گھریلو گھٹن کی سماجی وجوہات - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • گھریلو گھٹن کی سماجی وجوہات

    ہمارے گھروں کی گھٹن صرف گھروں کی گھٹن نہیں، یہ کمزور ریاست، نوآبادیاتی وراثت، غیر محفوظ معیشت اور بوسیدہ سماجی اداروں کا اجتماعی اثر ہے.

    By Muhammad Saad Published on Dec 25, 2025 Views 14
    گھریلو گھٹن کی سماجی وجوہات 
    تحریر: محمد سعد۔پشاور 

    گھروں میں موجود گھٹن کو عام طور پر ہم، خاندانی رویوں، ذاتی مزاج، یا چند رشتوں کی کمزوری تک محدود کردیتے ہیں،مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ محض اِنفرادی مسئلہ نہیں ہے کہ فرد کی اِصلاح سے یہ مسئلہ حل ہوجائے۔دراصل گھٹن ، ریاستی، معاشی اور سماجی ساخت کے بگاڑ کا نتیجہ ہے۔یہی وہ اصل مأخذ ہے، جسے ہم سب سے کم دیکھتے ہیں، مگر سب سے زیادہ بھگتتے ہیں۔ ہماری گھریلوزندگی میں صبر کم ہو گیا ہے، موجودہ قومی سسٹم نے گھر کے اندر کے انسان کو کمزور، بے بس اور خوف زدہ کردیا ہے۔
    1۔ ریاست کی کمزوری: گھروں کے اندر خوف کی پہلی بنیاد
    جب ریاست کمزور ہوتی ہے تو شہری صرف بازار میں ہی نہیں، گھر کے اندر بھی خود کو غیرمحفوظ محسوس کرتے ہیں،کیوں کہ:
    ریاست روزگار کا وعدہ پورا نہیں کرسکتی۔
    انصاف کی ضمانت نہیں دے سکتی۔ 
    تعلیم و صحت کا بوجھ عوام پر ڈال دیتی ہے۔ 
    روزمرہ کی زندگی میں بے یقینی پھیلا دیتی ہے۔ 
    یہ اسباب مل کر گھر کے اندر مزاج، گفتگو، فیصلوں اور ماحول کو بدل دیتے ہیں۔
    ایک باپ جو معاشی خوف میں مبتلا ہو، وہ بچوں سے نرمی سے بات نہیں کر پاتا۔ایک ماں جو مستقبل کی غیریقینی صورت حال میں جکڑی ہو، وہ رشتوں میں مطلوبہ توجہ تقسیم نہیں کر پاتی۔ایک نوجوان جسے معاشرے میں عزت اور روزگار کے مواقع نظر نہ آئیں، گھر کے اندر بھی اُلجھا رہتا ہے اور چڑچڑا پن اس کی طبیعت کا حصہ بن جاتا ہے۔یوں ریاست کی کمزوری گھروں کی گھٹن میں تبدیل ہوتی ہے—خاموشی سے، روزمرہ کے اندر گھس کر۔
    2۔ نوآبادیاتی وراثت: وہ سایہ جو آج تک گھروں کے اندر موجود ہے۔
    ہم نے نوآبادیاتی نظام سے جو برائے نام آزادی حاصل کی ہے، وہ ادھوری ہے ، ناقص ہے ۔ نوآبادیاتی دور کی ذہنیت بدستور موجود ہے ۔ کیوں کہ تعلیم سے لے کر معیشت اور معاشرت تک کو نہیں بدلا گیا ۔اس لیے نوآبادیاتی دور کی تین چیزیں ہمارے گھروں میں اَب بھی موجود ہیں:
    1۔خوف کی تربیت
     گھر میں ”خاموش رہو“، ”اختلاف نہ کرو“، ”سوال نہ پوچھو“—یہ ریاست سے گھروں تک منتقل شدہ عادتیں ہیں۔
    2۔اطاعت کا کلچر
    تنقیدی سوچ کی کمی نہ صرف سکولوں میں ہے، بلکہ گھروں میں بھی ہے۔
    اس کا نتیجہ: گھٹن، احساسِ محرومی اور رشتوں میں دَباؤ کی صورت میں ظاہر ہوتاہے۔
    3۔حکمرانی کا رویہ
    نوآبادیاتی ذہنیت نے طاقت کو محبت پر ترجیح دی۔گھر کا بڑا فرد اکثر لا شعوری ورثے سے چمٹا رہتا ہے ، وہ خود بھی نہیں جانتا کہ وہ ایسا کیوں کررہا ہے ؟نوآبادیاتی اَثرات کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ غیرمرئی ہیں۔قوم کا ہر فرد ان اَثرات کا شکار ہے، لیکن وہ خود بھی نہیں جانتا کہ یہ رویے اس کے مزاج کا حصہ کب اور کیوں بن گئے ۔
    4۔غیرمحفوظ معیشت: ہر گھر میں بھری ہوئی بے چینی
    ایک کمزور معیشت صرف ملک کو نہیں ہلاتی، یہ گھر کی بنیادی فضا کو تبدیل کردیتی ہے۔
    کیسے؟
    جب آمدنی محدود ہو اور اخراجات بے قابو، تو گھر کا ہر فرد ذہنی تناؤ میں مبتلا رہتا ہے۔
    ہر چیز مہنگی لگے تو ہر بات تلخ لگنے لگتی ہے۔
    بے روزگاری نوجوانوں کی سوچ کھا جاتی ہے۔
    مہنگائی ماں باپ کے اعصاب کھینچ دیتی ہے۔
    نتیجہ؟
    بات بات پر جھگڑے، خاموشیاں، بے زاری اور ایک ایسی فضا جو ہر سانس کو بھاری بنا دیتی ہے۔
    یہ گھٹن گھر کے لوگوں کا مسئلہ نہیں—
    یہ ان پالیسیوں کا اَثر ہے، جنھوں نے گھر کے اندر کی زندگی کو کھوکھلا کر دیا ہے۔
    5۔بوسیدہ سماجی ادارے: 
    گھر کے اندر رشتوں کا بکھرنا ،جب سماجی ادارے بکھر جائیں تو گھر بند کمرہ بن جاتا ہے، خاندان ”نیٹ ورک“ کے بجائے ”جزیرے“ بن جاتے ہیں۔
    مثلاً:
    * کمیونٹی سپورٹ کا نظام ختم
    * رشتہ داریاں رسموں تک محدود
    * محلے کا کردار بے معنی
    * سکول کردار سازی کی بجائے صرف امتحانات کا مرکز
    * میڈیا خوف بیچتا ہے، امید نہیں
    * مذہبی ادارے زندگی کی رمق پیدا کرنے کے بجائے مایوسی پیدا کرنے لگ جاتے ہیں ۔
    گھر ایک وقت میں ”پناہ گاہ“ تھا،اَب وہ ایک تنہائی کا مرکز بن کر رہ گیا ہے کیوں کہ اجتماعی سپورٹ سسٹم ٹوٹ چکا ہے۔
    6۔گھر کی گھٹن: دراصل اجتماعی ڈھانچے کی شکست وریخت 
    یہ سب مل کر گھر میں وہ کیفیت پیدا کرتے ہیں، جسے ہم گھٹن کہتے ہیں:
    * بے صبری
    * غصہ
    * غلط فہمیاں
    * برداشت کی کمی
    * بے معنی لڑائیاں
    * ایک دوسرے کی بات سننے کی صلاحیت کا ختم ہونا
    یہ سب علامات ہیں—اصل مرض نہیں۔
    اصل مرض وہ کمزورریاستی ڈھانچہ ہے، جس نے فرد کو تنہا اور گھر کو غیرمحفوظ کردیا ہے۔
    اصل نکتہ: گھٹن دیواروں میں نہیں، نظام میں ہے۔ 
    ”ہمارے گھروں کی گھٹن صرف گھروں کی گھٹن نہیں، یہ کمزور ریاست، نوآبادیاتی وراثت، غیرمحفوظ معیشت اور بوسیدہ سماجی اداروں کا اجتماعی اثر ہے“۔ 
    یہ ایک جملہ نہیں،یہ ہمارے پورے قومی مزاج کی تشخیص ہےاور جب تک نظام کا بگاڑ ٹھیک نہیں ہوتا،گھر ہمیں اپنی پوری محبت، پوری قربت اور پورا سکون فراہم نہیں کرسکتا ۔
    Share via Whatsapp