دینی سماج کی تشکیل نو میں نظم و ضبط کی اہمیت - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • دینی سماج کی تشکیل نو میں نظم و ضبط کی اہمیت

    دین کی روشنی میں سماجی تشکیل اور نظم و ضبط کی اہمیت کو سمجھنا

    By Tanveer Ahmad Sulehria Published on Feb 26, 2022 Views 2199
    دینی سماج کی تشکیل نو میں نظم و ضبط کی اہمیت
    تحریر: تنویر احمد سلہریا۔ مانسہرہ

    دین اور سماج کا باہمی تعلق
    نظریہ اور سماج کا آپس میں گہرا ربط اور تعلق ہے-فکر و نظریہ کے بغیر کوئی نظام قائم نہیں ہو سکتا۔جو نظام جس سوچ کےتحت کسی معاشرے میں قائم ہوتا ہے، و ہی اس کا فکر کہلاتا ہے۔
    اچھا اور بُرا سماج
    بہ ظاہرجس سماج میں انسانوں کو زندگی گزارنے کے بہتر سے بہتر اور اچھے مواقع میسر ہوں وہ اچھا سماج ہو گا۔ اور ایسا سماج جہاں انسانوں کی زندگیاں تنگ ہوں،جہاں بھوک، بدامنی، جہالت اور تنگ نظری ہو وہ بُرا سماج ہوگا۔ 
    سماج اچھا یا بُرا کیوں ہوتا ہے؟ سماج کے اچھا اور بُرا ہونے کا تعلق نظام کے ساتھ ہے۔نظام صالح ہے تو سماج بھی اچھا ہوگا اور اگر کسی ملک میں نظام فرسودہ ہے تو اس سماج کی حالت بھی دگرگوں ہوگی۔ 
    دین حق کا مقصود
    ادیان عالم ارتقا انسانی کی اہم کڑی ہیں۔ انسانی سماج کی ترقی کے لیے ایسے فکرو نظریہ کی ضرورت ہوتی ہے جو جامع اور ہمہ گیر ہو اور دین اسلام ایسا ہی فکر ہے جو جامع بھی ہے اور ہمہ گیر بھی ہے۔ اسی لیے اسے دین حق کہتے ہیں۔ اس کا مقصود حسنہ فی الدنیا اور حسنہ فی الآخرہ ہے۔ کیوں کہ یہ ایک طرف انسانیت کی مادی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے بہترین نظام دیتا ہے تو دوسری طرف انسان کی روحانی تکمیل کا بھی پورا پورا اہتمام کرتا ہے۔ خدا اسی لیے دین اسلام کو انسانی سماج کے لیے پسند کرتےہوےفرماتاہے کہ"اللہ کےنزدیک پسندیدہ دین اسلام ہی ہے۔ "
    اس لیے دینی سماج وہی گا جو قرآن کی سچی تعلیمات پر قائم ہوگا۔ کیوں کہ اسی میں انسانی معاشرے کی دنیا و آخرت کی فلاح ہے۔
    دینی سماج کی تشکیل نو 
    " وہی ہے جس نے رسولﷺ کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ آپﷺ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دیں۔"
    اس آیت مبارکہ میں آپﷺ کی بعثت کا مقصد بیان کیا گیا ہے کہ دین حق کی تعلیمات پر مبنی سماج کے قیام، سماجی سائنس کے مطابق تین بنیادی اجزا ہیں، جن سے سماج یا معاشرہ کی تشکیل ہوتی ہے۔ فکر،معیشت اور سیاست۔ لہذا دینی سماج کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے جس فکر پر معاشرہ قائم ہو وہ دینی ہو، قرآن حکیم معاشرے کو توحید کی فکر پر قائم کرنا چاہتا ہے، جو معاشرتی وحدت قائم کرنےکاذریعہ بنتاہے.اس کے بعد اس معاشرے کی معیشت عادلانہ دینی اصولوں کے مطابق ہو، قرآن حکیم معاشرے کو ہر قسم کی جاگیرداریت اور سرمایہ داریت سے پا ک کر کے اسے عادلانہ معاشی اصولوں پر قائم کرنا چاہتا ہے۔
    اسی طرح قرآن حکیم شورایئت کی بنیاد پر سیاسی نظام کی تشکیل کا تصور دیتا ہے۔گویا قرآن حکیم سماج کوعادلانہ فطری تعلیمات کے مطابق ڈھالنا چاہتا ہے،جب کسی سماج کے تمام شعبہ جا ت دین حق کی فطری تعلیمات کے مطابق قائم ہو جاتے ہیں تو نتیجہ عدل،امن اور معاشی خوش حالی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے-
    دینی سماج کی تشکیل نو میں نظم و ضبط کی اہمیت 
    دنیا کا کوئی بھی نظام ہو اور کوئی بھی معاشرہ ہو اس کے کچھ قوانین اور ضابطے ہوتے ہیں۔ ان کے مجموعے کو "نظم" کہتے ہیں۔ ان قوانین پر عمل درآمد اور ان کی پابندی کو ضبط کہتے ہیں، گویانظم و ضبط ہر معاشرے کے قیام کے لیے ضروری ہوتا ہے، لیکن چوں کہ دین اسلام انسانی ترقی کا بین الاقوامی جامع پروگرام پیش کرتا ہے،اس لیے اس میں نظم و ضبط کی اہمیت دوسرے تمام ادیان کی مانند تسلیم کی گئی ہے ۔ اگر غورکیا جائے تو دین اسلام کے ماننے والوں کی ذمہ داریاں سب سے بڑھ کر ہوں گی۔  زندگی کے تمام شعبہ جات کے لیے دینِ اسلام نے بہترین رہنما اصول دیے ہیں، جن پر تاریخ کی گواہی موجود ہے۔اس ضمن میں دور نبویؐ اور خلافت راشدہ کے ادوار بطورشہادت پیش کیے جاسکتےہیں۔ ان ادوار میں سماج میں اعلیٰ درجے کا نظم و ضبط قائم کیا گیا، یعنی سماجی قوانین بھی اعلیٰ درجے کے اور پھر ان پر پابندی بھی بڑےاعلیٰ انداز میں کی گئی۔ 
    قرآن  میں ارشاد ہے: اے ایمان والو! خدا کی اطاعت کرو اور اس کےرسول کی اطاعت کرو اور تم میں جو حکم والے(اہل امر) ہیں ان کی۔ سورۃالنساء،59
    اس آیت کریمہ میں دینی معاشرے میں نظم و ضبط قائم کرنے کا باقاعدہ حکم دیا گیا ہے اور معاشرہ میں قائم دینی نظام کی اطاعت کو خدا اور رسول کی اطاعت کے مترادف قرار دیا گیا ہے اور اس قانون کو توڑناگویا خدا اور رسول کے حکم کو توڑنے کے مترادف ہے۔ ویسےبھی روز مرہ زندگی میں انسانوں کو اگرنظم و ضبط کا پابند نہ بنایا جائےتو دنیا کا کوئی بھی کام درست طریقے پر سرانجام نہیں پاسکتا۔ انسانی سماج اداروں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اداروں میں قوانین و ضوابط بھی ہوتے ہیں، ان قوانین کے مطابق ان کو چلانے والی ٹیم بھی ہوتی ہے، انہی سے اداروں کا نظم و ضبط قائم ہوتا ہے اور نظم و ضبط کے بغیر کوئی ادارہ نہیں چل سکتا۔ خاندان بھی ایک ادارہ ہے۔ عائلی زندگی کے لیے بھی قرآن نے ایک نظم وضبط دیا ہے۔ کیوں کہ کامیاب خاندانی نظام ایک کا میاب معاشرے کی بنیاد بنتا ہے۔ 
    اسی طرح پورے ریاستی ڈھانچے کو چلانے کے لیے بھی ایک نظم و ضبط کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے بغیر پرامن اور خوش حال معاشرہ کی تشکیل نہیں ہوسکتی۔ سیاسی،معاشی،تعلیمی اور عدالتی غرض سارے ادارے نظم وضبط کی بنیاد پر ہی چلتے ہیں۔ اس کے خلاف قرآن نے عدوان (قانون شکنی) اور بغی (سرکشی) سے سختی سے منع فرمایا ہے۔ اگر کسی معاشرے میں نظم و ضبط نہ قائم رہے تو وہ فساد اور پراگندگی کا شکار ہوجاتا ہے۔ معاشرے کے کچھ لوگ طاقت حاصل کر کے بالا دست بن جاتے ہیں اور عوام کو اپنا محکوم بنا لیتے ہیں دوسروں کے حقوق پامال کر کے اپنی زندگیاں خوش حال بنا لیتے ہیں، ایسے معاشرے دین کو جھٹلانے والے ہوتے ہیں۔جن میں بے سہارا لوگوں پر ظلم ہو، بھوک اور بے روز گاری عام ہوتی ہے۔ لوگوں کی عام ضروریات بھی پوری نہیں ہوتیں۔ صرف عبادات کا اہتمام کر لینے سے ایسے معاشرے دین دار نہیں بن جاتے، بلکہ ظلم، استحصال اور انسانیت دشمنی کی عملی تصویر بن جاتے ہیں۔ اسلام نے ایسے ہی معاشروں پر تبصرہ کیا ہےکہ '' خشکی و تری دونوں میں فساد ظاہر ہو گیاِ۔''الروم،41
    نظم و ضبط کے قیام کی حکمت عملی 
    جب بھی کسی سماج میں نظم و ضبط تباہ ہوجائے اور لاقانونیت کا دور دورہ ہو جائے، غربت و افلاس اور جہالت بڑھ جائے تو اس میں تبدیلی پیدا کر کے سماج کی تشکیل نو کی ضرورت ہوتی ہے۔ اسی تبدیلی کو انقلابی تبدیلی کہتے ہیں۔ دنیا میں بہترین دینی سماج نبی پاکﷺ نے قائم کیا۔ لہذا وہی حکمت عملی بہترین ہوگی جو آپؐ نے اپنے دور میں اختیار کی سب سے پہلے تو ہمیں اپنے سماج کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارا آج کا سماج بھی اسی طرح لاقانونیت کا شکار ہے؟ جس طرح چودہ سو سال پہلے عرب کا سماج شکار تھا۔ کیوں کہ ہمارے اس سماج میں برطانوی سامراج سے ورثےمیں ملے، تعلیمی ،سیاسی اور معاشی اصول غالب ہیں۔ ان کے جائزے سے ان کی فرسودگی اور عوام دشمنی سامنے آتی ہے۔ سب سے پہلے اس کا شعور پیدا کرنا ضروری ہے، جس طرح آپؐ نے قریشی سرداروں کے قائم کردہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی اصولوں کا جائزہ لیا اور فاسد نظام کے خلاف جدجہد کی اور اسے تبدیل کیا۔آپؐ نے اس مقصد کو پورا کرنے کے لیے معاشرے کے باصلاحیت افراد منتخب کر کےایک جماعت بنائی اور اس جماعت کی تربیت کی. اس جماعت کے ذریعے آپؐ نے سماج میں انقلاب پیدا کر کے عرب میں ایک ایسا متمدن سماج تشکیل دیا اور نظم وضبط کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ لہذا سماجی انتشاردور کرنے کے لیے آج جس پہلے قدم کی ضرورت ہے، وہ اعلیٰ نظریہ پرنظم وضبط والی جماعت تیار کرنا ہے اور یہ جماعت اس راہ عمل سےبہتر تیار ہوسکتی ہےجس عمل کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےاختیار کیا۔ یعنی نظریہ کی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا عمل جس سے منظم جماعت پیدا ہوئی، توآج ہم پر یہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم اس اسوہ حسنہ کو مشعل راہ بنائیں ۔
    Share via Whatsapp