دور حاضر کی موسیقی
دور حاضر میں موسیقیت کے ساتھ ہونے والی سیاست میں عورت کی بے پردگی کا واضح تسخیر کیا جاتا ہے۔
دور حاضر کی موسیقی
آمنہ اشرف ۔سمبڑیال
موسیقی ایک ایسا مواصلاتی ذریعہ(communication tool) ہے جو انسان کے جذبات اور احساسات کی عکاسی کرتا ہے۔ ایک گیت نگار اپنے جذبات کو دوسروں کے جذبات کے ساتھ منسلک کرتا ہے۔ یہ جذبات کی نوعیت پر منحصر ہے کہ وہ انسان کی روحانی بالیدگی کی نمائندگی کرتے ہیں یا سفلی خیالات کے پرچارک ہیں، موسیقیت کے ذریعے ذہنوں کی تسخیر کی جاتی رہی ہے، جس سے مختلف پیغامات کی ترسیل اور سنجیدہ موضوع کو زیر بحث لایا جاتا ہے۔ موسیقی کی تفہیم میں کئی پہلو چھپے ہیں۔
جب موسیقی کے معانی جاننے کی کوشش کریں تو "لطف اندوز ہونا" ، "جذبات کا ابھرنا"، "پیغام کی ترسیل" وغیرہ کے مفہوم سامنے آتے ہیں۔ گیت ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جو ہمارے اندر چلنے والی ٹرین ، کشمکش، جذبات اور مقصد کا ساتھی بھی بنتا ہے۔ہماری ثقافت میں، بلکہ دنیا کی ہر ثقافت میں گیت نگاری کو بہت عروج ملا ہے۔ ہمارے صوفیا ئے کرام کے کلام کو موسیقی کی صورت میں نشر کیا گیا، جس میں نوجوان میں ملت کے لیے جوش و ولولہ پیدا کرنا، ایک مقصد دکھانا اور ان کی ذہن سازی کے عوامل شامل ہوتے تھے۔ سماع اور ذکر کی روایت ہو یا گرجوں میں گائے جانے والے کورس کی صدا، یہ سب کچھ ایک خاص اثر رکھتا ہے۔
پہلے پہل موسیقی کو کسی شادی میں ماہیے کے طور پر گایا جاتا تھا، جس سے انسان کے اندر کی خوشی اور جذبات کی نمائندگی ہوتی تھی۔ اس گیت نگاری میں فحاشی کے بجائےثقافت کو صحیح معنوں میں پروان چڑھایا جاتا تھا ۔
دورحاضر میں موسیقی کی بات کی جائے تو وہ فحاشی کی علامت ، ذہنی غلامی کا نمونہ اور صنفِ نازک کے جسمانی خط و خال کی عکاسی کا نام بن کر رہ گئی ہے، جس میں گیت نگاروں کے ساتھ ساتھ میڈیا اپنے اشتہارات کے ذریعے اہم کردار ادا کرتا ہے۔
آج کی موسیقیت نے نوجوان کو کس دہانے پر لاکھڑا کیا ہے اس کا مختصر جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ آج کے نوجوان کے ذہن کی تشکیل اس طرح کی جا چکی ہے کہ وہ کوئی سنجیدہ موضوع کو سننا اور نہ ہی بات کرنا پسند کرتا ہے، جس کے سنگین نتائج دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ آج کا نوجوان میوزک میں شور شرابہ، ناچنا زیادہ پسند کرتا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا نوجوان یہ صلاحیت پیدائشی طور پر لے کر آیا ہے؟ بالکل نہیں! بلکہ سرمایہ دار طبقہ ، نوجوان کو ان کے حقیقی مقصد سے ہٹانے کے لیے اسے پروپگنڈا کے طور پر تشکیل دیتا ہے کہ ایک گیت نگار کو بھی اضافی لاکھوں روپوں سے نواز دیا جاتا ہے ۔ آج کے گیت نگار کا ہر دوسرا گیت عورت کے تبصرے پر مشتمل ہے۔ ایک ایسا گیت جس میں عورت کے گورے رنگ، کالی زلفوں، نشیلی آنکھوں ، سرخی مائل ہونٹ، دبلی پتلی اور لمبے قد کی تسخیر کی جاتی ہے۔ مشہور پاکستانی گیت نگار بلال سعید اپنے ایک پنجابی گیت "دو نمبر میں دیواں تری اچی لمبی ہیل نوں" میں عورت کو دو نمبر میں بیچ رہا ہے، جس پر کسی قسم کی تنقیدی سوچ رکھنے کے بجائے اس سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ اور میڈیا اس کو ٹی وی اور اشتہارات میں نشر کرتا ہے اور اسے موجودہ ماحول میں ماڈرن ثقافت اور فیشن کا نام دیا جاتا ہے۔
بہرحال اب ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر خوشنما چیز کو تنقیدی نگاہ سے دیکھنے کی کوشش کی جائے، اسی صورت میں نوآبادیاتی نظام اور ذہنی غلامی کے شکار سے چھٹکارا پایا جاسکتا ہے۔ بالخصوص ہر عورت کو اتنا باشعور ہونا چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو "دو نمبر" میں نہ بیچے۔ فی زمانہ موسیقی کا عمدہ جذبات، بامقصد ثقافت اور کسی سنجیدہ موضوع کی عکاسی کی بجائے سفلی اور گھٹیا مقاصد کی نمائندگی کرتی ہے ، جس کے ذریعہ نوجوانوں میں ہیجان انگیزی ، مایوسی اور خیالات کی دنیا پیدا کرنے پر توجہ مرکوز ہوکر رہ گئی ہے، ضرورت اس امر کی ہے کہ لطیف جذبات کے کچلنے کے ذرائع و وسائل پر گہری نظر رکھی جائے اور ان کے منفی مقاصد کو سمجھا جائے ۔