اسلام حقوق انسانی کا دین ہے، سزاؤں کا نہیں
اسلام کا تعارف تعزیرات سزاوں کے نفاذ سے کرواتا. مختلف جرائم پر مختلف سزائیں بتائی جاتی ہیں. حقوق اور اسلام کے تربیتی نظام کا تعارف نہیں کرایا جاتا
اسلام حقوق انسانی کا دین ہے، سزاؤں کا نہیں
محمد بشیر عارفی، عارف والا
اللہ تعالی نے انسان کو تخلیق کرکے زمین پر بھیجا۔ زمین میں خلافت عطا فرمائی اور انسان کی رہنمائی کا پورا نظام قائم فرمایا۔ انسان کی رہنمائی کے لیے انبیاعلیہم السلام مبعوث فرمائے اور فرشتوں کے ذریعیےکائنات کا نظم ونسق قائم کیا-
تمام انبیائےکرام علیہم السلام کا مشن عدل و انصاف پر مبنی معاشروں کا قیام تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عرب میں اسی الہامی رہنمائی پر مبنی معاشرت کی بنیاد رکھی۔
دین اسلام اپنے اندر تمام انسانیت کی بھلائی و ترقی کا جامع اور مکمل پروگرام رکھتا ہے۔ آج جب ہم معاشرے کے مختلف طبقات کا جائزہ لیتے ہیں تو بہت سارے لوگوں میں اسلام کے غلبہ سے خوف پایا جاتا ہے، حال آں کہ دین اسلام تو سارے انسانوں کے مسائل حل کرکے ان کو ترقی دینے کے لیے آیا ہے تو یہ خوف کیسا ؟ ایسا دین جو عدل و انصاف اور امن و امان کا دین ہو بھلا اس سے خوف کیوں؟
اس خوف کی وجوہات پر غور کیا جائے تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ خوف انسانیت دشمن قوتوں کا پھیلایا ہوا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ دین اسلام کا تعارف جن مذہبی گروہوں سے سامراج نے کروایا وہ دین اسلام کے نمائندہ نہ تھے، بلکہ سامراجی ایجنٹ تھے ۔تو اسلام کا تعارف تشدد، عدم برداشت اور دھونس سے کروایا گیا، جس سے دنیائے انسانیت دین اسلام سے خائف ہوگئی-
دوسرا طبقہ؛
جواسلام کا تعارف محض تعزیرات اور سزاؤں کے نفاذ سے کرواتاہے۔ اسلام میں حقوق انسانی کےقیام ،اس کی امن پسندی اور خوشحالی کے تعارف سے نہیں کرواتا۔ حقوق کی فراہمی کی کوئی گفتگو نہیں کی جاتی۔ اسلام جس صالح اور انسانیت دوست ماحول کے فراہم کرنے پر زور دیتا ہے، اس کی کوئی بات نہیں کی جاتی۔ اس طرح ظلم کی چکی میں پسی ہوئی انسانیت کو اسلام سے دور کر دیا جاتا ہے۔حالانکہ اسلام پہلے حقوق پھر تربیت اور اس کے بعد جزا اور سزا کا سسٹم دیتا ہے۔ ان سزاؤں کا مقصد بھی محض سزا نہیں، بلکہ ایک طرف فرد کی تربیت و اصلاح ہے تو دوسری طرف معاشرے کو شر پسند عناصر سے محفوظ بنانا ہے۔
شریعت میں تین قسم کی سزاؤں کا ذکر ہے ؛حد، کفارہ اور تعزیر۔
حد : وہ سزا ہے جو قرآن و سنت میں متعین کردی گئی ہے۔ اس میں کوئی کمی یا زیادتی نہیں ہو سکتی۔ یہ حدود پانچ ہیں؛ حد زنا( بدکاری کی سزا)، حد قذف ( کسی پاک دامن مرد یاعورت پر جھوٹی تہمت لگانے کی سزا)،حد سرقہ( ناحق کسی کامال چوری کرنے کی سزا)، حد محاربه( دہشتگردی ،قتل وغارت اور بغاوت کی سزا)، حد شرب ( شراب نوشی کی سزا) یہ بھی یاد رہے کہ ان حدود کو بھی اسلام نے کڑی شرائط سے مشروط کردیاہے ،جن کی وجہ سے ان حدود کانفاذ بہت احتیاط کاتقاضا کرتاہے۔
حضرت امام غزالیؒ کا قول ہے کہ "اسلام انسانی مصالح کا سب سے بڑا محافظ ہے۔"
انسانیت کے اسی بنیادی وصف کی حفاظت کے لیے ان سزاؤں کا تقرر کیا گیا ہے، جیسے زنا کی سزا، کیوں کہ زنا کے نتیجے میں انسانیت کا مقام اور عزت پامال ہو جاتی ہے۔ جب انسانیت کا عنصر ختم ہو رہاہو تو اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے۔ اس سے بڑھ کر انسانی حقوق کی حفاظت کیا ہوگی۔ اسی طرح باقی تمام حدود کا مقصد دراصل انسانیت اور انسانی حقوق اور انسانیت کےاعلیٰ مقام کی حفاظت ہے۔
کفارہ: ایسی چیز جو کسی گناہ کو دور کرے، اسے ڈھانپ لے، کفارہ ہے۔ جیسے روزہ توڑنے کی صورت میں ایک غلام کو آزاد کرنا یا متواتر 60 دن کے روزے رکھنا یا 60 مسکینوں کا کھانا کھلانا۔
اسی روزہ کے کفارہ پر غور کیا جائے تو یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جو عبادت دراصل تقوی یعنی عدل کے قیام کی ایک مشق یا تیاری تھی، اگر اس میں کوتاہی ہوئی ہے تو اسی انسانی ہمدردی کو قلب وذہن میں راسخ کرنے اور اس کوتاہی سے دوبارہ بچانے کے لیے شریعت میں یہ کفارہ رکھا گیا ہے۔
تعزیر : ایسا جرم اور گناہ جس کی سزا کو شریعت نے متعین نہیں کیا، تعزیر کہلاتی ہے۔تاکہ قاضی حالات کو مدنظر رکھ کر سزا مقرر کرے۔حکومت وقت امن امان قائم رکھنے اور انسانی مصالح کی حفاظت کے لیے تعزیرات مقرر کر سکتی ہے۔
اب ایک نظر سزاؤں کی سختی پر بھی ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ تمام سزائیں جرائم سے پاک معاشرے کے قیام کے لیے ہیں،لیکن ان سزاؤں کے متعلق بھی یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ کم گناہ پر زیادہ سزا مقرر کی گئی ہے۔ اس میں غور طلب بات یہ ہے کہ تمام تر ہمدردی مجرم کے ساتھ کیوں ؟جس کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے اس پر جو بیتی اس سے کوئی ہمدردی نہیں۔ اس کے معاشرے میں جو نتائج برآمد ہوں گے یا ہو رہے ہیں اس پر کوئی توجہ نہیں۔
سیرت مبارکہ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر دوڑائی جائے تو ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ ہر مقام پر حقوق انسانی کو کلیدی حیثیت حاصل رہی ہے ۔مثلا اگراسلام قبول کرنے کےعہد کو دیکھاجائے تواس میں چھ چیزوں پر بیعت لی جاتی ہے :
شرک نھیں کریں گے، چوری نہیں کریں گے، زنا نہیں کریں گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے، کسی پر جھوٹا بہتان نہیں لگائیں گے اور کسی اچھی چیزمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت نہیں کریں گے۔
اس پہلی بیعت سے لے کر آخری خطبہ جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ، جسے خطبہ حجۃ الوداع کہا جاتا ہے، تک تمام کی تمام اسلامی تعلیمات انسانی حقوق کی حفاظت پر زور دیتی نظر آتی ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجة الوداع میں ارشاد فرمایا : "لوگو! تمھارے خون اور تمھارے مال ایک دوسرے پرایسے ہی حرام ہیں ،جیسے تمھارے اس دن کی حرمت اور اس مہینہ کی حرمت ہے، یہاں تک کہ تم اپنے پروردگار سے جا ملو۔ اسی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غلاموں اورعورتوں کے حقوق کی حفاظت کی خاص طور پرتاکید فرمائی۔
مختصرا یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ خطبہ انسانی حقوق کا مکمل چارٹر ہے اور یہ اسلام کی تمام تر تعلیمات کا نچوڑ ہے۔
آج ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام کا صحیح تعارف کروا کر منفی پروپیگنڈے کا خاتمہ کیا جائے اورعام انسانیت کو باور کروایاجائے کہ اسلام اور انسانیت لازم وملزوم ہیں، نہ کہ متصادم۔