طبقاتی نظام اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اَثرات کا جائزہ
یہ کالم قدرتی طور پر آفات آنے سے ہونے والے غریب طبقہ کے نقصان کی وجوہات پیش کرنے کے لئے لکھا گیا ہے
طبقاتی نظام اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اَثرات کا جائزہ
رضوان غنی (میرپور آزاد کشمیر)
سرمایہ دارنہ نظام اور اس کے زیر اَثر بننے والے ماحول میں زندہ رہنا بھی اذیت ناک ہے۔اس نظام کے اَثرات کا اطلاق زندگی کے ہر پہلو پر ہوتا ہے یہ ذہنی و اخلاقی پستی کے ساتھ ساتھ طبیعاتی طور پر بھی ماحول کو آلودہ کررہا ہے۔سرمایہ دارانہ نظام میں ایک مخصوص طبقہ تمام وسائل پر قابض ہوتا ہےاور اس طبقے کو ہی ہر طرح کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔یعنی جس کے پاس سرمایہ ہے، اسے تمام اختیارات اور تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کی وَجہ سے آنے والی آفات کبھی نہیں دیکھتیں کہ اس کی وَجہ سے کون سا طبقہ متاثر ہورہا ہے،اس کے لیے لوگوں کے رنگ،نسل اور زبان کوئی معنی نہیں رکھتے۔لیکن اگر ہم تجزیہ کریں کہ ا ن تبدیلیوں کی وَجہ سے نقصان کا خمیازہ ہر بار عوامی طبقہ ہی اٹھا رہا ہے۔ توکیا ہمیں اس بات پر توجہ نہیں دینی چاہیے؟
موسمیاتی تبدیلی کے اَثرات ہر ذی روح پر ہوتے ہیں۔جنگل میں گرمی کی شدت زیادہ ہو تو تمام جانور سایہ دار جگہ کی طرف چلتے ہیں،ایسے ہی انسان بھی موسم کی شدت کے باعث سازگار ماحول کا انتخاب کرتا ہے۔جب کہ طبقاتی نظام میں کچھ لوگ تو درختوں کی چھاؤں میں بیٹھ کر اس تپش کو برداشت کرتے ہیں اور کچھ ائیرکنڈیشنڈ کمروں کا رخ کرتے ہیں۔ایسے ہی سردی کی شدت بھی موسمیاتی تبدیلی کے باعث پیدا ہوتی ہے، اس سے بچنے کے لیے کچھ لوگ لکڑی جلا کر اس شدت کا سامنا کرتے ہیں اور کچھ اپنے ہیٹر والے کمروں میں نرم بستر پر اس شدت کا سامنا کرتے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی تو قدرتی تھی، لیکن اس سے بچنے کے لیے انسانوں کے ایک طبقے نے سہولت کا راستہ اختیار کیا۔گویا وہ موسم کی شدت سے واقف ہی نہیں کہ گرمی کی شدت اور سردی کی شدت کیا ہوتی ہے۔جب کہ اس طبقاتی نظام میں عوام کی اکثریت کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جا تا ہے۔
آج ہمارا مذہبی طبقہ بہ ضد ہے کہ اس طبقاتی نظام کی غیرمنصفانہ تقسیم کو تقدیر قرار دے کر ثابت کرے کہ اللہ ہی کچھ کو کم دے کر آزماتا ہے اور کچھ کو زیادہ دے کر آزماتا ہے۔ جب کہ اللہ نے انسان کو خلیفہ کا درجہ دیا ہے اور اس کی ذمہ داری لگائی ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو لوگوں میں عدل کی بنیاد پر تقسیم کرے،جن کے پاس ضرورت سے زیادہ ہے ان سے لے کر ان تک پہنچائے، جن کے پاس اس کی کمی ہے۔
انگریز کے نوآبادیاتی نظام سے پہلے ہمارا یہ خطہ تمام قدرتی وسائل سے مالا مال تھا۔ یہاں بھی قدرتی آفات سیلاب،زلزلہ یا قحط کی شکل میں آئیں۔لیکن اس دور میں ان آفات نے کسی مخصوص رنگ و نسل کو ایسے نقصان نہیں پہنچایا، جیسے آج عوام الناس کو نقصان پہنچ رہا ہے۔انگریز نے یہاں طبقاتی نظام رائج کیا، جس کا مقصدمقتدر طبقہ کو عام عوام سے منفر د رکھنا ہے۔ تاکہ وہ کسی آفت سے بچنے کے لیے اس عوام کو لقمہ اجل بنا سکے۔نیز اس نے اس نظام کے تحفظ کے آلہ کار افسر شاہی اور غدار طبقہ پیدا کیا ۔آج اس نظام اور اس کے نمائندہ طبقات کی وَجہ سے عوام الناس مسائل اور مصائب سے دوچار ہیں۔
آج سرمایہ داری نظام کے حامل صنعتی ممالک خام مال( Raw material) کے حصول کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کو استعمال کر رہے ہیں۔اور پھر اسی سے پروڈکٹ تیار کرکے ہمارے ملکوں کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شکل میں فروخت کر رہے ہیں۔ گویا را میٹریل سے پروڈکٹ کی تیاری تک تمام کنٹرول ان صنعتی ممالک کا ہے۔اور تیسری دنیا کے ممالک کی معیشت مکمل طور پر ان کےکنٹرول میں ہے۔ ان صنعتی ممالک کی سرمایہ کی ہوس اور بیش بہا پیداواری عمل کی وَجہ سے ہوا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے اور یہی ممالک ماحولیاتی آلودگی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کے ذمہ دار ہیں۔نیز تیسری دنیا کے ممالک ان آفات میں استعماری ممالک کی امداد اور چندے پر انحصار کرتے ہیں اور نتیجے میں وہ ایسے معاہدات کرتا ہے، جس کی بنیاد پر وہ ان ممالک کے وسائل پر قبضہ کرتا ہے اور انھیں اپنا غلام بناتا ہے۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ عالمی استعماری قوتوں کے مفادات کی بھینٹ چڑھنے کے بجائے اپنے عوام کے تحفظ اور فلاح و بہبود کے لیے عوام دوست نظریے کی بنیاد پر قومی نظام تشکیل دیا جائے۔جو قومی سلامتی و تحفظ اور عوام کی معاشی خوش حالی کے آزادانہ فیصلے کرنے میں بااختیار ہو۔بعدازاں ایک ایسا علاقائی اتحاد تشکیل دیا جائےجو ان ممالک کی استحصالی کارروائیوں کا راستہ روک سکے۔