رمضان میں کُھلے شیطان
روزہ کے عملی تقاضوں کے مطابق سسٹم کی تشکیل کی ضرورت و اہمیت تاکہ روزہ کے عملی نتائج حاصل ہوں۔
رمضان میں کھلے شیطان
تحریر: محمد عدیل خالد۔ لاہور
آج رمضان المبارک کا پہلا عشرہ گزر گیا اور حسبِ روایت عوام رمضان میں پیدا ہونے والی مخصوص مہنگاہی کا سامنا کرتے رہے۔ یہ رمضان میں ظاہر ہونے والی ہماری بہت سی بداخلاقیوں کا ایک اہم پہلوہے۔ رمضان کی آمد سے پہلے ہی پاکستان میں پھلوں اور سبزیوں کی ذخیرہ اندوزی کا آغاز ہو جاتا ہے۔ بڑے بڑے منافع خور سرمایہ دار رمضان کے مہینے کا انتظار کرتے ہیں تاکہ اس ماہِ مبارک میں اپنے منافع کو نہ صرف کئی گنا بڑھا سکیں بلکہ ناقص اور گلا سڑا پھل و سبزیاں بھی عوام کی خدمت میں پیش کریں۔
حالانکہ بحیثیتِ مسلم اکثریتی معاشرے کے، ہمیں ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری کی ممانعت پر حضورﷺ کی احادیثِ مبارکہ معلوم ہیں۔ جیسا کہ حضرت معمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذخیرہ کرنے والا خطا کار ہے۔ اسی طرح حضرت عمرؓ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے۔ حضرت عمرؓ سے ایک اور روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص نے مسلمانوں کے خلاف غذائی اجناس کا ذخیرہ اندوزی کی اللہ تعالیٰ اس پر ،غربت افلاس اور جذام کی بیماری مسلط کردینگے (دیکھئے مشکوٰۃ باب الاحتکار)۔
ہر سال اس اہم ایشو پر بہت سے فیچرز و کالم لکھے جاتے ہیں۔ حکومت کی طرف سے وعدے وعید ہوتے ہیں کہ اس سال مہنگائی نہیں ہونے دی جائے گی۔ دکھاوے کے طور پر چند ایک چھاپے مارے جاتے ہیں، کچھ جرمانے ہوتے ہیں، حکومتی میڈیا کچھ علاقوں میں قیمتوں پر کنٹرول بھی دکھاتا ہے لیکن مجموعی نتیجہ وہی رہتا ہے کہ عوام ہوتے ہیں اور مہنگائی۔ مثال کے طور پر اس سال رمضان کی آمد کے ساتھ ہی پھلوں اور سبزیوں کے ریٹ بڑھ گئے ہیں جیسے کیلا 200 روپے، سیب 400، لیموں 400، خربوزہ 150 روپے تک فروخت ہو رہا ہے۔ یہ قیمتیں عمدہ ورائیٹی کی بطور مثال درج کی گئی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی جھوٹ، دھوکہ دہی، اور لوٹ مار کا ایک سیلاب مارکیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یہ وہ معاملات ہیں جس پر ہمارے اہلِ قلم ہر سال اپنا زورِ قلم خوب صرف کرتے ہیں لیکن کوئی ٹھوس نتیجہ برامد نہیں ہوتا۔
آئیے بد اخلاقیوں کے ایک دوسرے پہلو کا جائزہ لیتے ہیں۔ رمٖضان کی آمد کے ساتھ ہی معاشرے میں نمود و نمائش اور اسراف جیسی بد اخلاقیوں کا ایک طوفان امڈ آتا ہے۔ ایک طرف نمود و نمائش کے لیے جا بجا کھلے ہوئے ریسٹورانٹس ہیں جن میں افطار و سحری کے بوفے کی پیشکش کی جاتی ہے جس کی قیمت عموما فی کس 1500 روپے سے 3000 روپے تک ہو سکتی ہے۔ آپ اندازا لگا سکتے ہیں کہ چار افراد پر مشتمل ایک چھوٹا سا گروپ 6000 سے 12000 روپے میں ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے اور اس دوران اکثر اپنی مغرب یا فجر کی نماز بھی ضائع کرتا ہے۔ یاد رکھیے کہ ہم ایک ایسے ملک میں رہ رہے ہیں جس کی 60٪ سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے جانوروں جیسی زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔ اسی طرح کارپوریٹ سرکلز، رشتہ داروں، دوست و احباب کے درمیان آئے روز افطار پارٹیاں ہوتی ہیں جن میں نمود و نمائش کا خوب اظہار ہوتا ہے اور بے دریغ اسراف کیا جاتا ہے۔ پہلے افطار کے وقت دس سے پندرہ ڈشسز سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے اور پھر تھوڑی دیر بعد رات کے کھانے میں انواع و اقسام کے کھانے چُن دیے جاتے ہیں۔ طبی نقطہء نگاہ سے تو سارا دن روزہ رکھنے کے بعد بھی ہم اتنا ہی کھا سکتے ہیں جتنا کہ ایک نارمل انسان ایک وقت میں کھانا کھاتا ہے۔ چنانچہ ایسی دعوتوں اور افطار پارٹیوں کا نتیجہ نمود و نمائش کے علاوہ معدہ کی گرانی اور بدہضمی کی صورت میں نکلتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ اللہ کا ذکر، اس کی عبادت جیسے فرائض اور نماز وتراویح سے بھی توجہ ہٹ جاتی ہے۔ نمود و نمائش کا ایک اور طریقہ سرمایہ دار طبقات کی جانب سے اپنے برانڈ اور اپنے نام کی مشہوری کے لیے راشن پیکٹس کی تقسیم ہے جس سے انسانیت کی نہ صرف تذلیل کی جاتی ہے بلکہ اپنے امیر ہونے کے فخرومباہات کے ساتھ ساتھ اپنے بزنس کی مارکیٹنگ بھی کی جاتی ہے۔
ان بداخلاقیوں کا ایک تیسرا پہلو بھی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ رمضان المبارک میں بھیک مانگنے کا کاروبار اپنی عروج پر پہنچ جاتا ہے۔ پیشہ ور بھکاریوں کے گروہ در گروہ رمضان کے نام پر لوگوں سے مال اکٹھا کرتے ہیں۔ اس مہیںے میں بھیک مانگنے والوں کی چاندی ہو جاتی ہے اور سفید پوش مستحق لوگ محروم رہ جاتے ہیں۔ کسی معاشرے میں بھیک مانگنے والوں خصوصا پیشہ ور بھکاریوں کی کثرت ایک بہت بڑی لعنت ہے۔ یہ ایک بہت بڑی معاشرتی بد اخلاقی ہے۔ نبی ﷺ کی حدیث ہے کہ بھیک مانگنے والے کے چہرے پر حشر کے دن داغ ہوگا۔ اسی لیے مسلمانوں کے عروج کے دور میں بہت سی ایسی مثالیں ملتی ہیں کہ مسلمان حکمرانوں نے بھیک مانگنے پر باقاعدہ سرکاری طور پر پابندی لگائی اور حکومتی سسٹم کے ذریعے مستحق افراد تک وظائف پہنچنے کا انتظام کیا۔
ان بداخلاقیوں کا ایک چوتھا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ حکومتِ کوشش کے باوجود ان مسائل کو حل نہیں کر پاتی خاص طور پر مہنگائی کے بے قابو جن کے آگے بےبس نظر آتی ہے۔ نہ اعلیٰ سطحی اجلاس کوئی نتیجہ پیدا کر پاتے ہیں، اور نہ حکومت کی جانب سے قائم کی گئی پرائس کنٹرول کمیٹیاں ٹھوس نتیجہ پیدا کرپاتی ہیں۔ اگر کوئی کارروائی کی بھی جاتی ہے تو محض دکھاوے اور عوامی تسلی کے لیے کی جاتی ہے۔ حیرت انگیز طور پر پرائس کنٹرول کمیٹی کے چھاپے سے قبل ہی ”غیب“ سے دکانداروں اور ریڑھی والوں کو چھاپے کی اطلاع ہوجاتی ہے اور وہ مجسٹریٹ کے آنے سے قبل اشیاء سرکاری قیمتوں پر فروخت کرنے لگتے ہیں اور جیسے ہی مجسٹریٹ اپنی ٹیم کے ہمراہ موقع سے رخصت ہوتے ہیں دوبارہ من مانی قیمتوں پر اشیاء کی فروخت شروع ہوجاتی ہے۔ اسی طرح اس ماہ رمضان کی آمد سے عین پہلے اوگرا کی جانب سے پیٹرول کی قیمتوں میں اضافہ کی سمری فیڈرل کیبنیٹ کو بھیجی گئی جس کے بعد وزیرِاعظم عمران خان نے اس پر فیصلہ مؤخر کرتے ہوئے اس کو مزید غوروخوض کے لیے ای سی سی کو بھیجا اور وہاں سے منظوری کے بعد رمضان سے محض دو دن پہلے پٹرول کی قیمت میں 9 روپے 42 پیسے اضافہ کر دیا گیا۔ اور اس کے ساتھ ہی تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر کنٹرول قائم رکھنے کے حکومتی دعوے دھڑام سے زمین پر آ گرے۔ اس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ہماری حکومت چاہ کر بھی آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر عملدرآمد نہیں روک سکتی۔
آئیے جائزہ لیں کہ آخر ہمارے معاشرے میں رمضان میں کُھل کر ظاہر ہونے والی ان بداخلاقیوں کہ وجہ کیا ہے۔ یہ سوال اس حوالے سے بھی نہایت اہم ہے کیونکہ نبیﷺ کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ رمضان میں شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : "جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیطانوں اور سرکش جنوں کو بیڑیاں پہنا دی جاتی ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ کھولا نہیں جاتا جبکہ جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان میں سے کوئی دروازہ بند نہیں کیا جاتا۔ ایک منادی پکارتا ہے : اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا۔ اﷲ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے" (جامع ترمزی)۔
لیکن ہم اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اس کے برعکس دیکھتے ہیں اور اس کا ثبوت اوپر بیان کی گئی بداخلاقیاں ہیں۔ اس سوال کا جواب حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس جملہ سے ملتا ہے,آپ اپنی شہرہ آفاق کتاب حجتہ اللہ البالغہ، باب 46 میں فرماتے ہیں کہ:
" وَ اِذَا جُعِل رَسماً مَشہُورً اَنفَعَ عَن غَوائِلِ الرَّسُومِ وَ اِذَا التَزَمَہُ اُمَّۃ مِنَ الاُمَمِ سُلسِلَت شَیَاطِینُہَا وَ فُتِحَت اَبوَابُ جَنَانِہَا وَ غُلِّقَت اَبوَابُ النِّیرَانُ عَنہَا"۔ (بابُ اَسرَارِ الصَّومِ)
ترجمہ: اور جب اسے مشہور(مروج) رسم بنا لیا جائے تو یہ رسمی خرابیوں سے بچاتی (نفع دیتی) ہے۔ اور جب قوموں میں سے کوئی قوم، اس کو اپنے لیے لازمی کر لے تو پھر ان کے شیاطین جکڑ دیے جاتے ہیں اور ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان پر دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔
حضرت امام شاہ ولی اللہ رحمتہ اللہ علیہ کے اس قول کی وضاحت یہ ہے کہ روزہ کو جب مشہور(غالب) رسم بنا لیاجائے یعنی ملک کے تمام لوگ اجتماعی طور پر روزہ رکھیں اور اس کے تقاضے پورے کریں تو یہ حجابِ رسم توڑتا ہے۔ یعنی سسٹم، ماحول، اور معاشرے کا وہ دباؤ جو انسان کو اللہ کی راہ پر چلانے سے روکتا ہے، روزہ اس دباؤ کو ختم کرتا ہے۔ شاہ صاحب کے قول کے دوسرے حصے میں پوری قوم کا روزے کو اپنے لیے لازمی کرنے کا ذکر ہے۔ قوم کے لیے کسی عمل کے لزوم کا مطلب یہ ہے کہ اس عمل کے لیے اور اس عمل کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے سسٹم بنا دیا جائے، اس پر قانون سازی ہو جائے اور اس کا عملی نفاذ ہو جائے۔ پھر ہی کوئی عمل "لازمی" کے درجے میں آتا ہے۔ چنانچہ جب کوئی پوری قوم اپنا اجتماعی نظام روزہ کی کیفیات اور تقاضوں کے مطابق بنا لیتی ہے۔ بحیثیتِ قوم روزہ کی پابندی اختیار کر کے اس کے مقاصد و اہداف کو پورا کرتی ہے یعنی سرمایہ پرستی کا نظام توڑ کر انسان دوستی کا عادلانہ معاشی نظام نافذ کرتی ہے، ذخیرہ اندوزوں اور ناجائز منافع خوروں کو نکیل ڈالتی ہے، ان پر سخت سزائیں مقرر کرتی ہے، رمضان کو منافع خوری کا ذریعہ بنانے کی بجائے اجتماعی اخلاق اور کردار کی درستی کو ہدف بناتی ہے تو پھر ایسی قوم کے شیاطین کو جکڑ دیا جاتا ہے۔ ان کے لیے جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ان پر دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ خرابی ہمارے نظام اور سسٹم میں ہے جس کی وجہ سے انسانی شیاطین نہ صرف کُھلے پھرتے ہیں بلکہ مزید بداخلاقیوں کو فروغ دیتے ہیں۔
یاد رہے کہ دنیا کی جنت امن، خوشحالی، عدل و انصاف اور اعلیٰ اخلاق پر مبنی معاشرہ ہے اور دنیا کی دوزخ خوف، بدامنی، دہشت گردی، ظلم، ناانصافی، اور برے اخلاق پر مبنی معاشرہ ہے۔ آئیے حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کی روشنی میں اپنے سسٹم اور معاشرے کا جائزہ لیں اور اجتماعی حوالے سے درست لائحہء عمل تشکیل دینے کی جدو جہد کریں ۔