قومی نظام کی تشکیل اور جماعت سازی کے تقاضے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • قومی نظام کی تشکیل اور جماعت سازی کے تقاضے

    قومی نظام کی تشکیل اور اس کے لئے قیادت سازی کی ضرورت و اہمیت

    By حذیفہ سعید Published on Jun 06, 2024 Views 1179

    قومی نظام کی تشکیل اور جماعت سازی کے تقاضے

    تحریر: حذیفہ سعید،ملتان

     

    ملک اس وقت سیلاب کی صورت میں ایک بڑے انسانی سانحہ اور اس کے مابعد اَثرات (after effects) میں ہے۔ اس کا درست اندازہ ایسے لوگ شاید نہیں لگاسکتے، جن کی ساری زندگی شہر کے حفاظتی حصار(protective boundary ) میں گزری ہو۔حقیقت یہ ہےکہ ابھی تک اس انسانی سانحہ(tragedy) کی مکمل تفصیلات دستیاب نہیں۔ تاہم کئی خاندان ختم ہوگئے یا اجڑ گئے اور زندہ بچ جانے والوں کی پوری زندگی بےبسی اور حسرت و افسوس کی تصویر ہے۔ان کی تمام تر جمع پونجی بہہ گئی۔عزت دار گھرانے شدید نفسیاتی صدمہ سے دوچار ہیں۔برسراقتدار طبقہ،سماجی تنظیمیں اور مذہبی گروہوں نے اس انسانی سانحے کو اپنی تشہیر کے لیے سنہری کاروباری موقع تصور کررکھا ہے اور ملکی نظام اور میڈیا "قدرتی آفت" کا ڈھنڈورا پیٹنے میں مصروف ہے، جس کا مقصد نظام، اس کے اداروں اور ہمنواؤں کے کالے کرتوتوں سے توجہ ہٹاکر قدرت کو موردِ الزام ٹھہرانا ہے اور بے حسی اور ڈھٹائی کا عالم یہ ہے کہ اس طرح کا عمل ہر چند سال بعد دہرایا جاتا ہے اور عوام الناس سے یہ جان لیوا مذاق جاری رہتا ہے ۔

    بارشیں ہمیشہ سے رحمت الٰہی کی نوید تصور ہوتی ہیں۔ان کی کثرت بھی کوئی انہونی بات نہیں،اس خطے کی تاریخ میں سالہا سال سے بارشیں ہوتی رہی ہیں۔ انسان اپنا نظام اسی لیے تشکیل دیتے ہیں کہ قدرتی عوامل سے بہتر طور پر استفادہ کرسکیں اور اس کی ذمہ دار انتظامیہ کا کام ہی یہ ہوتا ہے کہ ان بارشوں کے فوائد کو یقینی بنائے اور ان کے ممکنہ نقصانات سے بچانے کی سکیم بنائے اور ان کو رحمت سے زحمت بننے کے عوامل کے انسداد کے حوالے سے منصوبہ بندی کرے۔رحمت کو زحمت بناکر اس کو اپنے سفلی معاشی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے مواقع میں بدلنے اور اس کی آڑ میں کھربوں روپے کی امداد اور قرضے لے کر ضائع کرنے اور ہڑپ کرنے کی غیرتحریری(unwritten) جاری پالیسی سے تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ موجود نظام "مرے کو مارے شاہ مدار"(غریب کے سب بدخواہ ہوتے ہیں) کے اصول پر ظالم کے تحفظ کے لیے اور مظلوم کا خون چوسنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ 

    ملکی مسائل کے حل کے لیے اصولِ فطرت پر مبنی اپروچ کی ضرورت ہے،جیسے کچھ افراد کئی منزلہ مکان کے بالائی حصہ میں رہتے ہوں اور نیچے کی منزل میں پانی آجائے تو اس وقت بالائی طبقہ کی یہ سوچ خودکشی ہی تصور ہوگی کہ پانی سے نمٹنا صرف ان لوگوں کی ذمہ داری ہے، جن کے گھر میں پانی پہنچ چکا ہے،کیوں کہ ان کا حصہ پانی سے محفوظ ہے،جب کہ اس صورتِ حال میں عقل مند انسان وہی ہوگا جو صورتِ حال کو فوراً اپنا مسئلہ سمجھے اور اپنی استطاعت کے مطابق کردار ادا کرے نیز "متعلقہ" ادارے کو اطلاع کرے۔ لیکن صورتِ حال اس وقت پریشان کن بن جاتی ہے اگر پانی ہر سیزن میں آجاتا ہو اور "متعلقہ" نظام ہی غیرمتعلقہ ہوجائے تو کیا تدبیر اختیار کی جائے؟کس کو اطلاع کی جائے ؟ کس سے مدد مانگی جائے؟ اگر ان خطوط پر سوچا جائے گا تو یقیناً غیرمعمولی اقدامات کی طرف ہی سوچنا ہوگا۔موسموں کے مدوجزر جیسے قدرتی عوامل،نوع انسانی کی آمد سے پہلے ہی دنیا میں موجود ہیں اور ان عوامل میں تغیروتبدل ناقابل انکار حقیقت ہے۔شہروں کے بسانے اور تمدنوں کے بنانے کے پیچھے یہی سوچ تھی کہ قدرتی عوامل کو قدرتی آفات بننے سے روکا جائے۔ 

    اگر دیکھا جائے تو ملک کی ساری عمارت استحصالی نظام کے شوریدہ موجوں کی زد میں آچکی ہے،متعلقہ حکام ناکارہ ہوچکے ہیں اور اس نظام کا سرے سے وجود ہی نہیں جو ریسکیو کی صلاحیت رکھتا ہوکہ ان موجوں کی سمت بدلے۔ایسی صورت میں اجتماعی کاوش کی ناگزیریت واضح ہوجاتی ہے کہ عمارت کے مکین مل کر راست حکمتِ عملی تشکیل دے کر اس کو روبہ عمل لانے کے لیے سردھڑ کی بازی لگا دیں ۔ 

    اس ملک کے بقا کے لیے عادلانہ نظام کے قیام کی اشد ضرورت ہے،جو ناانصافی مٹائے، عدل بانٹے،رحمت کو زحمت نہ بننے دے،جو انسانیت کے درد کا مداوا کرے اور اس کے زخموں پر مرہم رکھے۔اس کے بغیر انسانی حقوق، بلکہ انسانی وجود کا تصور بھی ناممکن ہے۔اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی نظام بھی قیادت کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا اور کسی بھی ملک کی قیادت اس کے تعلیمی اداروں سے نمو پاتی ہے۔ 

    پاکستانی نظام کے اساسی اداروں کی طرح اس کے تعلیمی ادارے بھی بانجھ ہوچکے ہیں۔قیادت تو کجا وہ ہمارے نوجوان کو انسان دوست شہری بنانے سے بھی قاصر ہیں اور اس کا ادراک ملک کے کار پردازوں کو اچھی طرح ہے،اسی لیے وہ اپنی اولاد کی تعلیم و تربیت کے لیے بیرونِ ملک اداروں کا رخ کرتے ہیں ۔

    ملک کو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے اور نئی قیادت کے بغیر نظام کی تشکیل ممکن نہیں اور یہ قیادت یوٹیوبر خطیبوں سے اور بزعمِ خود مفکرین کے لیکچرز اور کتابوں سے پیدا نہیں ہوگی۔اس کے لیے باہم بات چیت اور تبادلہ خیالات سے آغاز کرنا ہوگا۔ایک دوسرے کی بات سننا اور اپنی بات کو سب کے سامنے دلائل کی روشنی میں آگے بڑھانا ہوگا۔ بہ ظاہر یہ ایک پیچیدہ،صبروتحمل، غوروخوض اور توجہ کا طالب اور دِقت(hard) طلب کام ہے اور وہ بھی اس معاشرے میں جہاں ہر عمل پلک جھپکنے (instantaneously ) سے ہونے کی مونہہ زور خواہش پائی جاتی ہو۔اس سطحی سوچ سے نکلنے کی ضرورت ہے کہ ایک بٹن دَبانے سے پوری دنیا چلائی جاسکتی ہے۔جو افراد مختلف شعبہ جات اور اداروں میں نظام یا نظم کو ترتیب و تخلیق کرتے ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ انھیں اس کی تشکیل میں کتنا وقت لگا اور کتنے دماغوں نے مل کر اس میں کردار ادا کیا اور اَب بھی اس کے جاری و ساری رکھنے میں مصروف ہیں تو اس صبر آزما عمل کے نتیجہ میں ہی ایک "کلک" کے اتنے تیز رفتار اور طاقت ور ہونے کا اندازہ ہوتا ہے۔

     جماعت سازی کے عمل میں بات چیت اور تبادلہ خیالات تو پہلی سیڑھی ہے،جس طرح ہمیں کوئی قیمتی چیز خریدنی ہو تو اس کی تلاش اور پرکھ میں بازاروں میں کئی دن سرگرداں رہتے ہیں،جب کہ اس عمل سے کہیں زیادہ اہم ایسے ادارے اور اساتذہ کی تلاش و جستجو ہے جو قیادت کا جوہر نوجوانوں کے اندر پیدا کرسکیں، جو ان کو اپنا آلہ کار بنا نے کے بجائے ان کی صلاحیتوں کو اجاگر کریں جو سوال کی ہمت افزائی کریں، بے سوچے سمجھے بات ماننے کی حوصلہ شکنی کریں۔جن کے قول و فعل میں تضاد نہ ہو اور جو نہ صرف رائے قائم کرنے کا فن سکھائیں، بلکہ اجتماعی رائے کو ذاتی رائے پر ترجیح دینے کی اخلاقی جرات بھی اپنے عمل سے پیدا کریں۔

    اس عمل کی طرف صرف وہی افراد متوجہ ہوں گے جو اس بدحالی کو دیکھ کر اس نتیجہ تک پہنچ جاتے ہیں کہ ان کو خود آگے بڑھنا پڑے گااور معاشرے کے لوگوں کا اجتماعی مفاد ان کے اپنے معاشرے میں ہی محفوظ رہتا ہے۔کسی طور دوسرے ملک میں پناہ تلاش کرنے سے نہیں۔ 

    جماعت سازی کا لازمی تقاضا ہے کہ ہم فکر افراد کے درد میں شریک ہوا جائے،اس کے لیے غربت،تنگ دستی اور مشقت کو صبر کے ساتھ اکٹھے جھیلنا پڑتا ہےاورحالات کے چیلنج کا مقابلہ مل کر کرنا پڑتا ہے۔طبقاتی طرزِعمل سے صالح قیادت وجود میں نہیں آتی۔ایسے لوگ صالح قیادت کے قابل نہیں ہوتے جو اپنے ساتھ پیدل چلنے والوں کے ساتھ پیدل نہ چل سکیں،قیادت کی اہلیت کے لیے وہی افراد موزوں ہوتے ہیں جو کہنے سننے اور مسلسل یاددہانی کے انتظار کے بجائے ازخود کام کرنے کی اپنے اندر تحریک پیدا کریں۔

    Share via Whatsapp