بے تاج بادشاہ کی کہانی اسی کی زبانی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بے تاج بادشاہ کی کہانی اسی کی زبانی

    ایک یتیم بچے کی ایسی کہانی جس میں زندگی کے تلخ حقائق پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ دراصل اس کہانی میں پورے پاکستان کے مجموعی حالات کو بھی قلمبند کیا گیا ہے۔

    By Ali Gohar Published on Apr 11, 2019 Views 2854

    بے تاج بادشاہ کی کہانی اسی کی زبانی
    (پاکستان کے بے شمار بادشاہوں کی داستان)
    تحریر : علی گوہر۔ جیکب آباد

    میرا نام بادشاہ ہے میں شمالی سندھ کے نواحی  علاقے میں رہتا ہوں.میں جب سات سال کا تھا تو میرے والد صاحب کو اپنے ہی رشتےداروں نے قتل کردیا. امی جان بتایا  کرتی تھی کہ آپ کے والد کو سیاہ کاری کے الزام میں بے گناہ قتل کیا گیا تھا۔ دراصل جس بندے نے آپ کے والد کو قتل کیا تھا وہ آپ کے والد کا مقروض تھا۔ بار باراصرارکے باوجود بھی وہ ٹال مٹول کیا کرتا تھا. آخرایک دن جب آپ کے والد ان کے پاس قرضہ واپس لینے گئے تو انھوں نےان پر سیاہ کاری کا الزام لگاکر قتل کردیا  لیکن یہ بات حقیقت کے برعکس تھی،اس کے بعدمیں خود پولیس تھانہ گئی مقدمہ بھی درج کروایا۔ لیکن چونکہ وہ علاقےکے وڈیرے کا خاص آدمی تھا اس وجہ سے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ 

    ایک سال کے بعد میرے ماموں  نے کچھ پیسوں کے عوض میری ماں کی دوسری جگہ شادی کروا دی۔ بس پھر میں اور میرا چھوٹا بھائی جو کہ تین سال کا تھا اپنے چچا  کے گھر میں رہنے لگے۔ چچا کا برتاو بھی اچھا نہیں تھا وہاں کبھی ہمیں کھانا ملتا کبھی نہیں. پہلےمیں اسکول بھی جایا کرتا تھا لیکن اب نہیں۔ بابا کے وفات کے بعد امی جان رلیاں(رلی کی جمع :سندھ کی روایت میں خاص قسم کی مختلف رنگوں پر مشتمل چادر جو گھروں میں سی کر بنائی جاتی ہے)سی کر میری پڑھائی کا خرچہ کرتی تھی لیکن امی کے جانے کے بعد میرا اسکول جانا بند ہوگیا۔اب میں ایک ہوٹل پر کام کرتا ہوں اسکول کے بچوں کو دیکھ کر بہت اداس ہوجاتا ہوں۔ ہوٹل میں لوگ مجھے چھوٹوکے نام سے پکارتے ہیں جو کہ مجھے بالکل بھی اچھا نہیں لگتا کبھی کبھی کوئی مجھے بیٹا کہتا ہے تو دل کو سکون آجاتا ہے اور ابو کی یاد بھی آجاتی ہے۔

    مجھے روزانہ ایک  سو روپے مزدوری ملتی تھی جو میں اپنے چچا کے ہاتھ میں لاکر رکھ دیتا تھا۔ لیکن چچا جان نے کبھی بھی مجھے عید کے کپڑے تک نہیں لےکر دیے۔ مجھے ہوٹل کا مالک اپنے بیٹے  کے پرانےکپڑے دیا کرتا جسے میں استعمال کرتا۔بہرحال میں نےکبھی اپنی مرضی کے مطابق نہ کچھ کھایا نہ کچھ پہنا۔

    میں ہوٹل کام  کرنے کے لئے صبح کو جلدی جاتا  اور رات کو دیر سے آتا  کبھی کبھی گاؤں کے کتےبھی پیچھے لگ جاتے۔  ایک بار تو کتوں نے کاٹا بھی۔ سنسان راستے میں ہر طرف سے چور لٹیروں کا خطرہ رہتا تھا ایک دفعہ تو راستے میں آتے ہوئے ان لوگوں نے مجھے لوٹا اور میرے پیسے میری گھڑی جو میرے ابو کی نشانی تھی وہ سب  چھین لئے اور مجھے بہت مار پیٹ بھی کی۔ میں جب گھر پہنچا تو چچا نے پیسے مانگے تو میں نے  سب واقعہ بتادیا۔ چچا نے بہت غصہ کیا اور کہا کہ یہ  پیسے نہ دینے کابہانہ  ہے۔آئندہ ایسا کیا تو مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا اس دن مجھے ابو بہت یاد آئے اور میں رو پڑا۔

    میرا چھوٹا بھائی جوکہ اکثربیماررہتا تھا اسےڈاکٹر کے پاس دکھانے کے لئے بڑی مشکل سے ہوٹل سے چھٹی لےکر روزانہ سرکاری ہسپتال کے چکر لگاتا۔ وہاں بڑے لوگوں کا تو خاص احترام کیا جاتا  تھا لیکن ہم جیسے غریب اور بے کس لوگ ہاتھ میں پرچی تھامےگھنٹوں انتطار کے باوجود ڈاکٹر کی ملاقات سے محروم رہتے اور جب کبھی نمبرآتا تو ڈاکٹر صاحب کی بے توجہی کا شکار ھو جاتے۔ دوائیاں بڑی مہنگی ہوتیں جسے خریدنے کی طاقت مجھ میں نہیں تھی۔ میرے پاس اپنے بھائی کو تسلی کے دو چار جملوں کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر آخر کار میرا بھائی بیماری کی حالت میں چل بسا۔

    بھائی کی وفات کےبعد میری زندگی ویران ہوگئی میرا نام توبادشاہ ہے لیکن میری حالت اس بادشاہ کی سی ہے جس کی کوئی ریاست نہ ہو۔ میری ریاست میری بادشاہی میرے ابو، ماں اور بھائی تھے جو اب میرے پاس نہیں۔ کچھ عرصے بعد چچا نے کچھ رشتے دار جمع کر کے  مجھے بلوایا اور کہا کہ آپ کے والد نے مجھ سے قرضہ لیا تھا اس کے عوض وہ زمین لے لیتا ہوں جو آپ کے ورثے میں ہے اوریہ لوگ اس بات کے گواہ ہیں۔ یہ سن کر میرے پاؤں تلے زمین نکل گئی  میں خاموش رہا اپنے آپ کو تنہا محسوس کیا میں کچھ نہ کر سکا اور رو کرہوٹل چلا گیا۔ کچھ عرصے بعد چچا نے چوری کا الزام لگاکر مجھے گھر سے نکال دیا۔

    اب میں ہوٹل کےکام کے بعد شہر کے فٹ پاتھ پربادشاہی کرتا ہوں کیوں کہ میرا نام بادشاہ ہےاور یہی میری بادشاہت ہے۔

    Share via Whatsapp