سماجی نظام کی بنیادی اکائی میں ، انتظامی ذمہ داریوں کی تقسیم
ماں گھر کی انتظامی اور تربیتی امور کی سرپرست اور داخلہ پالیسی کی سربراہ ہوتی ہے ۔جس طرح علوم میں فلسفہ ہے اسی طرح سماج میں ماں ہے جس سے باقی تمام شعبے
سماجی نظام کی بنیادی اکائی میں ، انتظامی ذمہ داریوں کی تقسیم
تحریر : ڈاکٹر سید فضل اللہ شاہ ترمذی
سماج میں بنیادی اکائی گھر ہوتا ہے جو خاندان پر مشتمل ہوتا ہے۔ کئیگھر اور خاندان مل کر قبیلہ اور شہر بنتے ہیں۔ پھر شہر مل کر ملک وقوم بنتے ہیں اور اقوام کے ملنے سے بین الاقوامیت قائم ہوتی ہے۔ اقوام عالم کی بنیادی اکائی یہی گھر ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم نے عائلی زندگی کے حوالے سے کافی رہنمائی دی ہے اور عائلی زندگی کے مسائل کو تاکید کے ساتھ حل کرنے کا حکم دیا ہے - اس میں حسن، عدل ہی سے پیدا ہوتا ہے، جس سے سماج کی تشکیل کے پروگرام کا فہم حاصل ہوتا ہے۔
عائلی زندگی گھر سے شروع ہو کر بڑے خاندانی نظام پر مشتمل ہوتی ہے، جس میں خاندانی نظام کے ہر شعبے کا اپنا اپنا نمائندہ ہوتا ہے۔اس نظام کو چلانے کے لیے طریقہ کار متعین ہے، جس سے تجاوز پر نظم و ضبط کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
گھر کانظم ونسق
گھر کے انتظامات باپ اور ماں مل کر چلاتے ہیں-یہ دونوں گھر کے نظام کی بلڈنگ کےدوبنیادی ستون کی حیثیت رکھتے ہیں-ان میں سے ہر ایک دوسرے کےلیےمددگار ہوتاہے -خدانخواستہ کسی ایک کی کمی سےدوسرے کےلیےمسائل کےپہاڑ کھڑے ہوجاتے ہیں-
گھر کی سربراہی
گھر کے نظام کا ایک سربراہ ہوتا ہے جو گھر کا بزرگ ہوتا ہے۔ خاتون خانہ اور اولاد سب مل کر باپ کی سربراہی اور ماں کی سرپرستی میں تربیت پاتے ہیں۔ انسان کو اس کے بڑے بہن بھائی اندر سے مضبوط بناتے ہیں اور ان کی طرف سے حوصلہ افزائی اس کی ہمت کو بلندیوں پر لے جاتی ہے۔ بہن بھائیوں کی موجودگی سے انسان میں اُنس ومحبت ، احساس اور ذمہ داری کا جذبہ بیدار رہتا ہے، جس سے انسان نرم دل بنتا ہے۔چھوٹے بہن بھائیوں کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کا احساس آتا ہے اور ایک ذمہ دار شخص بن جاتا ہے۔ یہ نہ ہونے سے اکثر اوقات انسان غیر ذمہ دار اور لطیف احساسات سے ناآشنا رہتا ہے۔
گھریلو معاشی ذمہ داری
گھریلو معیشت کی ذمہ داری باپ پر ڈالی گئی ہے ،کیوں کہ وہ روزگار کے ذریعے رزق کما کر گھر کی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرتا ہے۔ بڑے بیٹے اس کام میں اس کی مدد کرتے ہیں۔ باپ گھر کا سربراہ ہونے کے ساتھ، گھر کے معاشی نظام کا کفیل اور حفاظتی انتظامات کا انچارج بھی ہوتا ہے۔ بڑے بیٹے اس کے ٹیم ممبرز ہوتے ہیں۔
ماں کا کردار
ماں جس کی مثال ایسی ہے، جس طرح علوم میں فلسفہ کی، جس طرح سارے علوم فلسفہ پر مرتکز ہوتے ہیں اسی طرح گھر میں محبت و شفقت کا مرکز ماں ہوتی ہے۔ گھر کے معاشی وسائل سے ، گھر کے اخراجات پورے کرنے کا انتظام اسے ادا کرنا ہوتا ہے۔ گھر کے اندرونی انتظامی معاملات ماں چلاتی ہے اور نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہے۔ اولاد عادات و اطوار، رسم ورواج، اچھائیاں اور برائیاں، مہمان نوازی، خودی وغیرت، عاجزی و انکساری سب سے پہلے اپنی ماں سے سیکھتی ہے۔ گویا گھر کے فکری اور تعلیم و تربیت کے ادارے کی سربراہ ماں ہوتی ہے۔بڑی بہنیں ان کے انہی کاموں میں ہاتھ بٹاتی اور خود بھی ان سے سیکھتی ہیں کیونکہ کل کو انہوں نے بھی کسی گھر میں یہی ادارے چلانے ہیں. اگر کوئی ماں اپنی اولاد میں بدرجہ کمال اوصاف پیدا کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے تو کل کو اس کی اولاد ، قوم اور ملک کی رہنما اور اپنے گھر کی سربراہ بن جاتی ہے۔
باپ سے یتیمی پر ماں کا کردار
اگر کوئی گھر باپ سے محروم ہو جائے تو ماں اپنی اولاد کے لیے سختیاں و مشکلات جھیل کر انھیں اعلیٰ مقام تک پہنچا دیتی ہے۔ معیشت، حفاظت اور سربراہی کی ذمہ داریاں سنبھال لیتی ہے۔لیکن دوسری طرف کوئی گھر اگر ماں سے محروم ہوجائے تو بہت کم باپ اسے بچا سکتے ہیں اور گھر ویران ہو جاتے ہیں۔باپ ہزار معیشت کمائے ، گھر کی سربراہی اور حفاظت کرے، لیکن گھریلو انتظام کے لیے ماہر اور عادل ماں ہی کی ضرورت ہوتی ہے۔ بچے تو ماں کے بغیر بالکل تباہی وبربادی کا شکار ہو جاتے ہیں۔
تربیت سے محروم ایسے بچوں کے لیے زندگی مشکل بن جاتی ہے،خاندانی نظام سے محروم اور سماجی نظام سے ناواقف ہو جاتے ہیں۔ ماں کی محبت وشفقت نہ ملنے پر ، وہ بڑے ہو کر جرأت و بہادری اور حوصلے سے نہیں جی سکتے۔ یوں ماں کے نہ ہونے سے ، نہ صرف خاندان، بلکہ پورے معاشرے اور قوم کو نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ مایوس، بےحوصلہ اور محبت سے محروم بچے ایک بے جان تمدن کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔ اس لیے ماں تمدن کا مرکزی فلسفہ ہوتی ہے، جس کو باپ کی عدم موجودگی میں معیشت کی ذمہ داریوں کا انتظام اور نسل نو کی تربیت کرنی ہوتی ہے. جس کے دل میں رب کائنات نے اولاد کے لیے انتہا درجہ کی محبت رکھی ہوئی ہے۔ اس محبت کے جزیرے میں وہ اپنی اولاد کو ایک پھول کی طرح پرورش کر کے نسل نو میں اچھے اوصاف کے بیج منتقل کر دیتی ہے۔