پسماندہ معاشرہ
کسی بھی معاشرے میں بے دینی کا پیدا ہو جانا اِس بات کی دلیل ہے کہ وہاں کہ مذہبی پیشوا دور کے معاشرتی سوالات پر توجہ نہیں دیتے ۔
پس ماندہ معاشرہ
تحریر: ابرہیم خان، مانسہرہ
یوں تو پس ماندگی کی بہت سی اقسام ہیں۔ معاشی، علمی اور اخلاقی پس ماندگی۔ لیکن ہمارے معاشرے میں یہ تینوں اقسام پائی جاتی ہیں۔
معاشی پس ماندگی
پاکستانی عوام کی معاشی اورسیاسی تاریخ کچھ زیادہ ہی بدتر رہی ہے۔ معاشی بدتر اس طرح کہ سماج مکمل طورپر صدیوں سے جاگیردارانہ رہا ہے۔ اور نسل در نسل عوام کی ذہنیت ایک انتہائی پس ماندہ زرعی سماج کی غلام رہی ہے۔معاشی پس ماندگی ،ثقافتی اقدار کو پس پشت ڈال کر ننگی جارحیت اور تشدد کو پروان چڑھانا شروع کر دیتی ہے۔ جس سےمعاشرے میں بھوک و افلاس پیدا ہوتے ہیں ۔تقسیم کےبعد تنگ نظر اور مذہب کا استعمال کرنےوالےملک پرقابض ہوگئے۔ بٹوارے کے بعد جنم لینے والی یہ ریاست اپنے آغاز سےہی معاشی غلامی کا شکار رہی ہے۔ سامراج کو اپنا معاشی جبر برقرار رکھنے کے لیے ایک منظم طاقت کی ضرورت تھی۔ چناں چہ اپنی براہ راست حکمرانی ختم کرنے کے بعد اس نے مفادپرستوں اور غداروں کاسہارالیا.معیشت میں ایسے کالے دھن کا تڑکا لگا کہ یہاں کے صحافی آجخواب دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے حکمران مدینے کی ریاست والا نیا پاکستان بنا رہے ہیں۔ جب کہ مذہبی وسیاسی جذبات کو استعمال کر کے مختلف فرقہ پرست گروہ منظم کیے جاتے ہیں۔اور اس سارے کھلواڑ میں محروم لوگ قتل بھی ہوتے ہیں اور استعمال بھی۔ چاہے وہ معاشی قتل ہو یا پھر خون کی ہولی...!کرونا ویکسین کے معاملے کو ہی دیکھیں، بیماری سے لے کر دوا کی ایجاد تک ہم لکیر کےفقیر ہیں۔ ہمارے پاس ایسا دماغ ہی نہیں جو بتا سکے کہ یہ واقعی بیماری ہے یا ملٹی نیشنل کمپنیوں کا دھندہ۔۔۔؟ جولوگ دونوں ڈوز لگا چُکے وہ بھی کرونا کےشکار ہیں تو پھر یہ کیا ہے؟ اربوں ڈالر کا دھندہ نہیں۔۔۔؟ سرکاری طور پر ویکسین کولازم قرار دیا گیا ہے۔
مگر "مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔۔۔۔۔! ویکسین کے معاملے میں بھی مختلف ممالک کے لیے مختلف ویکسین ہے۔ یورپ کے لیے الگ، عرب امارات کےلیے الگ۔ کیا کرونا کی بھی کوئی اقسام ہیں۔ ایک سوال ہے، جس کا جواب فی الحال کسی کے پاس نہیں کہ جب کرونا وائرس ایک طرح کا ہے تو دوا بھی ایک ہی ہونی چاہیے ،وہ الگ الگ کیوں ہے یا یہ ملٹی نیشنل کا دھندہ ہے...!
علمی پس ماندگی
کسی بھی معاشرے میں بےدینی، علمی پس ماندگی پیدا ہونے کی بےشمار وجوہات ہیں۔اور ان کا پیدا ہو جانا، اِس بات کی دلیل ہے کہ وہاں کے مذہبی پیشوا اس دور کے معاشرتی سوالات پر توجہ نہیں دیتے۔ اور علمی حوالے سے بہت سی تقسیمات ہوئیں،دینی وعصری تعلیم اور پھر عصری میں بھی بہت سے طبقات نے جنم لیا۔ جس سے گروہیت اور فرقہ واریت نے جنم لیا۔ جب کہ ان بےشمار وجوہات کا احاطہ چند الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا۔ علمی اور ذہنی پس ماندگی نے ہمیں اختلافات کے بہت تنگ راستوں میں ڈال دیا۔ تحقیق چھوڑ کر ہم تنقیص اور تقلید پر لگ گئے۔ نتیجتاً ہر طرح کی نفرتیں ہم نے تھام لیں۔ مگر محبتیں اور وُسعتیں بالکل چھوڑ دیں۔ جب کہ دنیا کی امامت کے لیے بہت وسیع النظر ہو کر کل انسانیت کا دکھ درد اور تکلیف اپنے اندر سمیٹ کر جینا ضروری ہوتا ہے...! جب کہ ہماری درس گاہیں اور یونیورسٹیاں نقال پیدا کرتی ہیں۔ جن کی اپنی کوئی تحقیق وتخلیق نہیں ہوتی۔ بس جو خیال مغرب نے دیا۔ اُسی کی جگالی کر کے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم تعلیم یافتہ ہوگئے۔ اور مغرب بھی جانتا ہے کہ اِن دماغوں میں عقل نہیں۔۔۔!
ہمارے پاس اِن علوم کا عالم ہی کوئی نہیں۔ ہم فقط عالم اُسے سمجھتے ہیں جو اپنے فرقے کو پھیلائے نہ کہ علم کو۔
ہمارے ہاں آج بھی قرآن جیسی سرچشمہ ہدایت کی کتاب کو پھونکوں اور دم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔مذہبی نمائندگی کادعوی رکھنے والے بھی کتابِ مبین کا سماجیادراک نہیں رکھتے کہ قرآن ہدایت انسانی کی کتاب ہے۔ نہ کہ محض دم اور پھونک کرنے کی۔ شفا دیناااللہ کا کام ہے۔ مگر بیماریوں کے لیے علاج ہے۔ اور علاج کے لیے علم ہے۔ قدرت نے ہر بیماری کا علاج بھی تخلیق کیا ہے جو علم طب سے حاصل ہوتاہے.
اخلاقی پس ماندگی
انسانی جذبات اور احساسات کو ملحوظ خاطر نہ رکھنے والی زبان کے استعمال سے ہمارا معاشرہ مجموعی طورپر شدید پس ماندگی کا شکار ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام گفتگو میں گالم گلوچ، غیراخلاقی اور نامناسب مثالوں کے علاوہ فرسودہ مفروضوں پر مبنی اقوال کا استعمال کثرت سے کیا جاتا ہےجو کہ سائنسی اور علمی لحاظ سے متروک شدہ ہونے کے علاوہ انسانوں کے دل دکھانے اور بچوں پر گہرے اور منفی نفسیاتی اثرات ڈالنے کے باعث بھی بنتے ہیں۔ کوئی معاشرہ کتنا ہی مہذب کیوں نہ ہو، لیکن اس کو جانچنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ وہاں کے لوگ سماجی زندگی یا عام گفتگو یا ایک دوسرے سے مخاطب ہوتے ہوئے کس قدر مہذب زبان کا استعمال کرتے ہیں۔ دنیا کی جن اقوام میں زبان میں مٹھاس اور گفتگو میں اخلاق کا عنصر نمایاں ہو وہاں مقامی افراد کے علاوہ اجنبی بھی خود کو محفوظ سمجھتےہیں۔۔!
ہم ایک نااہل نظام کے تحت چوہتر سالوں سے مسلسل مار کھا رہے ہیں۔ دنیا میں جن ممالک نے ترقی کا سفر طے کیا ہے وہ فقط علم وعمل سے طے کیا اور مسلم سماج مدتوں سے منجمد پانی کی طرح ہے۔ ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت بھی اپنےپیٹ سے آگے سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔وہ بھی اسی فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح اقتدار کے سنگھاسن(کرسی) پر پہنچا جائے۔ اور اپنی بھوک ختم کی جائے۔ سو اس طرح نہ قوم بنتی ہے نہ ارتقا کا عمل وجود میں آتا ہے۔ اور نہ ہی پس ماندگی ختم ہوتی ہے۔اگر ہم نے بہ حیثیت قوم آگے جانا ہے۔ تو موجودہ سیاسی، مذہبی قیادت سے برأت کااظہارکرنا ہوگا۔یہ لوگ اس قابل نہیں ہیں کہ ملک وقوم کےلیے کچھ کرسکیں-انھیں اگر کچھ کرنا ہوتا تو اب تک کر چکے ہوتے-سو ان پر مزید اعتبار کرکے وقت ہی برباد ہوگا۔
آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم روایتی مذہبی سوچوں کو بالائے طاق رکھ کر سیرتِ نبویﷺ اور دور صحابہ کرام رضکا مطالعہ کریں اور اس کی روشنی میں ایک جامع سیاسی لائحہ عمل اختیار کر کے موجودہ دور کے سیاسی، علمی، معاشی اور معاشرتی زوال سے اپنی قوم کو نکالیں۔ ورنہ مستقبل میں تاریکی اور مایوسی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔۔۔!