سماجی تبدیلی : عوامل و حکمت عملی
عوامی حلقوں میں نظام ظلم کے خلاف مزاحمتی شعور کا پیدا ہونا یقیناً حقیقی انقلابی جماعت کے لۓ سودمند ہے,
سماجی تبدیلی : عوامل و حکمت عملی
حبیب الرحمان۔ اکوڑہ خٹک، ضلع نوشہرہ
آج کل وطنِ عزیز کی سیاسی و معاشی صور تِ حال کسی سے پوشیدہ نہیں۔روز بروز بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور بنیادی حقوق کی پامالی سے عوام میں بے چینی اور اِضطراب کی ایک لہر پیدا ہو رہی ہے۔عوامی مسائل کا بنیادی سبب وطنِ عزیز میں مسلط سرمایہ دارانہ نظام اور اس کے نمائندہ حکمران ہیں۔جب کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے مرکزی ادارے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف تیسری دنیا کے غریب ممالک کو اپنے شکنجے میں لے کر امداد اور قرض کے نام پر لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کیے ہو ئے ہیں۔اور رہی سہی کسر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا گھناؤنا کردار پورا کررہا ہے۔یہ کمپنیاں تیسری دنیا کی دولت کو لوٹ کر غربت و افلاس پیدا کر رہی ہیں۔
نیز ملکی اشرافیہ کی شاہانہ اور عیاشیوں پر مبنی طرزِ زندگی اور مراعات کا بے دریغ استعمال عوام پر آشکار ہونے سے عوام میں اپنے مسائل کا سبب جاننے اور اس کے حل کرنے کی فضا قائم ہو رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بیرونی قوتوں کی مداخلت اور ان کا ملکی معاملات میں دباؤ قوم پر عیاں ہو رہا ہے،جس سے ہماری آزادی و خودمختاری کی حقیقت واضح ہورہی ہے۔اور ہمیں بہ حیثیت قوم اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ ہم پہلے انگریز کے براہِ راست غلام تھے ۔اور آج ہم نظام سرمایہ داری کےنمائندوں اور آئی ایم ایف کے غلام ہیں۔ عوامی حلقوں میں نظامِ ظلم کے خلاف مزاحمتی شعور کا پیدا ہونا یقیناً خوش آئند بات ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ پائیدار سماجی تبدیلی اس وقت تک ممکن نہیں، جب تک سماج میں بسنے والے انسان خود اپنی حالت بدلنے کی سعی اور جدوجہد نہ کر یں۔سماجی تبدیلی کا عمل ایک جامع اور وسیع تصور رکھتا ہے،جس میں معاشرے کے ہر شعبے کو عدل و انصاف کی کسوٹی پر پرکھا جاتا ہے۔اور ہرقسم کے ظلم وجبر اور نا انصافی کا خاتمہ کرکے اجتماعی عدل کا قیام عمل میں لایا جاتا ہے۔
سماجی تبدیلی کے کئی عوامل و عناصر ہوتے ہیں،جس میں سیاسی، معاشی،سماجی اور قدرتی عوامل شامل ہیں۔
کسی بھی سماجی تبدیلی میں سیاسی عوامل بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔جب دنیا پر مسلمانوں کا سیاسی غلبہ قائم ہوا تو اس نے پوری دنیا کی تہذیب اور تمدن کو دینِ اسلام کی تعلیمات سے منور کیا۔لیکن جب سے اجتماعی زوال آیا اور مغرب نے سیاسی غلبہ پایا تو مسلمان معاشروں میں بھی اُن کی زبان ،رہن سہن اور علوم و فنون کو اپنانے کا عمل شروع ہوگیا۔
اسی طرح جب کوئی قوم معاشی لحاظ سے ترقی کر جاتی ہے تو اس کے ہاں علوم و فنون کو ترقی ملتی ہے اور وہاں ایسے نابغہ روزگار اور صاحب عزیمت شخصیات پیدا ہوتی ہیں جو اپنی قوم کو پیش آمدہ مسائل کے گرداب سے نکالنے کا ذریعہ بن جاتی ہیں۔
سماجی تبدیلی میں ایک اہم عنصر قدرتی عوامل کا بھی ہے۔کیونکہ قدرتی ماحول کے انسانی معاشرے پر گہرے اَثرات مرتب ہوتے ہیں۔
تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ جن تہذیبوں نے دریاؤں یا سمندروں کے کناروں پرجنم لیا۔اور وہاں کسی بڑی تہذیب کو فروغ حاصل ہوا ہو یا جہاں بڑی شہری آبادیوں سے تحریک اُٹھی ہو اور وہاں کمیونیکیشن کے ذرائع میسر ہوں۔تو ان علاقوں میں برف پوش پہاڑوں میں آباد تہذیبوں کی نسبت جلد سماجی تبدیلیاں وقوع پذیر ہوئی ہیں۔
سماجی تبدیلی کا عمل ایک سائنس ہے،جس میں درج ذیل امور کا سمجھنا انتہائی اہم اور ضروری ہے۔ سب سے پہلے اپنی سوچ اور فکر کو پروپیگنڈے سے آزاد کرکے موجودہ حالات و واقعات کا درست تناظر میں تحلیل وتجزیہ کرکے ایک اعلیٰ نظریہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔
اور پھر اس اعلیٰ نظریہ کی اساس پرعصرحاضر کے تقاضوں کو پیش نظر رکھ کر جدوجہد کی دُرست سمت کا تعین کرنا ہوتا ہے جو منزل مقصود کی جانب کامیابی کی پہلی سیڑھی ہے۔نیز جو ایک منظم اور مربوط تربیت یافتہ جماعتی شکل اختیار کرکے سماجی تبدیلی کا ذریعہ بن سکتی ہے۔
جب کہ دوسری جانب عام شہری جو سماجی تشکیل کے اِن مُسلمہ عوامل اور اصولوں سے ناواقف ہوکر جذباتی اور کھوکھلے نعروں سے متاثر ہوکر مروجہ سیاسی جماعتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے آلہ کار لیڈروں کو اپنا مسیحا سمجھ بیٹھتے ہیں۔انھیں اس حقیقت سے روشناس کرانا ضروری ہے کہ عوامی مسائل کا حل حقیقی شعوری سماجی تبدیلی کے بغیر ممکن نہیں۔اور موجودہ سیاسی و مذہبی جماعتیں اور ان کی لیڈرشپ اسی نظام کی پیداوار و علمبردار ہیں۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ سماجی تبدیلی کے لیے شعوری جدو جہد کی جائے۔اور تشکیل نو کے لیے عصر حاضر کے امام شاہ ولی اللہؒ کے افکار و نظریات کی روشنی میں ایک منظم اور تربیت یافتہ جماعت تیار کی جائے۔جو حقیقی معنوں میں پہلے درجے میں قومی سطح پر سماجی تبدیلی اور بعدازاں بین الاقوامی تبدیلی کا ذریعہ بنے۔ اور انسانیت کو اس ظالمانہ سرمایہ داری نظام سےنجات دلائے۔