڈ، ڈرائیونگ لائسنس اور پاسپورٹ بنوا سکے گا۔
4۔ جن ٹرانس جینڈر کا شناختی کارڈ بن چکا ہوگا، وہ اپنا نام اور جنسی شناخت جو وہ خود محسوس کرتے ہیں، کے مطابق تبدیل کروا سکے گا۔ (یعنی ہر چھ مہینے بعد بھی آپ مردانہ سے زنانہ بن سکتے ہیں یا اس کے الٹ کر لیجیے)
صفحہ نمبر 5، باب 5 جو ٹرانس جینڈر (اس تعریف میں خواجہ سرا اور مکمل مرد اور عورت بھی شامل ہیں، جو اپنے آپ کو اپنے اندر سے متضاد محسوس کرتے ہیں) کے حقوق کے حوالے سے ہے۔وراثت کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے، وراثت میں حصہ اس کے شناختی کارڈ کے مطابق ہو گا، یعنی مرد لکھوایا گیا ہے تو مرد والا حصہ دیا جائے گا اور اگر عورت لکھا گیا ہے تو عورت کا مقرر کردہ حصہ دیا جائے گا۔ (دوسرے باب اور ٹرانس جینڈر کی تعریف کے مطابق اپنی جنسی شناخت کی تبدیلی سے وراثتی حقوق میں باآسانی تبدیلی کی جا سکے گی۔ یعنی مرد عورت بن کر اپنا حق وراثت بدل سکتا ہے اور عورت مرد بن کر مرد والا حق وراثت لے سکے گی۔)
صفحہ نمبر 6، باب 5، سیکشن 3، سب سیکشن ڈی کے مطابق اٹھارہ سال سے کم عمر کی جنسی شناخت میڈیکل آفیسر (ڈاکٹر) کرے گا۔ جو ترمیمی بل سینیٹ میں پیش کیا گیا ہے اس میں بنیادی نکتہ ہی اپنی جنس کا تعین خود کرنے کے بجائے ایک میڈیکل بورڈ سے کرانے کا کہا گیا ہے۔ تاکہ تغیر خلق کا راستہ روکا جا سکے گا۔
جو خدشات اس ایکٹ کے حوالے ظاہر کیے جارہے ہیں کہ مرد مرد سے شادی کر سکے گا، عورت عورت سے شادی کر سکے گی۔ یا LGBQR جیسی تحریک کا راستہ ہموار ہو رہا ے۔ بہ ظاہر اس بل میں ایسا کوئی لفظ یا اشارہ شامل نہیں۔ قانوناً اس کی فی الوقت اجازت بھی نہیں۔ لیکن یہ ایکٹ مستقبل میں اور خرابیوں کے ساتھ اس عمل کی قانونی گنجائش دے گا۔ مرد مرد سے شادی کرنا چاہتا ہے تو ان میں سے ایک اپنی جنسی شناخت عورت لکھوائے گا اور قانوناً یہ شادی جائز ہو گی۔ عورت عورت سے بھی اسی طرح کا معاملہ ہو سکے گا۔ یہ فطری قوانین میں بگاڑ پیدا کرے گا۔ سوسائٹی میں نظام کی خرابیوں کی وَجہ سے کچھ برائیاں پیدا ہو بھی چکی ہیں، لیکن تاحال مجموعی طور پر غلط کو غلط ہی تصور کیا جاتا ہے۔ لیکن جب ذرائع ابلاغ منفی رجحانات کو فروغ دیں اور قانون اس رجحان کو تحفظ دے تو سماج میں بگاڑ یقینی ہےاس لیےان خرابیوں کےانسداد کامطالبہ درست ہے۔