موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کا استحصال - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کا استحصال

    سرمایہ دارانہ نظام میں مرد کے ساتھ عورت کی حیثیت بھی سستے مزدور کی ہے ، سرمایہ دارانہ نظام میں حقوق نسواں وغیرہ محض منافقت اور نمائشی نعرے بازی ہے

    By یاسر Published on Apr 01, 2022 Views 1089
    موجودہ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کا استحصال۔
    یاسر علی سروبی۔ مردان

    ہم جس معاشرے میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس کی بنیاد سرمایہ دارانہ نظام پر ہے، جہاں ہر ایک فرد میں سرمایہ پرستی کی سوچ کو پروان چڑھایا جاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسانیت کی قدروقیمت کا معیار دولت اور سرمایہ بن جاتا ہے۔
    جب زندگی کا اصل مقصد حصولِ دولت ہو تو پھر مرد ہو یا عورت ، انسان کی عزت، عصمت اور امن و خوش حالی کوئی معنی نہیں رکھتے۔سرمایہ دارانہ نظام کا کردار ہمیشہ استحصالی ، انسانی حقوق کی حق تلفی اور ظالمانہ رہا ہے۔ خصوصاً خواتین کے بارے میں منافقانہ رویہ موجود ہے اور یہ ہی اس کی اصل بنیاد ہے۔ 
    اس کی ایک مثال مزدور مارکیٹ میں عورت کا استحصال ہے۔
    جب ڈیمانڈ اینڈ سپلائی کے تحت کسی چیز کی سپلائی میں اضافہ ہوتا ہے تو اس کی قیمت کم ہو جاتی ہے ۔اب یہاں سرمایہ دارانہ نظام کے تحت مزدور کا استحصال کیا جاتا ہے۔ مارکیٹ میں سپلائی بڑھانے کے لیے عورتوں کو کم مزدوری پر شامل کیا جاتا ہے، جو ان کے ساتھ سراسر نا انصافی ہے۔ 
    چوں کہ مزدور خصوصاً عورت مزدور کے پاس بارگیننگ پاور نہیں ہوتی، اس لیے مارکیٹ میں مزدوروں کی کثرت کی وجہ سے سرمایہ دار بارگیننگ بلیک میلنگ کے ذریعے زیادہ سے زیادہ منافع حاصل کرتا ہے۔اسی طرح سرمایہ دار ایک طرف مرد اور عورت کے فطری دائروں کو توڑ کر صنفی مسائل ابھارتا ہے، جس سے عورت کو مرد کے مقابل لاکھڑا کیا جاتا ہے۔ اور دوسری طرف بھوک افلاس اور بے روزگاری پیدا کرکے خاندانی نظام کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیتا ہے اور مجبوراً عورت کو مرد کے ساتھ کمانا پڑتا ہے۔ یوں سرمایہ دار کو سستی لیبر مہیا ہو جاتی ہے۔
    سرمایہ دارانہ نظام میں مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے عورتوں کا استحصال ہوتا ہے۔ انھیں آزادیِ نسواں کے نام پر شوبز، ماڈلنگ، مارکیٹنگ کے جال میں پھنسایا جاتا ہے اور ایک کثیر تعداد میں سرمایہ داروں کی فیکٹریوں میں انہیں مشین کی طرح دن رات کام کرنے پرمجبور کردیاجاتا ہے ۔
    سرمایہ دارانہ نظام کا یہ دجل ہے کہ وہ عورتوں کے حقوق،گھریلو تشدد،کم عمری میں شادی اور لڑکیوں کی تعلیم وغیرہ کے نمائشی نعروں، کانفرنسوں اور عورت مارچ وغیرہ کے ذریعے ڈھونگ رچا کر اپنے استحصالی ہتھکنڈوں پر پردہ ڈال لیتا ہے جو اس نظام کی کھلی منافقت اور عورت کے ساتھ بڑا ظلم ہے، جس میں سرمایہ داری نظام کے خیراتی ادارے ،این جی اوز وغیرہ پیش پیش ہوتے ہیں تاکہ عوام سے اس نظام کا اصل مکروہ چہرہ مخفی رہے ۔
    اس استحصالی سرمایہ دارانہ نظام میں عورت اور مرد کو صنفی لحاظ سے نہیں، بلکہ مزدور کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے ۔جس طرح لیبر مرد کا استحصال ہوتا ہے تو لیبر عورت کا بھی ہوتا ہے، بلکہ اس کے حصے میں اسے کچھ زیادہ ہی ملتا ہے۔ 
    تیسری دنیا کے غلام ممالک میں تحفظِ حقوقِ نسواں کے نام پر جذباتی نعروں کو بہ طور آلہ کار استعمال کیا جاتا ہے ۔
    دوسری طرف مذہب کے مفاداتی استعمال میں جہاں دہشت گردی ،فرقہ وارانہ ماحول، قنوطی ذہنیت شامل ہے تو وہاں قدامت پسندی بھی ہے، جس کے ذریعے عورت کو تعلیم سے محروم رکھ کر صرف چار دیواری تک محدود کرکے ،قوم کی پہلی درس گاہ کو جاہل بنایا جاتا ہے۔ حال آں کہ عورت پر امور خانہ داری اور بچوں کی تربیت کی بڑی بھاری ذمہ داری عائد ہے لیکن رجعت پسند مذہب کی آڑ میں اسے ضروری تعلیم سے محروم کرکےالزام مذہب کو دیا جاتاہے۔اور پھر فیمنزم کے نام پر عورت کو آوارگی کے راستہ پر لگایا جاتا ہے، تاکہ تدبیر منزل میں عورت کےکردار کو محدود اور سبوتاژ کیا جاسکے۔
    ضرورت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں مرد اور عورت شعوری بنیادوں پر اس نظام کے استحصالی کردار سے واقفیت حاصل کریں . ایک متوازن اور عادلانہ نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کریں۔ تاکہ دونوں کو اپنے اپنے فطری دائروں میں حقوق مل سکیں۔
    اسلام وہ واحد مذہب ہے، جس نے سماج میں عورت کو اس کا حقیقی مقام دیا ہے۔اسلام میں عورت کی کفالت، عزت و آبرو کی حفاظت مرد کی ذمہ داری قرار دی گئی اور عورت کو معاشرے میں بہ حیثیت ماں ،بیوی،بہن، مرد کا معاون بنایا گیا۔ 
    معاشرے میں عورت کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے مرد پر حق مہر لاگو کیا گیا،ساتھ ہی عورت کو مرد کی طرف سے کسی بھی موڑ پر معاہدہ نکاح کے ناگزیر تقاضے پورے نا کرنے کی صورت میں حق خلع کا شرعی حق استعمال کرکے علیحدگی کا اختیار بھی دیا گیا۔اس طرح اسلام نے عورت کو مرد کی تاریخی غلامی سے نکال دیا-
    عورت کابنیادی کام معاشرے میں اولاد کی تربیت کرنا ہے۔ اس اہم ترین ذمہ داری میں عورت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ کیوں کہ فرد کی تربیت کا آغاز گھر سے ہوتا ہے جو آگے چل کر تربیت یافتہ قوم کی صورت میں سامنے آتا ہے۔
    اسی وجہ سے ماں کی گود کو انسان کی پہلی درس گاہ قرار دیا گیا ہے ۔ اگر اس درس گاہ کو جاہل یا آوارہ بنا دیا جائے تو تربیت یافتہ اور باشعور قوم کیسے بنے گی؟
    اس لیے عورت کو تعلیم و تربیت کے پیشِ نظر فکر معاش سے آزاد کردیا گیا اور بنیادی ذمہ داری مرد کو تفویض کردی گئی ۔ حصولِ علم بھی مرد کی طرح عورت کے لیے بھی لازم قرار دیا گیا۔ تاکہ تعلیم و تربیت حاصل کرکے بہترین سماجی تشکیل کے لیے وہ اپناحصہ ڈال سکے ۔
    عورت کی سماجی حیثیت اور ان کی ذمہ داری کا نمونہ عہد اول میں مکمل طور پر موجود ہے۔ جب کہ سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کے لیے صرف نمائشی نعروں کے سوا کچھ نہیں۔
    اسلام کے عہد اول میں عورت کو تعلیم و تربیت کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کےساتھ سیاسی و معاشی امور میں حصہ لینے کی اجازت تھی، بلکہ عادلانہ نظام قائم رکھنے کے لیے عورتوں نے مردوں کے ساتھ عملی جدوجہد میں بھی حصہ لے کر مکہ کی سرمایہ پرست طاقت کا خاتمہ کیا۔ 
    بائیس لاکھ مربع میل کا حکمران رائے لینے کے لیے ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے پاس آتا تھا۔حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سات فقہی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں شامل تھیں جو قانون ساز صحابہ کرام تھے۔
     موجودہ دور میں عورتوں کو چاہیے کہ وہ شعوری طور پر نظام سرمایہ داری کا جائزہ لیں اور اس کے طریقہ واردات کا تحلیل و تجزیہ کریں ، ساتھ ہی ساتھ اپنے درست مقام کا تعین کرکے اصل مجرم نظام سرمایہ داری کے خلاف عدمِ تشدد کی بنیاد پر معاشرے میں مزاحمتی فکر پیدا کریں۔ تاکہ ظلم استحصال اور بد امنی کا خاتمہ ہو۔اور عورت کو سماج میں اس کا اصل مقام حاصل ہو سکے۔
    Share via Whatsapp