پاکستانی معاشرے کی بقا و ترقی کے لیے نظام عدل کی ناگزیریت
پاکستانی معاشرے کی بقا و ترقی کے لیے نظام عدل کی ناگزیریت
پاکستانی معاشرے کی بقا و ترقی کے لیے نظام عدل کی ناگزیریت
حذیفہ سعید ؛ ملتان
یہ ایک حقیقت ہے کہ انسان اپنی ساخت کے اعتبار سے کمزور ہے، وہ اپنے خاندان اور اجتماع سے باہر نہیں رہ سکتا۔ اس کی جان کی حفاظت اور اس کی تمام حاجات و ضروریات کا پورا ہونا اجتماع کے ساتھ مشروط ہے۔ اس لیے متوازن اور صاف ستھرے معاشرے کی بنیاد ہی اس کی تمام ضروریات و حاجات کو پورا کرسکتی ہے۔
ان معاملات کو درست اور منظم طریقے سے سرانجام دینے کے لیے "نظام" قائم کیا جاتا ہے۔ نظام کا قیام وسیع تر انسانی مفادات کا ضامن ہوتا ہے جو معاشرتی معاہدے (Social Contract) کی صورت میں بروئے کار آتا ہے، جس کے تحت توازن اور اعتدال کے اصول پر ذمہ داریوں کا تعین کیا جاتا ہے۔ جب کوئی جماعت نظام کی باگ ڈور سنبھالتی ہے تو سماجی معاہدے کے تحت اس کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ معاشرے کے ہر فرد کو معاشی اطمینان اور معاشرتی امن حاصل ہو۔ کسی طور پر بھی کسی کو یہ اجازت نہ ہوکہ وہ اس میں خلل ڈالے۔
ملکی نظام کو، امن و امان کو خراب کرنے والے عوامل سے بچاؤ کے لیے اقدامات اُٹھانے ہوتے ہیں، تاکہ بلاتفریق رنگ و نسل اور عقیدہ کے ہر شخص کو ذرائع پیداوار سے استفادہ کا حق حاصل ہو۔
انسان دوست نظام ہر اس پالیسی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، جس کے تحت ملک کے ذرائع پیداوار چند افراد کے ہاتھوں میں چلے جائیں۔ اس لیے اس کا مطمح نظر امن و سلامتی اور معاشی آسودگی کی خاطر پالیسی بنانا اور قانون سازی ہوتی ہے۔ اس پر عمل درآمد کے لیے روایتی بیوروکریسی کے بجائے عوامی خدمت گاروں (Public Servents) کا تعین کیا جاتا ہے۔صالح معاشرے میں،سماجی معاہدات میں بگاڑ کو روکنے کے لیے معاشرے کے معاملات کی نگرانی عدالت کرتی ہے، تاکہ کوئی کسی دوسرے کو نقصان نہ پہنچا سکے اور نقصان کی صورت میں تلافی بھی ہوسکے۔
عادلانہ نظام میں پیشہ جات اور تمام شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد ایک دوسرے کے ساتھ تعاونِ باہمی کی بنیاد پر خدمات اور اشیا کا تبادلہ کرتے ہیں کہ دونوں فریقین اطمینان بخش فائدہ حاصل کرسکیں۔اس نظام کے ادارہ جات،تمام افراد کے حال و مستقبل کی حفاظت اور ماضی کا تدارک بالکل اسی طرح کرتے ہیں، جیسے والدین اپنی اولاد کی حفاظت کا انتظام کرتے ہیں۔
نظام کے تینوں اساسی شعبہ جات انتظامیہ، عدلیہ اور مقننہ قیام ِعدل کے مقصد کے تحت ترتیب دیے جائیں تو اس کا لازمی تقاضا سامنے آتا ہے کہ ان اداروں سے منسلک افراد کو کاروباری سرگرمیوں سے الگ رکھا جائے، تاکہ وہ ایک فریق کے طور پر اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے بلاتفریق اپنی ذمہ داری بجا لائیں۔ان کی معاشی ضروریات کی ذمہ داری معاشرہ قبول کرے گا، تاکہ یہ خوش اسلوبی سے اپنی ذمہ داری ادا کرسکیں۔
انھی اجتماعی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لیے بیت المال کا قیام اور ضروری درجے کے ٹیکس کا نظام وجود میں آیا۔ گویا معاشرہ ، اپنے حقوق کی حفاظت اور نظام چلانے کے لیے اپنے اندر سے ہی چند افراد کو اپنی جان، اپنے مال اور اپنی اولاد کے مستقبل کے تحفظ کا اختیار دیتا ہے کہ وہ ہم پر قانون عدل نافذ کرے اور ہم اسے اجتماعی مفاد میں ٹیکس دیں۔ ہماری اور ہمارے گھرانے کی زندگیوں اور مال و متاع کی حفاظت کے لیے نظام کے پاس یہ اختیار بھی ہے کہ وہ کسی بھی فرد یا گروہ کو اجتماعیت کے لیے نقصان دہ سرگرمیوں پر عادلانہ طریقہ کار کے تحت سزا دے سکتا ہے۔
لیکن وطنِ عزیز میں موجود بااختیار نظام کی دلچسپی کسی طور پر ملکی باشندوں کے ساتھ نظر نہیں آتی۔اس کے سب ادارے گھٹیا اِنفرادی اور گروہی مفادات کے تابع ہوکر انسانی معاشرے کو ہوس کے سیلاب میں غرق کیے ہوئے ہیں۔
یہ بات غور طلب ہے کہ ملکی نظام میں ایک طرف اجتماع دشمن،انسانیت کش اور اِنفرادیت پسند عناصر کے ہاتھوں میں مطلق قوت نافذہ (absolute authority) ہے اور دوسری طرف نظام کے ان ناخداؤں کا مستقبل اس ملک سے وابستہ ہی نہیں کہ اپنی مدت حکومت کے اختتام پر یہ افراد ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ دورانِ اقتدار ان کے علاج معالجہ کا بندوبست ریاستی وسائل پر ملک سے باہر کیا جاتا ہے اور قومی وسائل پر ان کی اولاد بیرونِ ملک تعلیم حاصل کرتی ہے۔ ان کے کاروبار اور بینک اکاؤنٹس ملک سے باہر پھلتے پھولتے ہیں۔ گویا ان کا وطنِ عزیز سے تعلق صرف اور صرف حکمرانی اور مراعات سے جڑا ہوا ہے۔
موجودہ مفاداتی اور مراعاتی نظام میں جمہوریت کی بالادستی،آمریت کی دھائی،صدارتی نظام کا امرت دھارا (elixir) ، پارلیمانی نظام کا ورثہ ، اداروں کا تقدس،ملکی سالمیت کا تحفظ،بڑے صوبے کی بالادستی ،چھوٹے صوبوں کے حقوق،مرکز کی مضبوطی،نازک ملکی حالات،بین الاقوامی دباؤ، حقیقی آزادی کا خواب،خودمختاری کی آشا اور معیشت کے وینٹی لیٹر کے بارے میں ہو نے والی گفتگو میں اجتماعیت اور انسانیت کی حقیقی سوچ کا سرے سے وجود ہی نہیں۔صرف تخت اور تختہ کی ایک دوستانہ یا رقیبانہ ماحول میں ہونے والی فری سٹائل ریسلنگ ہے۔تاکہ عوام اپنے تمام مسائل بھلاکر، اس کے مناظر میں گم ہوکر اپنے اپنے پسندیدہ کھلاڑی کے حق میں گتھم گتھا رہیں۔جب عوام اس ڈرامہ سے تنگ آنے لگے تو متبادل پلان اور بہت سے کھیل تماشے بھی موجود ہوں۔
ایک یونانی دانش ور نے کہا تھا کہ:
لوگوں کو روٹی پانی اور کھیل کود کے چکر میں رکھو گے تو کبھی انھیں بغاوت کی نہیں سوجھے گی۔