اندرونِ سندھ سے چائنا بارڈر تک
سیروتفریح کے مقامات، مسائل، حکومتی اقدامات
اندرونِ سندھ سے چائنا بارڈر تک
حافظ علی محمد گدارو۔ بے نظیر آباد (نواب شاہ)
آل پاکستان ٹوئر 2022ء کا پروگرام بنایا گیا۔ 10 ممبران پر مشتمل گروپ جس کے گروپ لیڈر عطا محمد گدارو تھے۔ پروگرام یہ تھا کہ ٹوئر میں کھانا اور رہائش اپنی ہوگی ۔ لیکن موسم کی خراب صورتِ حال کے پیش نظر ہوٹلنگ کی گئی۔ ٹوئر کا آغاز 2022-5-29 کو سلطان آباد اسٹاپ سے بذریعہ ڈوم وین سے کیا گیا -راستے میں اللہ کے کرم سے کوئی مسئلہ نہیں رہا۔ پہلی رات فیصل آباد میں رکے ۔ صبح کو ناشتہ کر کے روانہ ہوئے راستے میں خوب صورت نظارے ہمارے منتظر تھے۔ ہماری منزل کاغان ویلی تھی۔ اللہ کی رحمت برس رہی تھی، کڑاکے دار سردی تھی۔ جلدی جلدی ہوٹل لیا گیا جو بالکل نیا بنا ہوا تھا اور آرام دہ تھا۔ جاتے ہی کھانا بنانے کا پروگرام کیا ۔ کھانا بنانے میں سب دوستوں نے حصہ لیا ۔ اس سے سفر کا لطف دوبالا ہوگیا۔ صبح نماز پڑھ کر ناشتہ کیا اور وادی کاغان کی سیرو تفریح کی اس کے بعد ناران روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر باہر ٹینٹ لگایا۔ اس کے بعد سارے دوست سیف الملوک کے لیے بذریعہ فور ویل روانہ ہوئے۔ گھوم کر شام واپس آئے رات کو موسم خراب ہونے کے باعث ٹینٹ لپیٹ کر ہوٹل چلے گئے، صبح ناشتہ کر کے روانہ ہوئے ۔ راستے میں بہت سےقدرت کےنظارے اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے، جی چاہتا تھا کہ یہیں ٹھہر جائیں ۔ رات میں اگر چاندنکل آئے تو نہایت دلفریب منظر ہوتا ہے۔ رات گئے گلگت بلتستان پہنچے۔ صبح بابو سرٹاپ کے خوب صورت مناظر کی سیر کی جو 13700 فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔ رات کا قیام گلگت ہوٹل میں کیا۔ رات کو گلگت شہر کی سیر کی صبح ناشتہ کرکے نلتر ویلی اور سترنگی جھیل کی سیر کی یہ علاقہ بہت ہی خوب صورت اور قدرت کی نعمتوں سے مالامال ہے۔ اس کے بعد شام کو سست شہر کی طرف نکل گئے۔ رات 12 بجے وہاں پہنچے، یہ پاکستان کا آخری شہر ہے، اس کے بعد پاک چائنا بارڈر ہے ۔ صبح پاک چائنا بارڈر گئے، وہاں برف باری زیادہ ہوتی ہے اور آکسیجن کی کمی رہتی ہے۔ سنسان راستے ہیں، سیاحوں کو چاہیے کہ چائنا بارڈر سے سورج ڈوبنے سے دو تین گھنٹے پہلے نکل جائیں، واپس ہم گلگت ہوٹل میں ٹھہرے۔ اگلے دن ہم نے ہنزہ شہر کی سیر و سیاحت کی۔ اس کے بعد ہمارا واپسی کا سفر شروع ہوا۔ اور رات بالاکوٹ کھانا کھایا اور ایبٹ آباد پہنچے۔ آرام کیا اور صبح کوسفر شروع کیا اور راولپنڈی سےملتان کےلیے روانہ ہوے اور رات 11 بجے ملتان پہنچے۔ رات کا قیام ملتان ادارہ میں کیا -صبح حضرت ڈاکٹر مفتی سعید الرحمن صاحب کی معیت میں نماز فجر ادا کی اور حضرت مفتی صاحب سے درس قرآن سننے کا ہمیں شرف ملا ۔ حضرت مفتی صاحب کے ساتھ چائے پی اور خوب استفادہ کیا۔ حضرت ہمارے آنے سے بہت خوش ہوئے اور ادارے کی انتظامیہ نے ہمارا بہت خیال رکھا خصوصاً مولانا امداداللہ صاحب کا بہت شکریہ۔
ادارے میں ناشتہ کرکے روانہ ہوئے راستے میں رحیم یار خان میں ریاض احمد کے چچا نے ہمیں ظہرانہ دیا اور خوب تواضع کی۔ اللہ ان کے رزق میں برکت دے پھر وہاں سے نکلے اور رات 11 بجے سلطان آباد اسٹاپ پر پہنچے۔ اللہ کے کرم سے راستے میں کوئی بھی دقت یا پریشانی نہیں ہوئی۔ خیر خیریت سے 9 دن کا ٹوئر کرکے گھر پہنچے۔ گروپ لیڈر نے اپنی ذمہ داری خوب نبھائی اور ممبران نے بھی مکمل کو آپریٹ کیا، لیکن پھر بھی ہم میں تھوڑی بہت کمی رہتی ہے ۔
پاکستان قدرت کی نعمتوں سے مالامال ہے۔ بے بہا نعمتیں ہیں، پہاڑ قطاروں میں کھڑے اللہ کی قدرت کو ظاہر کر رہے ہیں۔ بڑے بڑے گھنے درخت اللہ کی قدرت کے گیت گا رہے ہیں۔ آبشار پہاڑوں سے چھلکتے رہتے ہیں۔ راستے مسافروں کو خوش آمدید کہتے نظر آتے ہیں۔ اسلام آباد سے آگے پہاڑوں کی قطاریں ہیں۔ سارا علاقہ پہاڑوں سے گھرا ہوا ہے۔ سارے پہاڑ قدرتی نعمتوں سے مالا مال ہیں، جہاں نظر اٹھائیں سبزہ ہی سبزہ نظر آتا ہے، یہاں کاروبار کے وسائل بھی بہت زیادہ ہیں۔ پورے ملک سے لوگ یہاں آ کر کاروبار کرتے ہیں۔ وطن عزیز پاکستان کے دوسرے خطوں کی طرح یہ علاقہ بھی اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ہے۔ دنیا کے بہت سے ممالک ایسے ہیں، جن کے اپنے پہاڑ نہیں اور وہ اپنے ہاتھ سے پہاڑ بنا کر تفریح کا نظام بناتے ہیں اور اس کی کمائی سے اپنا ملک چلاتے ہیں، لیکن بے حسی اور خود غرضی ہمارے حکمرانوں کی اتنی ہے، کہ یہاں ان نعمتوں کے باوجود اس خطے کو کوئی فائدہ نہیں پہنچایا۔ افسوس تو تب ہوا، جب وہاں کے لوگوں اور چھوٹے چھوٹے بچوں کو ہم نے بھیک مانگتے دیکھا۔ اس کے علاوہ نئی چیز نیا ماحول جس سے ہم بہت متاثر ہوئے۔ وہ تھا گلگت بلتستان جس کو صوبے کا درجہ تو نہیں ملا، لیکن اس کا ایک وزیراعلی اور گورنر ہے صوبائی اسمبلی بھی ہے۔ گلگت کے لوگ بہت خوب صورت اور محنتی ہیں۔ گلگت شہر بہت خوب صورت تھا۔ کشادہ راستے بڑی بڑی عمارتیں، وہاں کے لوگ اپنی دکان کو دلہن کی طرح سجائے رکھتے ہیں۔ بعضگھر ایسے جیسے محل ہوں۔ گلگت کے لوگ بڑی بڑی گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، 800 سی سی 1000 سی سی گاڑی دیکھنے کو بھی نہیں ملی۔ بائیک میں 125 کا استعمال کرتے ہیں۔ رکشہ نام کی کوئی چیز نہیں۔ گلگت کے لوگ مرد چاہے عورتیں بوڑھے جوان سب پیدل چلنے کو پسند کرتے ہیں۔ شاید صحت کا راز بھی یہی ہے، گلگت میں بجلی ایک پل کے لیے بھی نہیں جاتی، گلگت کے لوگوں کا رہن سہن ثقافت چائنا والوں جیسا تھا۔ گلگت شہر ہنزہ میں تو زیادہ تر کاروبار عورتیں کرتی ہیں ۔ گلگت میں ہر دکان ہر چوک ہر جگہ انگلش کے ساتھ چائنیز میں بھی لکھا تھا۔ گلگت میں چائنا کے بہت سارے پروجیکٹس چل رہے ہیں۔ لیکن اگر پاکستان نے غیرذمہ داری کا مظاہرہ کیا اور دوراندیشی سے کام نہ لیا تو آنے والے دور میں ہمیں ان قرضوں کی کئی گنا قیمت ادا کرنی پڑ سکتی ہے۔ گلگت کے لوگ پیارکرنےوالے ہیں ۔