چین روس اور یورپ سے متاثر کیوں؟ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • چین روس اور یورپ سے متاثر کیوں؟

    نوجوان یورپ،روس اور چائینہ سے متاثر نظر آتے ہیں اور آۓ روز ان کے سوالات اسی تناظر میں ہوتے ہیں کہ یورپ ایسا ہے،چین ایسا ہے،روس ایسا ہے وغیرہ

    By اعتدال حسین شاہن Published on Jul 11, 2022 Views 608
    چین،روس اور یورپ سے متاثر کیوں؟
    سید اعتدال حسین شاہ ترمذی- چھتر پلین ۔  مانسہرہ 

    آج الیکٹرانک میڈیا یا سوشل میڈیا کے بے روک پھیلاؤ نے خواہشات، توقعات اور امیدوں میں بھی بےحد اور کبھی کبھی بے جا اضافہ کردیا ہے ۔ اور نوجوان اپنی قومی و علاقائی تاریخ کو نظر انداز کرتے ہوئے یورپ،روس اور چائنا سے متاثر نظر آتے ہیں اور تجزیہ کے بجائے آئے روز ان کے سوالات اسی تناظر میں ہوتے ہیں کہ یورپ ایسا ہے،چین ایسا ہے،روس ایسا ہے، وہاں کا نظام وہاں کا رہن سہن وہاں کی ہر چیز سے خیالی طور پر متاثر نظر آتے ہیں۔
    دوستو! آپ کو یہ بات معلوم ہوگی کہ ان ممالک میں انقلابات آئے۔ 
    انقلاب کا لفظ انتہائی غیرمعمولی تاثیر رکھتا ہے، یہ لفظ اپنے اندر معانی کا ایک جہان رکھے ہوئے ہے۔ یعنی شعوری سماجی تبدیلی کا ایک ایسا وسیع تصور جو سماجی سیاسی اختلافات کوسمجھتے ہوئے ایک بڑے مقصد کے لیے اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا نام ہے۔ عام طور پر انقلاب کے لیے سب سے پہلے ایک نصب العین متعین ہوتا ہے، اس پر لائحہ عمل یا پروگرام طے پاتا ہے ۔ یوں اس سب کو قبول کرنے والے ایک جماعت بناتے ہیں ۔ یہ سہ جہتی عمل تقاضا کرتا ہے کہ کوئی فکر و فلسفہ اس کے پیچھے مرکزی قوت کے طور پر موجود ہو۔ 
    جیسے روس کا انقلاب مارکس کے فلسفے پر آیا،چین کا انقلاب ماؤ زے تنگ کی قیادت میں آیا،اسی طرح فرانسیسی انقلاب بھی ایک فلسفہ رکھتا ہے ۔ انقلابات کی بقا و ارتقا میں فلسفہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی وسعت و ہمہ گیریت اسے دیرپا عالمگیر قیادت کی صلاحیت سے ہم کنار کرتی ہے ۔برعظیم پاک وہند و بنگلادیش کی تاریخ اس پر گواہ ہے ۔ 
    ہم اگر غور کریں کہ اس خطے میں ہماری بقا کا بنیادی سبب کیا ہے ۔اور آج کی بدلتی دنیا میں ہمارے مستقبل کی ضمانت کیا ہے ؟
    ہمارے داخلی انتشار کا کیا حل ہے اور نئے دور کے چیلنجز کا کیا ممکنہ حل ہے ؟
    تو تاریخی حقائق بتاتے ہیں کہ آج کی نالج بیس اکانومی کی بنیادیں ہم نے ہی رکھیں تھیں۔ 
    پرامن بقائے باہمی کے تحت ہر عہد میں فکری سماجی انتشار کو ہم نے ہی دور کیا اور معاشی جبر کے بجائے عالمی معیشت کے تحفظ بقا اور ارتقا کی راہیں ہم نے ہی کھولی ہیں۔ لیکن اس حقیقت کو نہ مسلمان زور دےکربیان کرتے ہیں اور نہ مغرب کے نام نہاد محققین اس کاتذکرہ کرتے ہیں کہ کہیں مسلم نوجوان نسل ماضی سے رہنمائی لےکر اپناحال اور مستقبل نہ سنوارلے-
    پھر آج مایوسی کیوں کبھی غور کیا ہے۔ 
    شاید ہم شارٹ کٹ کی تلاش میں ہیں جب کہ قوموں اور ملتوں کی زندگی میں شارٹ کٹ نہیں ہوتے ۔
    قرآن تاریخ انسانی کی بے شمار مثالیں ہمیں غور و فکر کے لیے فراہم کرتا ہے اور دعوت دیتا ہے کہ صرف دو نکات پر غور کریں 
    کہ ہم تھوڑے لوگوں کو اکثر پر غالب کرتے ہیں۔  
    دوسرا یہ کہ 
    ہم کسی قوم کی حالت نہیں بدلتے جب تک وہ خود اس کے لیے جدوجہد نہیں کرتے ۔
    ہم خوش قسمت ہیں کہ اس خطے کی ایک نابغہ روزگار شخصیت شاہ ولی اللہ نےقرآن و حدیث کی روشنی میں دینی فکر کو ازسر نو مرتب کرکے قوم کے سامنے پیش کیا ۔ 
    فرانس کے انقلاب سے سو سال قبل وہ کہتے ہیں کہ حکومت چلانے کے لیے ماہرین کا ایک بورڈ ہونا چاہیے۔  
    مطلق رد اور انکار کے بجائے اچھی چیز لے لو اور بری چھوڑ دو کے عالمگیر اصول کو اپنے تجزیہ کی بنیاد بناتے ہیں۔ 
    مسلمانوں کےمذہبی اختلاف رائے میں مطابقت پیدا کرکے سماجی ارتقا کا ایک نیا اسلوب متعارف کراتے ہیں۔اورقیام عدل کوسماجی ترقی کی بنیاد قرار دیتے ہیں ۔  
    یعنی ہمیں اپنی قومی و ملی تاریخ کے مطالعے سے یہ بات سمجھنا ہوگی کہ ہمارے پاس قومی سیاسی جدوجہد کی مسلسل شان دار روایات موجود ہیں ۔اس لیے مایوسی کے بجائے ہم اپنے حصہ کا کام کریں۔ اور مرعوبیت کی الجھن سے نکلیں۔ یہ دنیا دار الاسباب ہے۔ ہم جوبوئیں گے وہی کاٹیں گے۔ 
    اللہ پر بھروسہ ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے قومی بھلائی کی جامع جدوجہد کا نصب العین سامنے ہو تو منزل آسان ہوجاتی ہے۔اس خطے میں مسلمانوں کی بقا کا راز بھی یہی ہے ۔ افسوس اور نوحہ جدوجہد کا بدل نہیں ہوسکتا۔ یہی نکتہ مسلمانوں کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے 
    دوستو! یاد رکھو مشقت کے بغیر کوئی بھی کام نا ممکن ہے،یہ کہنا کہ فلاں ملک ایسا ہے، فلاں ایسا ہے یہ ایک آسان کام ہے۔ لیکن اپنے ملک کے فرسودہ نظام کو تبدیل کرنا اور اس کے بجائے ایک ترقی پرور عادلانہ نظام لانا اور اس نظام کو لانے کی جدوجہد کرنا ہمارا فریضہ ہے۔
    Share via Whatsapp