جو سربکف تھے آج وہ کاسہ بکف ہوئے
اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
جو سربکف تھے آج وہ کاسہ بکف ہوئے
تحریر: وسیم اعجاز، کراچی
شام دودھ لینے کے لیے دودھ دہی کی دوکان کے باہر کھڑا تھا۔ اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا کہ کسی نے پیچھے سے میرا کندھا تھپتھپایا۔ پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک نوجوان اپنا ایک ہاتھ پھیلائے سوالیہ اور التجائیہ نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے اسے اوپر سے نیچے تک ایک ہی نظر میں دیکھا۔ وہ کہیں سے بھی بھکاری نہیں لگ رہا تھا۔
ایک ایسا نوجوان جس کے ہاتھ پاؤں بھی سلامت تھے اور دیکھنے میں صحت مند لگ رہا تھا۔میں نے اس سے کہا کہ تم دیکھنے میں تندرست و توانا لگ رہے ہو اور نوجوان بھی ہو، مانگنے سے بہتر ہے کہ تم کوئی کام کیوں نہیں کر لیتے۔
میں نے ایک آفر دی کہ سامنے جو دوکان ہے اس کو سیلزمین کی ضرورت ہے۔ روزانہ کے تین سو روپے بھی ملیں گے اور کھانا بھی۔ اس میں اگر کام کرنا شروع کردے تو اس کی گزر اوقات ہوسکتی ہے۔ لیکن وہ سپاٹ چہرے سے میری جانب ٹکٹکی باندھے تکتا رہا۔ ایسے جیسے اس پر میری بات کا کوئی اثر نہ ہوا ہو۔
دوکان دار میری ساری بات سنتا رہا۔ اس نے مجھے بتایا کہ جناب یہ آدمی (منگتا) پہلے اُسی دوکان میں ہی کام کرتا تھا۔ لیکن اب چھوڑ دیا ہے۔ اسی وَجہ سے اس دوکان والے کو نئے سیلز مین کی تلاش ہے۔
میں یہ بات سن کر بڑا حیران ہوا۔ اس نوجوان کی طرف ایک بار پھر دیکھا اور پوچھا کہ کیوں بھئی تم نے وہاں محنت مزدوری کرنا کیوں چھوڑ دی۔ تو اس نے میری کیفیت سے بھی زیادہ حیران کردینے والی بات مجھے بتائی کہ جناب میں وہاں کام کرتا تھا تو روز کے تین سو روپے ملتے تھے، لیکن جب سے سیلز مین کی نوکری چھوڑ کر گلی گلی اور دوکانوں پر مانگنا شروع کیا ہے تو روزانہ کے چھ سے آٹھ سو روپے کما لیتا ہوں۔ مجھے کیا ضرورت ہے کہ میں سارا دن محنت کروں اور ایک ہی جگہ پر بندھا رہوں۔
وہ اپنی باتیں کرتا جارہا تھا اور میں اس سوچ میں غوطہ زن تھا کہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج ہمارے معاشرے سے خودداری ختم ہوتی جارہی ہے۔ محنت اور مشقت کے ذریعے اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی بجائے ایسے راستے کا انتخاب ہونے لگا ہے جو دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی طرف جارہا ہے۔
یہ کہانی ایک فرد کی نہیں، بلکہ بہ حیثیت قوم ہمیں اس بات پر سوچنا چاہیے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کو کس منزل کی جانب لے کر جارہے ہیں؟ آج معاشرے میں نہ تو محنت کی قدر و قیمت ہے اور نہ ہی ایسی اخلاقیات کی تربیت ہے، جس سے خودداری اور قومی حمیت پیدا ہو۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ہم سربکف (جانباز اور دلیر) یعنی مستعد اور محنت و مشقت پر یقین رکھنے اور اس کے لئے ہر دم تیار رہنے والوں میں سے تھے۔ جان جوکھوں میں ڈال لیتے تھے لیکن کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کو ہماری غیرت ہر گز گوارا نہیں کرتی تھی۔ آج صورت حال یہ ہے کہ کاسہ بکف (ہاتھوں میں کشکول پکڑے) ہیں۔ بھیک مانگنا باقاعدہ ایک پیشہ بن چکا ہے۔ یہ کیفیت صرف ایک فرد کی نہیں بلکہ ہماری قوم کی بھی ہوچکی ہے۔ امام شاہ ولی اللہ دہلوی نے فرمایا ہے کہ بھیک مانگنے جیسے غیر پیدا واری اعمال قوموں کو زوال کی طرف لے جاتے ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم نئی نسل کی اخلاقی تربیت کریں اور ان کو شعوروآگہی کی دولت سے مالا مال کرکے سوسائٹی کا ذمہ دار شہری بننے کی طرف رہنمائی کریں۔ تاکہ وہ کاسہ بکف ہونے کے بجائے اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کے لیے سربکف ہوجائے۔ جدوجہد سے فرار مسئلہ کا قطعی حل نہیں۔