پراپرٹی کے بزنس کی تباہ کاریاں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پراپرٹی کے بزنس کی تباہ کاریاں

    اس سرمایہ دارانہ نظام نے مقابلے کی اس دوڑ میں سب کو اندھا کر دیا ہے، آخرت کی فکر تو چھوڑیں کل کیا ہوگا اس کی فکر سے بھی غافل کر دیا ہے۔

    By Awais Mir Published on Jul 28, 2022 Views 916
    موضوع : پراپرٹی کے بزنس کی تباہ کاریاں
    اویس میر ۔ راولپنڈی 

    مثل مشہور ہے کہ چھوٹے اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ عوام ہمیشہ حکمراں طبقات کے نقش قدم پر چلتے ہیں۔اس سلسلے میں ہم غور و فکر کی الجھن نہیں پالتے کہ ہمارے عمل کا کیا نتیجہ نکلے گا یعنی ہماری تربیت میں یہ بات شامل ہی نہیں ہے کہ اپنے اعمال کے اثرات و نتائج کا جائزہ لے سکیں اور بدلتے ہوئے حالات اور بڑھتے ہوئے مسائل کا اندازہ لگا سکیں ۔وسائل کی تنظیم اور ترقی بھی ہمارا موضوع نہیں رہا ۔یہی وَجہ ہے ہم ایک ایسے بھنور میں سفر کر رہے ہیں، جس میں ہمیں اپنی آنکھیں کھولنے کا موقع بھی میسر نہیں ۔اور ہم سمجھ رہے ہیں کہ ہم ڈزنی لینڈ کی مشہور زمانہ رولر کوسٹر میں بیٹھے ہیں۔ سنتے آئے ہیں کہ ہمارے ملک میں 70فی صد آبادی دیہات میں رہتی ہے اور زراعت سے وابستہ ہے ،یعنی ہم زرعی اجناس میں خودکفیل اور دنیا میں پہلے دس ممالک میں شامل ہیں، لیکن بھلا ہو اس عادت کا جس میں غور و فکر شامل ہی نہیں ہیں۔ بس اپنا ذاتی مفاد قومی یا سماجی مفاد سے بالاتر رکھنا ہے اور گاڑی فاسٹ لین میں چلانی ہے ۔
    جہاں ملکی پالیسیوں نے زراعت کے شعبے کو تباہ کیا وہیں زمین بیچنے اور شہروں میں کاروبار کے رویے نے فروغ پایا اس کے ساتھ ساتھ پراپرٹی کے بزنس نے نئے نئے رنگ سے قوس قزاح کے سراب میں مبتلا کیا ۔اور بے تحاشا نفع اندوزی کا نیا مینا بازار سج گیا جہاں خریدار بے حیثیت اور بے وقعت ریاست کے تمام اداروں میں اس کی سننے والا کوئی نہیں ہر طرف مفاد لالچ خود غرضی نے اندھا کردیا ہے ۔
    تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور دیہاتوں، گاؤں اور چھوٹے شہروں میں کم سہولیات و روزگار نے لوگوں کو بڑے شہروں کی طرف رخ کرنے پر مجبور کردیا۔ اس سے طلب میں یک دم اضافہ ہوا اور لوگوں کو گھروں کی ضرورت محسوس ہوئی۔ اس پر بااثر افراد اور اداروں نے اس کاروبار میں چھلانگ لگائی اور سب اچھا کر کے لوگوں کی اس ضرورت کو اپنی خود غرضی کی نذر کیا۔ ظاہر ہے اس میں یہ کیا سوچنا کہ "ٹاؤن پلاننگ" بھی کسی چیز کا نام ہے ۔ بغیر منصوبہ بندی کے عارضی فائدہ تو اٹھایا جا سکتا ہے، لیکن اس کے نقصانات اندازہ نہیں کر سکتے ہیں اور ایسا ہی ہوا، منافع خوروں کی اس ہوس نے پھر سب کچھ اوپر نیچے کر دیا۔ 
    شہروں میں تمام وہ زرعی زمینیں جو ہماری روز مرہ کی ضروریات پورا کرتی تھیں ان کو کم پیسوں پر خریدا گیا یا پھر قبضہ کر لیا گیا۔ یہ بھی نہیں دیکھا کہ زمین بیوہ کی ہے یا یتیم کی اور اس سب میں ریاست کے کردار پر بھی سوالیہ نشان ہے۔
    جن کے ہاتھ بڑے تھے انھوں بڑی سوسائٹیاں بنائیں، چھوٹوں نے چھوٹی اور ان سے چھوٹوں نے گھر بنا بنا کر، زمینوں کی فلنگ کر کر بیچیں۔ بھاڑ میں جائیں پارکس کی جگہ، قبرستان اور سیورج اور برساتی نالوں کا سسٹم۔ کسی نے ان سب چیزوں کا نہیں سوچا کہ جب انسان رہیں گے تو انھیں پینے کے لیے استعمال کے لیے پانی کی ضرورت پڑے گی، بغیر کسی منصوبہ بندی کے کنسٹریکشن کی گئی اور اس کی کوئی جامع پلاننگ نہیں کی گئی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ چھوٹے پانی کے ذخیرے کے لیے ڈیم یا بند بنائے جاتے اور پانی کا سسٹم انتظامیہ ہاتھ میں رکھ کر گھروں تک لائینوں کے ذریعے پانی پہنچاتی، لیکن اس تردد میں کیوں پڑتے ؟ مقصد چیز کا بیچنا اور پیسہ کمانا تھا۔ اور تو اور قدرتی برساتی نالوں کو بند کر کے ان کے اوپر کمرشل پلازے بنا دیے گئے۔ اب پانی نے تو اپنا راستہ بنانا تھا اور وہی ہوا جو اب اس برسات میں ہو رہا ہے۔یہ سب کرنے والوں کو منافع سے غرض تھا وہ انھوں نے کما لیا، سوسائٹی ڈوبے، شہر ڈوبے یا ملک، ہماری بلا سے۔ یہی سب پارکس، قبرستان اور سیوریج کے معاملے میں کیا گیا۔ یا تو سرے سے جگہ ہی نہیں رکھی گئی یا پھر ناقص پلاننگ کر کے وقت گزاری کی گئی اور نفع حاصل کر کے نیاجال لائے پرانے شکاری اور اس سب میں انھوں نے حکومتی افراد و اداروں کو ساتھ ملا کر اس سب پر ایکشن لینے سے روکے رکھا اور آج صورتِ حال یہ ہے کہ اب اس پر کیسے ایکشن لیا جائے ؟ انتظامیہ کو 20 سال بعد ہوش آتا ہے تو انھیں بلڈنگز اور سوسائٹی کو گرانے کا حکم جاری کرتی ہے ، جس کو بیچا تو سرمایہ داروں نے، لیکن جب گرانے کا وقت آتا ہے تو اس میں عام عوام رہائش پذیر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کراچی میں کئی بلڈنگز جو نالوں کے اوپر بنائی گئی تھیں ، اس وقت کسی انتظامی عہدے دار نے نہیں روکا اور کئی سالوں بعد اس کو گرانے کا حکم جاری کر دیا۔ کیا اس وقت یہ فیصلہ اور اقدامات درست ہیں ؟
    اگر ادارے و انتظامیہ بروقت ایکشن لیتے تو آج عوام ایسے ذلیل نا ہو رہی ہوتی۔لیکن ان سب کو کیا، ان کے بچے اعلیٰ تعلیم یا کاروبار کے لیے باہر چلے گئے ہیں وہ خوش ہیں، عوام یہاں مرے کھپے انھیں کیا۔اس وقت جو اسٹرکچرل نقصان بڑے شہروں کو ان منافع خوروں نے پہنچا دیا ہے اس کا خمیازہ اگلی نسلیں بھگتیں گی۔ 
    اگر ریاست سنجیدہ ہوتی تو ہم صنعتیں لگاتے، ریسرچ پر پیسے لگاتے، زراعت کو فروغ دیتے تو وہ تھوڑا کم نفع کماتے لیکن ملک کا تو بھلا ہوتا۔اس سرمایہ دارانہ نظام نے مقابلے کی اس دوڑ میں سب کو اندھا کر دیا ہے، آخرت کی فکر تو چھوڑیں کل کیا ہوگا اس کی فکر سے بھی غافل کر دیا ہے۔ ملک کی محبت جسے ایمان کا حصہ کہتے ہیں وہ تک ختم کردی ہے۔
    ہمیں چاہیے کہ ہم مستقبل کے اس خوف سے باہر نکلیں، جسے ان سرمایہ پرستوں نے ہم پر مسلط کر رکھا ہے اور سرمایہ کاری سے پہلے قاعدے قانون کو سامنے رکھتے ہوئے ریاستی اداروں سے تحریری دستاویز یا جواب ایسی اسکیموں کے متعلق طلب کریں ۔بدلتے ہوئے زمانے میں اپنی آواز کی طاقت کو محسوس کریں ان جیسے اور بھی اجتماعی مسائل کے لیے اس فرسودہ نظام کو بدلنے کے لیے غور فکر کی عادت اپنے بچوں میں بھی پیدا کریں ورنہ یہ ہوس اور انفرادیت پسندی کا جنون وقت سے پہلے ہمیں تباہ کردے گا ۔ ہمیں اپنے اور ملک کے مستقبل کے لیے اپنے آج کو قیمتی بنانا ہوگا ۔ ورنہ ہماری روایات اور اقدار کی طرح ہماری نسلیں بھی اس سیلاب کی نذر ہوجائیں گی ۔
    Share via Whatsapp