ماہِ رمضان کا الوداعی پیغام
فرسودہ نظام کا علم اور اس سے چھٹکارے کا شعوری نظریہ حاصل کرنا ہی رمضان کا پیغام ہے ۔
ماہِ رمضان کا الوداعی پیغام!
اسامہ احمد۔ اسلام آباد
ماہِ رمضان المبارک تربیت و تزکیہ کا ماہ ہے ، جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے کہا "ایاما معدودۃ" کہ گنتی کے چند دن ہیں۔وہ آخرگزرہی گئے، جس طرح کہ ہر سال گزر جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ آنکھ جھپکی ہو ۔ اس انمول لمحے کی طرح جس کی خوشی اس کی طوالت چھین لیتی ہے۔ یہ بالکل اٹل حقیقت ہے کہ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ رمضان کی مبارک ساعتیں بھی وقت کی سواری پر سوار ہوتی ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہیں۔اس لیے مومن کو اس مقصد پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے جس کے تحت یہ حکم دیاگیاہے ، رمضان المبارک کے رخصت ہونے کے وقت انسان کو غور کرناہے کہ اس نے اس مقصد کو پایا، یا نہیں۔ رمضان کی عبادت وریاضت میں اپنی تربیت کی یا نہیں۔ قلب اور نفس کا تزکیہ کیا یا نہیں۔ انفرادیت کے خول سے نکل کر اجتماعی سوچ غالب آئی کہ نہیں! یہی رمضان المبارک کا الوداعی پیغام ہے جسے ہر ایک نے اپنےفکروخیال پہ غالب کرناہے-
یہ انسان اور انسانی معاشرے پر ہے، اس قوم پر ہے جس نے رمضان کو پایا اور اس کے ساتھ اس کے مقصد کو بھی حاصل کیا یا پھر عام دنوں کی طرح ان چند ایام کو بھی خواہشوں اور تمناؤں کی اسیری میں گزار دیا۔ قرآن نے واضح طور پر یہ کہہ دیا کہ تمھاری خواہشوں اور تمناؤں کا کوئی اعتبار نہیں۔ کیوں کہ محض خواہش ہونا اور انسانی سوسائٹی میں اس کی قانونی و سیاسی نفاذ کی صورت اختیار نہ کرنا ، خواہش کرنے والے اور اس انسانی اجتماع کے لیے بے سود ہے۔
ایک جماعت، ایک معاشرہ، ایک قوم کی یہ خواہش تو ہوسکتی ہے کہ وہ اپنا افق بلند کرے، اپنی سوچ کے دھارے کا مثبت اور تعمیری رخ متعین کرے، اپنی نوجوان نسل کو قیادت کا اہل بنائے، دورِجدید کے بدلتے ہوئے ترقی پسند تقاضوں کے تحت مستقبل کا لائحہ عمل طے کرے، لیکن یہ تمام تر خواہشات ہیں، تمنائیں ہیں، آرزوئیں ہیں جن کے متعلق قرآنِ حکیم نے دو ٹوک انداز میں اپنا مؤقف سامنے رکھ دیا۔ ان خواہشات، آرزوؤں اور تمناؤں کی قبولیت اس عالمِ تشریع میں تو اسباب و وسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ان پر قانون سازی کرنے اورعملی صورت اختیار کرنے میں ہی ہے۔
لیکن کیا جو خواہشات ایک قوم، ایک جماعت پال رہی ہے وہ کسی قانونی دائرے میں ، دورجدید کے تقاضوں میں بھی آتی ہیں یا کہ وہ اٹھا کر پھینک دینے کے قابل ہیں۔ یہ مبارک ایام اس چیز پر بھی غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔ کسی بھی انسانی اجتماع، جماعت اور سوسائٹی کے ارتقا کی تاریخ میں کبھی نہ کبھی کسی نہ کسی درجے میں دو حالتیں لازمی رہی ہیں۔ ایک ہے اس کا دورعروج جوکہ اس کی آزادی اور حریتِ فکر کے ساتھ منضبط ہے اور دوسرا دورزوال جو کہ غلامی اور پست سوچ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ جب ہم ان دونوں ادوار کا تحقیقی جائزہ لیتے ہیں تو یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح آشکار ہوجاتی ہے کہ دونوں ادوار میں جدوجہد اور ترقی کا لائحہ عمل واضح طور پر مختلف اور ایک دوسرے سے جدا رہا ہے اور دونوں ادوار میں انسانی سوچ اور خواہشات میں تغیر رہا ہے۔
یہ رمضان المبارک کا مہینہ ہمیں تاریخ کے اوراق پلٹنے، گزشتہ اقوام اور جماعتوں کے حالات کا تجزیہ کرنے اور دورجدید میں "جاہلیتِ جدیدہ" (میرے شیخ کے الفاظ میں) کو سمجھنے اور مستقبل کے لیے ایک مثبت اور بیّن لائحہ عمل طے کرنے کی دعوت دیتا ہے۔ رمضان میں قیام اللیل کے دوران قرآن کی تلاوت اور سماعت اس کی واضح ریاضت ہے اگر کوئی سمجھنا چاہے۔
انسانیت کا باشعور طبقہ یہ تسلیم کر چکا ہے کہ اس وقت امتِ مسلمہ اور اس کے ساتھ ساتھ انسانیت کا ایک جم غفیر حالت زوال میں ہے۔ اور جس طرح کہ ذکر ہوا، زوال سے مراد غلامی ہے۔ اور جب ایک قوم زوال اور غلامی کا طوق پہنے ہوئے ہوتی ہے تو وہ اپنے قانون ، اپنی کتاب، اپنے عروج کے لائحہ عمل پر کسی قیمت بھی عمل پیرا نہیں ہوسکتی۔ دورِزوال میں غلامی کی لعنت کو ، اس پھٹکار کو ، اس طوق کو اتار پھینکنے کےلیے سب سے پہلے تو اس غلامی کا احساس پیدا کرنا ہوتا ہے اور پھر اس غلامی سے آزادی کے لیے شعوری بنیادوں پر آزادی و حریتِ فکر کی اساس پر جدوجہد کرنا ہوتی ہے۔ لیکن غلامی تو انسان کے ذہن کو ، اس کی سوچ کو، اس کے افق کو ، اس کی صلاحیتوں کو اس قدر پست اور مفلوج کر دیتی ہے کہ شعور اور حقیقت پسندی کا دور دور تک سراغ نہیں ملتا۔ تو غلامی کے احساس کو اور اگلا کام انسانی سوچ پر پڑے ان حجابات کو دور کرنا ہے، جن کی وجہ سے وہ شعور ، آزادی، حریتِ فکر سے قاصر ہے۔ اس وقت چوں کہ حجابات کی تفصیل میرا موضوع نہیں ہے۔ اس لیے اجمالی طور پر ان کا ذکر کرتے ہوئے اپنے موضوع کی طرف چلتا ہوں۔ امام شاہ ولی اللہ علیہ رح فرماتے ہیں کہ یہ حجابات تین طرح کے ہیں۔
1۔ حجابِ طبع :
یہ حجاب انسان کی طبیعت کا وہ حجاب ہے، جن طبعی تقاضوں کے ساتھ وہ اس دنیا میں آتا ہے ، مثلا کھانے پینے کی فکر، بلوغت و شہوت اور فکر معاش وغیرہ۔
2۔ حجابِ رسم :
یہ حجاب انسانی سوچ اور شعور پر اس کے اردگرد معاشرے اور رسم و رواج کا حجاب ہے، جس کی وجہ سے وہ نورِ ملکوتی کے حصول سے محروم رہتا ہے۔
3۔ حجاب سوءِ معرفہ
یہ حجاب کسی بھی چیز، فکر، عمل اور فیصلے کی حقیقی اور اصل حقیقت تک نہ پہنچنے کا باعث ہے۔ فکر کجی کا باعث ہے۔
ان حجاباتِ ثلاثہ کو توڑنا، اس زوال اور غلامی میں رمضان کا بنیادی پیغام اور تقاضا ہے۔ ان حجابات کو توڑ کر اپنی زندگیوں میں انقلاب برپا کرنے، جماعتی زندگی کو معاشرے اور قومی انقلاب کے لیے منظم کرنے، حریتِ فکر، آزادی کے حصول، وحدتِ فکری اور وحدتِ عملی کے لیے جدوجہد کرنے کا پیغام ہے رمضان !
ظاہر ہے کہ زوال میں پڑے غلامی کی لعنت اور پھٹکار سے مسخ شدہ ذہنوں سے ووٹوں کی بھیک مانگ کر تو کسی صورت نظامِ حکومت آزاد نہیں کروایا جاسکتا۔ آزادی کی یہ جنگ فرسودہ نظام سے کمپرومائز کر کے تو نہیں لڑی جاسکتی۔ اس کے لیے بہرحال، بہر طور انقلابی جدوجہد کی ضرورت ہے۔ بالکل ویسے ہی، جس کا عَلم اڑھائی سو سال قبل حکیم الامت امام شاہ ولی اللہ رح نے بلند کیا تھا ، "فک کل نظام" ۔ اس غلامی کے فرسودہ اور غلیظ ناکارہ نظام کو اٹھا کر باہر پھینک دینا ہے۔ اس جدوجہدِ آزادی ، حریتِ فکر، سیاسی امن، معاشی خوش حالی، معاشرتی عدل، کے نظام کے نفاذ کا متوالا بننا ہی اس ماہِ مبارک ، رمضان کا تقاضا ہے، جس کے لیے مولانا محمد قاسم نانوتوی، سید احمد شہید، شاہ اسماعیل شہید، مولانا امداداللہ مہاجر مکی، شیخ الہند، امامِ انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی، مولانا حسین احمد مدنی، امامِ عزیمت مولانا شاہ سعیداحمد رائے پوری رحمہم اللہ نے اپنی زندگیاں وقف کر دیں۔
آج کا عفریت اور ناسور ، وہ سرمایہ دارانہ نظام ہے، جس نے انسان کو عادلانہ قانونی اور عملی دائرے سے نکال کر خواہشات کا اسیر بنا دیا۔ اس فرسودہ نظام کو سمجھنا ، اس کی ریشہ دوانیوں کا علم حاصل کرنا اور اس سے چھٹکارے کا شعوری فکر و نظریہ حاصل کرنا، یہی دورِ جدید کی اسلامیت ہے، یہی رمضان کا الوداعی پیغام ہے ، یہی جامع تبدیلی کی بنیاد ہے۔ جس کے لیے اپنے نفس کی اصلاح اور اجتماعی ذمہ داری کا خوگر بننا ہی حقیقت میں تزکیہ نفس ہے۔