حالیہ موسمیاتی تبدیلی کا مختصر جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • حالیہ موسمیاتی تبدیلی کا مختصر جائزہ

    حالیہ ایام میں ملکی موسمی صورتحال کا ذرا مختلف انداز سے جائزہ لیا گیا ہے تاکہ مسائل کا صحیح رخ پر تجزیہ کیا جا سکے ۔۔۔

    By جنید احمد شاہ Published on Jul 11, 2022 Views 940
    حالیہ موسمیاتی تبدیلی کا مختصر جائزہ 
    جنید احمد شاہ ایڈووکیٹ ۔۔۔راولپنڈی

    چند دن قبل خوش گوار موسم نے مجھ سمیت پوری قوم کو خوش گوار حیرت میں مبتلا کیے رکھا۔ ماہ جون میں ، ماہ دسمبر اور ماہ جنوری جیسا ماحول میسر آیا۔ میں مظفرآباد میں تھا اور دو کمبل لے کر 2 راتیں وہاں بسر کیں اور وادی نیلم کی چوٹیوں پر تو برف باری نے قدرتی حسن کو خوب ترو تازگی بخشی۔ اس وقت چند خیالات ذہن میں آئے، لیکن مصروفیات کی وَجہ سے لکھ نہیں سکا۔اسی ماحول سے متعلقہ ایک پوسٹ ابھی ایک سوشل میڈیا پر دیکھی تو پرانے ہوتے خیالات دوبارہ یاد آگئے ، سوچا لکھ دیتے ہیں۔ اس سے قبل کے کوئی اور مصروفیت آڑے آ جائے۔ 
    عرض یہ ہے کہ! 
    1۔ اس سارے ماحول کو باری تعالیٰ کی ذات سے جوڑ کر کلمات تشکر ادا کیے گئے۔ ایک قرآنی آیت بہت شئیر کی گئی۔"ان اللہ علی کل شئ قدیر"۔ میرے خیال کے مطابق یہ شکرانے کے بجائے ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ قدرتی سائیکل کےبالکل خلاف عمل ہوا ہے۔اللہ پاک نے گرمی ، سردی، بہار و خزاں کے جو موسم بنائے ہیں ، ان سب کی ایک اپنی تاثیر اور کشش ہے۔ قدرت یہ کبھی نہیں چاہتی کہ وہ اپنے بنائے ہوئے نظام کائنات کے خلاف کوئی ایسا عمل کرے، جس سے انسانیت کو فائدے کے بجائے نقصان ہو۔ مثال کے طور پر آم گرم علاقے کا پھل ہے۔ اگر موسم گرما نہ ہوتا تو شاید ہمیں پھلوں کے بادشاہ کا تصور بھی نہ ہوتا کہ یہ بھی کوئی لذیذ چیز ہے اور اگر موسم سرما نہ ہوتا تو ہمیں مالٹے اور دیگر پھلوں جیسی نعمتیں کبھی میسر ہی نہ آتیں۔ موسم بہار اور موسم خزاں کی بھی یہی صورتِ حال ہے۔ 
    2۔ ہم کچھ وقت سے قومی و بین الاقوامی میڈیا پر ایک لفظ سنتے آ رہے ہیں۔ ہمارے ہاں موسمیاتی تبدیلی (Climate change)کے موضوع پر باقاعدہ ایک الگ سے وزارت بھی موجود ہے۔ پچھلی حکومت نے بلین ٹری نامی منصوبے سمیت اس پر بہت سارے پراجیکٹس بھی لانچ کیے، حتی کے سابق وزیراعظم نے اقوام متحدہ میں جا کر عالمی برادری کو پوری دنیا میں وقوع پذیر ہونے والی موسمیاتی تبدیلیوں کے نقصانات سے خبردار بھی کیا۔ تاکہ بہ حیثیت مجموعی دنیا قدرتی ماحول کی طرف واپس لوٹے۔مناسب اور فوری حفاظتی اقدامات بھی اٹھائے۔اَب اس پر کتنا کام ہوا ہے یا ہورہا ہے اور پاکستان اس وقت کس پوزیشن پر کھڑا ہے ، ظاہر ہے اس پر تو شعبہ جاتی ماہرین ہی بہتر روشنی ڈال سکتے ہیں، لیکن فی الوقت اندازہ یہی ہے کہ اس وقت پوری دنیا غیرمتوازن اور خطرناک ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کا شکار ہو رہی ہے، جس کا حالیہ ایک اَثر ہم نے اپنے ملک میں بھی دیکھا ہے۔ پوری دنیا اس وقت تقریباً سرمایہ دارانہ نظام کے زیر اثر کام کر رہی ہے، جس کی فطرت میں انسانیت دشمنی پوشیدہ ہے اور اس کا اثر اَب کائناتی دشمنی کی شکل میں بھی واضح ہو رہا ہے۔ جو نظام انسان کا دشمن ہے وہ پہاڑوں ، صحراؤں، دریاؤں سمیت دیگر تمام حیوانی مخلوقات کا خیرخواہ کیسے ہوسکتا ہے۔ 
    3۔ اس لیے ماحولیاتی تبدیلیوں کی موجودہ صورتِ حال کو خدا کے کھاتے میں ڈال کر خوشی کا اظہار کرنا، مناسب رویہ نہیں ہے۔ بلکہ ہمیں اس بات پر سوچنا چاہیے کہ قومی و بین الاقوامی سطح پر عالمی برادری انسانیت کے تحفظ کے سلسلے میں کتنی سنجیدہ ہے۔ایسی غیرمتوازن تبدیلوں کے انسانی جسم اور انسانی صحت پر کتنے خطرناک اثرات پڑ رہے ہیں اور مستقبل میں پڑنے کا اندیشہ کتنا زیادہ ہے۔اگر قدرتی ماحول کو تحفظ فراہم نہ کیاگیا اور قدرتی وسائل کو صحیح استعمال کرنے کی حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو اس کے کتنے بھیانک اَثرات سیلاب، طوفان، زلزلے، شدید گرمی و سردی اور بے موسمی تبدیلیوں کی شکل میں ظاہر ہوں گے۔شعبہ معیشت کے بنیادی شعبہ جات زراعت، صنعت اور پھر تجارت پر ان تبدیلیوں کے کتنے خطرناک اثرات قائم ہوں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ بنیادی انسانی ضروریات کی طلب و رسد کتنی زیادہ متاثر ہو گی۔لوگوں کی جان و مال کا تحفظ کیسے ہو گا۔ان تمام سوالات کے جوابات کا اگر مختصراً جائزہ لینا ہو تو پچھلے 30 سالوں میں ہمارے ملک میں آنے والے صرف سیلابوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی و بربادی کا تجزیہ کر لیا جائے تو اس نظام کا کھوکھلا پن واضح ہوجائے گا۔ہر آنے والے مون سون کے سیزن میں ہماری حکومتوں کی دوڑیں لگ جاتی ہیں، کبھی فوج سے امدادی سرگرمیوں میں تعاون کی اپیل کی جاتی ہے تو کبھی پرائیویٹ رفاہی اداروں کی خدمات کا سہارا لیا جاتا ہے جس سے اس فرسودہ نظام کا اصل مکروہ چہرہ عارضی طور پر چھپ جاتا ہے۔ ظاہر ہے ان سوالات پر سوچنا اور ان کا پائیدار حل تلاش کرنا،ان انسانوں پر زیادہ بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو نظاموں اور حکومتوں کو سنبھال کر دنیا کے فیصلے کرتے ہیں۔ وہ تمام طبقات ہر طرح کے نتائج کے ذمہ دار ہیں نہ کہ خدا کی ذات اس معاملے میں مجرم ٹھرتی ہے۔ 
    4۔ غلامی جب طبیعتوں میں رچ بس جائے تو پھر مذہبی معاشروں میں ہر مسئلہ کو قسمت ، تقدیر ، مقدر اور خدا کے ساتھ نتھی کر کے صحیح رخ پر مسائل کو دیکھنا اور ان کو حل کرنے کا ہنر ناپید ہو جاتا ہے۔ پھر نہ ظالم کا احتساب ہوسکتا ہے اور نہ ہی مظلوم کی دادرسی کی جا سکتی ہے۔ اگر ہلکی سی بارش ہو جائے تو پاکستان کے چند بڑے شہر لاہور، کراچی، فیصل آباد، ملتان ، راولپنڈی اور اسلام آباد کی سڑکیں تالاب کا منظر پیش کرتی ہیں ، باقی ملکی صورتِ حال پر تو کوئی بحث ہی نہیں ہے۔۔اس دفعہ تو ماشاءاللہ بحریہ ٹاؤن میں بھی بارشوں کے پانی نے سڑکوں پر خوب سیر کی ہے۔ وادی نیلم میں حالیہ ہونے والی برف باری کی وجہ سے سینکڑوں بکریاں ہلاک ہو چکی ہیں اور ہزاروں زخمی ہیں۔ اس کی بنیادی وَجہ یہ ہے کہ بکروال اپنے ریوڑ لے کر موسم گرما میں بلند ترین چراہ گاہوں کا رخ کرتے ہیں اور پورا سیزن ٹھنڈے علاقوں میں گزار کر موسم سرما میں میدانی علاقوں کی طرف واپس آجاتے ہیں کہ وہاں شدید برف باری، لینڈ سلائیڈنگ اور راستوں کی بندش کی وجہ سے نظام زندگی متاثر ہو جاتا ہے۔اب ان کو کیا معلوم تھا کہ موسم گرما میں اچانک برف آٹپکے گی، جس کا ماہ جون میں تصور بھی نہیں کیا جا سکتا ، شدید بارشیں پہاڑوں کی چوٹیوں پر ان کا استقبال کریں گی اور ان کا لاکھوں کا معاشی نقصان کر جائیں گی۔ عیدالاضحی کی آمد آمد ہے۔وہ سارے جانور میدانی علاقوں میں لائے جانے تھے، مویشی منڈیوں میں ان کو بیچ کر اپنے گھروں کے چولہے جلائے جانے تھے۔ ہلاک ہو جانے والے مویشیوں پر سالہا سال کی جانے والی ساری کی ساری محنت ، وقت اور سرمایہ رائیگاں چلا گیا۔ خدا کی یہ منشا تو کبھی بھی نہیں ہوسکتی۔ یہ تو انسانوں کے بنائے ہوئے ظالمانہ نظاموں کے اثرات ہیں، جس کا تدارک کرنے اور ذمہ داری قبول کرنے کے لیے ہماری حکومتیں پھر بھی تیار نہیں ہیں ۔ یہ وہ نکات ہیں جن پر ہمیں سوچنا چاہیے تاکہ ہر طرح کے مسائل کا صحیح فہم و ادراک حاصل کیا جا سکے۔
    5۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے بین الاقوامی سطح پر امریکا اور اس کے حواری ممالک نے بھی ہر طرح کی ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کے باوجود پوری دنیا کو محفوظ بنانے کے لیے کوئی خاص کردار ادا نہیں کیا۔ امریکا اور یورپ چوں کہ دنیا کے ایک ایسے بر اعظم میں واقع ہیں، جہاں سردی اور ٹھنڈ کا غلبہ زیادہ ہے۔ اب اس کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آپ صرف اپنے خطے کے بارے میں تو حفاظتی اقدامات اٹھائیں، لیکن تیسری دنیا کے ممالک کو بے سرو سامانی کی کیفیت میں مبتلا کر کے انھیں اپنے حال پر چھوڑ دیں۔ جہاں سال میں چار سے پانچ موسم آتے ہیں اور ہر سیزن کے الگ الگ موسمی تقاضے ہیں۔ ٹیکنالوجی میں ترقی میں ہر انسان کی محنت شامل ہوتی ہے اور یہ ترقی کل انسانیت کا مجموعی ورثہ ہے اور اس پر کسی خاص ملک ، کمپنی یا گروہ کی اجارہ داری حیوانی طرز عمل ہے۔امریکا چوں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا نمائندہ ملک ہے، یورپ اس کا ہمنوا ہے اور تیسری دنیا کے ممالک اس کی طفیلی ریاستیں ہیں جس میں پاکستان صف اول کا کھلاڑی شمار ہوتا ہے ۔جس نظام کی سوچ ہی مفاداتی ، انفرادی اور طبقاتی ہو، اس کے زیر اثر ممالک کیسے انسان دوستی کا نظام بنا سکتے ہیں۔ نتیجتاً پوری دنیا اس وقت قدرتی سائیکل کے خلاف ظالمانہ اور غیرصحت مندانہ طرز زندگی کو اپنائے ہوئے ہے۔اس وقت دنیا کی قیادت ایک فرسودہ اور آمرانہ فکر کے ہاتھ میں ہے اور اس نظام باطل کی فکر کی حامل قیادت دنیا کو اپنی نفسانی خواہشات کی بھینٹ چڑھا کر اپنے گروہی اور معاشی مفادات کی تکمیل کر رہی ہے۔
    اس وقت سب سے زیادہ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم علمی و تحقیقی رویہ اپنا کر سائنسی بنیادوں پر نظام سرمایہ داریت کی حقیقت کو سمجھیں اور اس کے متبادل نئے عمرانی معاہدات اور ریاستی تشکیل کے اسٹرکچر پر غور و فکر کریں، تاکہ موسمیاتی تبدیلیوں کے عمل کو ریاستی طاقت کے ذریعے اپنی اصلی حالت پر بحال کر کے دنیا کو محفوظ بنائیں اور اس کے ساتھ ساتھ تمام دیگر شعبہ ہائے زندگی کو بھی زوال کی کیفیت سے نکال کر عروج کی طرف لے کر جائیں ۔اس کام کا سب سے بنیادی عمل اپنے آپ کو تعلیم و تربیت اور فہم و شعور سے لیس کر کے اپنی طاقت کو منظم شکل میں ترتیب دینا ہے، تاکہ یہ انتظامی طاقت کل قومی اور بین الاقوامی دائرے میں انسان دوستی کا کردار ادا کر کے خدا کی نیابت اور خلافت کا حق ادا کر سکے۔
    Share via Whatsapp