دینی مدارس اور قومی تقاضے
دہرے نظام تعلیم کے المناک نتائج کا سامنا کرنے کے بعد اس احساس کا پیدا ہونا کہ ان تعلیمی اداروں کو ایک ہی وزارت کے تحت لایا جائے، خوش آیند ہے۔
دینی مدارس اور قومی تقاضے
تحریر:ڈاکٹر راؤ عبدالرحمن ۔ لاہور
مدارس کو قومی وزارتِ تعلیم سے منسلک کرنے اور عصری تعلیم دینے کے مقتدر طبقوں کے خیالات سامنے آئے تو بے اختیار خانقاہ رائے پور کے چوتھے مسند نشینحضرت مولانا شاہ سعید احمد رائےپوری رحمت اللہ علیہ کی یاد تازہ ہو گئی ، جو زندگی بھر انگریز کے قائم کردہ طبقاتی، دین و دنیا (مسٹر اورملا) کی تقسیم کے علمبردار اور نوآبادیاتی مفادات کے حامل دہرے تعلیمی نظام کے خلاف برسرِ پیکار رہے ۔
حضرت کا پہلے دن سے ہی واضح اور دو ٹوک موقف رہا کہ انگریز کے جانے کے بعد استعماری مقاصد کے حامل تعلیمی نظام کی جگہ دینی اور قومی امنگوں کے نمائندہ اور مساویانہ نظامِ تعلیم کو یکساں طور پر ملک بھر میں جاری کیا جائے.ان کی عمر بھر کی جدوجہد کا ایک اہم پہلو یہی تھا کہ کسی طرح مسٹر اور ملا کی تقسیم کے مہلک اثرات سے سماج کو پاک کیا جائے اور دین و دنیا کی تقسیم کے مروجہ تعلیمی نظریے کے برعکس نوجوانوں کی تربیت اس انداز سے کی جائے کہ وہ آنے والے دور میں دینی افکار سے راہنمائی حاصل کرکے ایک خودمختار اور باوقار قومی سماج کی تشکیل میں اپنا کردار ادا کرسکیں ۔
لیکن صد افسوس کہ نوآبادیاتی مقاصد کے لئے قائم کردہ اس نظام تعلیم کے گورو گھنٹال اس آواز کو دبانے کی بھرپور کوشش کرتے رہے۔ ایک طرف تو ملکی نظم و نسق کے کارپردازان کے پیش نظر کالونیل دور کے ورثہ تعلیمی نظام کی بقا اہمیت کی حامل تھی تو دوسری جانب مذہبی پیشواؤں کے گروہی مقاصد اور مسلکی خدشات بھی تھے کہ حضرت رائے پوری رابع رح کی پکار کو قابل توجہ نہ سمجھا گیا۔ چنانچہ ساٹھ کی دہائی میں علماء اسلام کے ایک کنونشن کے موقع پر جب حضرت شاہ سعید احمد رائے پوری رح نے یہ مطالبہ کیا کہ ملک بھر میں مدارس اور کالجز کے دہرے نظام کو ختم کرکے ان کی جگہ آزاد اور قومی مقاصد کا حامل ایک ہی نظام تعلیم رائج ہونا چاہیے تو نہ صرف یہ کہ ان کی بھرپور مخالفت کی گئی بلکہ یہاں تک کہا گیاکہ مولانا پھر ہمیں مساجد کے امام اور نکاح و جنازہ پڑھانے والے افراد کہاں سے میسر ہوں گے۔
آج اس دہرے نظامِ تعلیم کے ستر سالہ المناک نتائج کا سامنا کرنے کے بعد حکمران طبقے میں ایک درجےاس احساس کا پیدا ہونا کہ ان تعلیمی اداروں کو ایک ہی وزارت کے ماتحت لا یا جائے یقینا خوش آئند ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس مروجہ نظام تعلیم میں نوآبادیاتی مقاصدکا جو زہرکارفرما ہے جس کے تحت تخلیقی صلاحیتوں کو مفلوج اور اعلی مقاصد کو مضمحل کرکے محض کلرکانہ ذہنیت اور نوکری کے حصول کا جذبہ رکھنے والی نسل تیار ہوتی ہے۔ جنہیں بیروزگاری کا طوفان در بدر پھرنے اور ملکوں کی خاک چھاننے پر مجبور کردیتا ہے تو کیا ہمارے پیش نظر اس زہر کا کچھ تریاق بھی ہے یا نہیں۔
آج فرقہ واریت شدت پسندی تنگ نظری اور جمود ہمارے .تعلیمی نظام کی رگ رگ میں سرایت کرچکا ہے۔اس سے نہ تو مدارس محفوظ ہیں اور نہ ہی کالجز ۔تعلیمی اداروں میں وبا کی شکل اختیار کرتی بے راہ روی منشیات اور تشدد کی فضا آج ہماری سوسائٹی کے لئے بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے ۔ گزشتہ ایک عرصےسے مذہبی گروہوں کی جانب سے مسلکی نکتہ نظر سے قائم کئے جانے والے سکول سسٹمز کے نتیجے میں مذہبی نفرت کی فضا سے اب عصری تعلیمی ادارے بھی محفوظ نہیں رہے ۔ان تعلیمی اداروں کے مقاصد تعلیم پر نظر ڈالی جائے تو یہ خوف ناک حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہر سسٹم آف ایجوکیشن اپنے گروہی مقاصد اور مخصوص مسلکی نظریات کی آبیاری کرکے سوسائٹی میں تقسیم کی خلیج کو مزید گہرا کرنے میں مصروف عمل ہے ۔
حقیقت تو یہ ہے کہ سوسائٹی کو تقسیم در تقسیم سے دوچار کرنے کے نوآبادیاتی مقاصد کے اس زہر کا تریاق کئے بغیر محض مدارس اور کالجز کو ایک وزارت کے ماتحت کرنا ایک درجے کی بہتری تو شاید پیدا کرسکے مگر اس سے قومی مقاصد کے حصول کی توقع کرنا دیوانے کے خواب کے مترادف ہوگا ۔
آج ضرورت ہے کہ حضرت رائے پوری رابع کے نقطہ نظر کو سمجھتے ہوئے نظامِ تعلیم میں بنیادی تبدیلیاں کی جائیں۔نظریہ تعلیم کو دین اسلام کی آفاقی اور انسان دوست تعلیمات کی اساس پر متعین کیا جائے ۔جس سے دنیا اور دین کی تقسیم ختم ہو، قومی ذہن پیدا ہو،تخلیقی صلاحیتیں اجاگر ہوں،اعلی مہارتیں منتقل ہوں اور ان تعلیم یافتہ جوانوں کے معاشی حقوق کا تحفظ کرتے ہوئے روزگار اور قومی خدمت کے مواقع پیدا کئے جاسکیں ۔