ثقافتی تقاضوں میں فکری ہم اہنگی (انتڑا رقص) - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • ثقافتی تقاضوں میں فکری ہم اہنگی (انتڑا رقص)

    پاکستان کا نوجوان آج ایک ایسی تہذیبی و سماجی تقسیم کے بیچ کھڑا ہے جہاں ہر نئی حرکت، ہر ثقافتی اظہار اور ہر تخلیقی تجربہ ایک نئی جنگ چھیڑ دیتا ہے۔

    By Kashif Hassan Published on Dec 25, 2025 Views 14

    ثقافتی تقاضوں میں فکری ہم اہنگی (انتڑا رقص) 

    تحریر: کاشف حسن ، پشاور


    پاکستان کا نوجوان آج ایک ایسی تہذیبی و سماجی تقسیم کے بیچ کھڑا ہے، جہاں ہر نئی حرکت، ہر ثقافتی اِظہار اور ہر تخلیقی تجربہ ایک نئی جنگ چھیڑ دیتا ہے۔ ملاکنڈ یونیورسٹی میں ایک پروفیسر کے انتڑا رقص (تنڑ پشتون تہذیب کا ایک قدیم اجتماعی رقص ہے جو تاریخی طور پر جنگی تیاری، اجتماعی حوصلہ افزائی اور قبائلی یکجہتی کی علامت رہا ہے۔ یہ محض تفریح نہیں، بلکہ ایک تہذیبی اِظہار تھا، جس میں نظم و ضبط اور اجتماعی وقار نمایاں ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ اس کی روح کمزور ہوئی اور بعض مواقع پر یہ صرف تفریحی طبع یا نمائشی عمل بن کر رہ گیا، حال آں کہ اپنی اصل میں اتنڑ ثقافتی وقار اور اجتماعی نظم کی علامت تھا۔)نے محض چند لمحوں میں وہ سب کچھ بے نقاب کردیا جو برسوں سے ہمارے معاشرے میں زیرِ یں سطح پر موجود تھا۔ ایک طرف وہ طبقہ جو ہر ثقافتی اِظہار کو “وقارِتعلیم” کے خلاف سمجھ کر ردِعمل کی شدت میں کھو جاتا ہے، اور دوسری طرف وہ گروہ جو ہر تنقید کو مذہبی تنگ نظری اور فکری جمود کا نشان بنا کر مکمل آزادی کا علمبردار بن جاتا ہے۔ لیکن حقیقت میں یہ تنازع رقص کا نہیں، معنویت کے بحران (The Crisis of meaning) کا ہے۔ نوجوانوں کے سامنے نہ کوئی بڑا مقصد ہے، نہ کوئی تہذیبی وژن، نہ کوئی اجتماعی خواب۔ اس خلا نے اسے ایسے فوری اِظہار کی تلاش میں دھکیل دیا ہے، جہاں اسے کم از کم لمحاتی تسکین تو میسر آجائے، چاہے وہ فنون لطیفہ ہو، سوشل میڈیا ہو، یا کوئی بھی سرگرمی۔ جب سماج نوجوان کو ”جینا کیوں ضروری ہے؟ جینا کیسے ہے؟ اور کن اقدار کے ساتھ جینا ہے؟“ کا کوئی معیاری جواب نہ دے سکے تو وہ لازماً کسی نہ کسی سطحی یا غیر مربوط اِظہار میں اپنے جذبات کا راستہ تلاش کرے گا۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں تہذیب کمزور پڑتی ہے اور ردِعمل اپنی جگہ پیدا کرتا ہے۔

    اہم نکتہ یہ ہے کہ ہمارے مذہبی و تہذیبی حلقے برسوں سے منع کے بیانیے میں قید ہوکر رہ گئے ہیں۔ وہ جدید ذہن کی ساخت، نوجوان کے نفسیاتی تقاضوں اور اس کی شناختی کشمکش کو سمجھنے سے دور ہوچکے ہیں۔ نتیجتاً ان کی گفتگو عام طور پر صرف نفی پر مشتمل ہوتی ہے یہ غلط ہے، یہ نا مناسب ہے، یہ اخلاق کے خلاف ہے، لیکن کوئی یہ نہیں بتاتا کہ صحیح کیا ہے؟ مناسب کیا ہے؟ اخلاقی توازن کس طرح قائم ہوتا ہے؟ نوجوان کو کس سمت کھڑا ہونا چاہیے؟ اس کا مقصد کیا ہے؟ وہ کس اجتماعی اور تہذیبی روایت کا وارث ہے؟ اور اسے اپنی توانائی کس میدان میں صرف کرنی چاہیے؟ ردِعمل کی سیاست ہمیشہ وقتی نوعیت کی ہوتی ہے، مگر راستہ نہیں دِکھاتی۔ اس کے برعکس نام نہاد لبرل طبقہ ہر اعتراض کو ”آزادی کے خلاف سازش“ قرار دے کر ایک سطحی آزادی کا تصور پیش کرتا ہے، جو نوجوان کو موقع تو دیتا ہے، مگر مقصد نہیں۔ فنونِ لطیفہ کی اپنی معنویت ہے اور پختون خطے میں انتڑا ایک قدیم تہذیبی علامت بھی ہے، مگر جب معاشرہ اسے محض تفریح یا طعنہ و جواب تک محدود کر دے تو وہ اپنی تہذیبی روح کھو دیتا ہے۔ فن کا مقام تب ہی بلند ہوتا ہے جب وہ معاشرے کی اخلاقی و فکری ساخت کے ساتھ جڑا ہو، ورنہ وہ محض وقتی دھوم دھام رہ جاتی ہے۔

    اسی خلا نے نوجوانوں کو فکری تناؤ کا شکار کردیا ہے۔ آج وہ اپنی شناخت، اپنی قدر، اپنی آواز، اپنے تعلق اور اپنے مقصد کی تلاش میں بکھرا ہوا ہے۔ اِس کے سامنے نہ کوئی واضح مقصد ہے، نہ کوئی تہذیبی اُفق جس کے پیچھے وہ سفر کر سکے۔ یونیورسٹی جب صرف ڈگریاں دینے کا مرکز بن جائے، اور مذہبی حلقہ فکر کے بجائے ردِعمل کی نفسیات کا اَسیر ہو جائے اور لبرل حلقے آزادی کے نام پر سطحیت کے علمبردار بن جائیں، تو معاشرے کی اصل روح مُرجھا جاتی ہے۔ نوجوان اپنے اندر معنویت کی صدا سنتا ہے، مگر باہر سے اسے صرف شور شرابا سنائی دیتا ہے۔ نوجوان کا اندرون کسی اجتماعی خواب کا متلاشی ہے، مگر اسے اِنفرادی تفریح دے کر بہلایا جاتا ہے۔ وہ رہنمائی کا طالب ہے، مگر اسے تنقید ملتی ہے۔ یہی وہ بحران ہے، جسے شاہ ولی اللہ کے الفاظ میں ”فساد فی التدبیر“ کہا جاتا ہے ، یعنی نظام اور فکر کی ایسی کمزوری جس سے پورا معاشرہ اپنی سمت کھو بیٹھتا ہے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں ردِعمل کی نفسیات سماج کو مزید تقسیم کرتی ہے، اور نوجوان کی اُلجھن مزید گہری ہوجاتی ہے۔

    اس صورتِ حال سے نکلنے کا راستہ نہ بے مُہار آزادی میں ہے، نہ مکمل پابندی میں۔ یہ راستہ بیانیہ کے احیا میں ہے ۔ ایسا بیانیہ جو تہذیب کی گہرائی سے جڑا ہو، مذہب کی روح سے روشن ہو، اور زمانے کی عقل سے ہم آہنگ ہو۔ ہمیں ایسا فکری مرکز درکار ہے، جہاں ثقافت کو اس کی اصل جگہ ملے، مگر وہ اخلاقی توازن سے محروم نہ ہو، جہاں مذہب کی روشنی دِلوں میں اُترے، مگر وہ سختی یا نفی کا بوجھ نہ بنے، جہاں نوجوان کو یہ بتایا جائے کہ وہ صرف منظر کا تماشائی نہیں، بلکہ تاریخ کا معمار ہے۔ جہاں یونیورسٹی ایک ایسی جگہ بنے، جہاں علم اور تہذیب، روایت اور جدت، آزادی اور ذمہ داری ،سب مل کر ایک نیا مستقبل تراشیں۔ اس کے بغیر ہر واقعہ ایک تنازع بنے گا، ہر رقص ایک جنگ چھیڑے گا، ہر اختلاف نفرت میں بدلے گا، اور ہر نوجوان اپنی معنویت meaning کے بغیر زندگی گزارنے پر مجبور ہوگا۔

     ہمیں چاہیے کہ ہم اس حقیقت کو سمجھ کر شعور کے ساتھ منزل کا تعین کریں، تاکہ نوجوان محض غل غپاڑا تک محدود نہ رہے بلکہ وہ ایک بامقصد زندگی کزار سکے ۔

    Share via Whatsapp