تجزیہ میں احتیاط طلب امور - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تجزیہ میں احتیاط طلب امور

    موجودہ حالات میں تجزیہ کیسے کرنا چاہیے اور اس کے اصول و ضوابط کیا ہیں۔

    By خالد زبیر پیرزادہ Published on May 16, 2022 Views 1428
    تجزیہ میں احتیاط طلب امور
    خالد زبیر پیرزادہ۔اسلام آباد

    گزشتہ دنوں جامعہ کراچی میں ہونے والے مبینہ خودکش دھماکے کے بعد جس طرح پنجابی اور بلوچی نفرت کو ہوا دی گئی اور اس اقدام کو جس طرح جسٹیفائی کیا گیا اور اس کی تائید میں دلائل آ رہے ہیں وہ بہت افسوس ناک رویہ ہے اور یہ ہماری قوم کے لیے زہرِ قاتل ہے۔
    ہمارے ہاں اکثریتی سیاسی و مذہبی طبقہ محض الفاظ کی بناوٹ ، ذاتی دلچسپی و وابستگی ، سوشل میڈیائی پروپیگنڈے، ماحول کے زیر اثر سطحی رائے رکھتا اور دیتا ہے وہ ایسے میں تحلیل و تجزیہ کے تقاضوں کو پیش نظر نہیں رکھ پاتا۔ کسی بھی واقعے پر فوری جذباتی ردعمل دینا اندھیرے میں تیر چلانا اور زمینی حقائق سے اعراض کہلاتا ہے۔ آج ہماری قوم کو جس طرح نصاب اور میڈیا کے ذریعے جذباتی اور متشدد بنایا گیا ہے، اس کا نتیجہ یقیناً ہماری آنے والی نسلوں نے بھگتنا ہے، بلکہ بھگت رہی ہیں۔
     بقولِ اختر عثمان:
    کہاں گئے مرے اجداد آئیں اور کاٹیں 
    کہ سر آگئی ہے اندھیروں کی فصل بوئی ہوئی 
    ہمارے اجتماعی رویوں میں یہ زوال جس قدرگزشتہ دو صدیوں سے رچ بس گیا ہے، عہدِ قدیم میں اس قدر شدت پسندی خال خال ہی نظر آتی ہے۔ کسی قوم سے اخلاقیات اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیت چھین لینا اس کے قتل کے مترادف ہے۔آج کا نوجوان تجزیہ کی صلاحیت سے محروم کردیا گیا ہے، کجا اس سے یہ توقع کی جائے کہ وہ باطل نظریات کا رد اور تحلیل کر پائے۔
    معاملہ یہ ہے کہ سرمایہ داری نظام نے اس کے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتوں کو چند ہزار کے عوض گروی رکھ چھوڑا ہے۔ یہاں جزئیات میں اُلجھ کر ہم اپنا نقصان کر رہے ہیں۔ نظام کی تباہ کاریاں کوئی زیرِ بحث نہیں لاتا۔ سرمایہ داری اور جاگیرداری نظام ہی اس ملک کی تباہی و بربادی کی اصل اور ٹھوس وجہ ہیں۔ جب تک یہ نظام تبدیل نہیں ہوگا، تب تک سطحی ، فروعی اور جزئیاتی بحثیں لاحاصل رہیں گی اور یہ سارا عمل ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں۔
    تجزیہ کی بنیادی طور پر تین اقسام ہوتی ہیں۔ مخالفانہ تجزیہ ، مرعوبانہ تجزیہ اور شعوری تجزیہ۔ 
    پہلا انتشار کو جنم دیتا ہے۔ اس میں حقائق کی کھوج کے بجائے سب و شتم زیادہ پایا جاتا ہے۔ دوسرا عموماً متاثر ہو کر کیا جاتا ہے یا نفسیاتی برتری ثابت کرنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ تیسرا اور اصل تجزیہ شعوری تجزیہ ہوتا ہے، جس سے بات کی تہہ تک پہنچا جا سکتا ہے۔ 
    شعوری تجزیہ واقعات کے پس منظر میں پوشیدہ حکمت یا وجوہات تک پہنچنے کا سب سے آزمودہ طریقہ ہے۔
    کسی بھی قسم کے واقعات و حالات کے تجزیے کے لیے چند اصول اپنا لیجیے۔ 
    سب سے پہلے جذباتیت سے گریز کیجیے ۔تجزیہ ہمیشہ حقائق اور شعور کی بنیاد پر کیجیے۔ آج ہمارا میڈیا قوم کی درست خطوط پر تربیت کرنے میں بالکل ناکام ہو چکا ہے۔ مہارتیں سیکھیں اور ان کا مثبت استعمال کریں۔ کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کی آلہ کاری سے ہر ممکن حد تک بچیں۔ ہمارے اندر معاشرتی ارتقا کی قبولیت ہونی چاہیے۔ بجائے جزوی مسائل میں الجھنے کے اجتماعی اہداف و نتائج پر نظر رکھنی چاہیے۔ اپنے اندر سے مرعوبیت کا خاتمہ کریں۔ عالمی سیاسی و اقتصادی منظرنامے پر گہری نظر ہونی چاہیے۔ انفرادیت پسندی کے بجائے اجتماعی سوچ کو پروان چڑھانا چاہیے۔ ردعمل کی نفسیات سے اختلافات پیدا ہوتے ہیں سو فوری جذباتی ردعمل کے بجائے غور و فکر کریں اور کسی بھی معاملے کی تمام پرتیں جب تک سامنے نہ آ جائیں کوئی فوری رائے قائم نہ کریں۔
           تشدد جو آج کے سماج کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اس سے گریز کریں۔ عدم تشدد عصر حاضر کی بہترین حکمت عملی ہے۔ قطع تعلق سے بچیں اور صلہ رحمی کو فروغ دیں۔ آپ کی رائے معتدل ہونی چاہیے۔ اپنے مطالعہ کو وسیع کریں۔سوسائٹی کے مظلوم طبقات کے لیے آواز بلند کریں، لیکن اس کے لیے پہلے ان مسائل کا ادراک ضروری ہے جو سرمایہ دارانہ اور جاگیرداری نظام کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔تاریخ پڑھیں اس کو سمجھیں اس سے استفادہ کریں۔ اور سب سے ضروری چیز دور کے تقاضوں کو سمجھیں ۔روحِ عصر کو سمجھے بغیر ترقی مشکل ہی نہیں، بلکہ ناممکن ہے۔ جو قومیں عصری علوم اور تقاضوں سے رجعت پسندی کے باعث اعراض کرتی ہیں۔ تاریخ ان کو فراموش کر دیتی ہے اور قعرِ مذلت میں گرا دیتی ہے۔
    Share via Whatsapp