برعظیم پاک و ہند کے مسلمان کا المیہ
اس مضمون میں مسلمانوں کی اجتماعی سیاسی نفسیات پر بات چیت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
برعظیم پاک و ہند کے مسلمان کا المیہ
عرفان یونس بٹ۔لاہور
برعظیم پاک و ہند کا مسلمان اپنے نظام کے زوال سے لے کر آج تک مخمصے کا شکار ہے۔ مسلمانوں نے اس خطے پر کم و بیش ایک ہزار سال حکمرانی کی ،لیکن 1857ء کے سیاسی زوال کے بعد بہ حیثیت مسلمان اپنی کھوئی ہوئی عظمت دوبارہ حاصل کرنے کے لیے اسے بے پناہ مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔یہ کہنا درست نہ ہوگا کہ مسلمان کسی جدوجہد، کسی تحریک یا کسی مقامی طاقت کے ساتھ اشتراک عمل سے گریزاں رہا ہے۔اور یہی وجہ ہے کہ مسلمان کسی بڑی سیاسی تحریک کا محرک نہیں بن سکے۔
چوں کہ انگریزوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا تھا، اس لیے ان کے غیض وغضب کے خصوصی حق دار بھی مسلمان ہی ٹھہرے-دوسری طرف انگریز نے”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی پالیسی کے تحت دیگر مذاہب کی سرپرستی شروع کردی، جس سے مسلمانوں میں اپنے دیگر ہم وطنوں کے خلاف محرومی اور نفرت کا احساس پیدا ہوا۔
یہی وہ موقع ہے کہ برطانوی سیاست مسلمانوں میں سیاسی مستقبل کا خوف پیدا کرکے مسلمانوں میں سیاسی بے شعوری اور معروضی قومی و بین الاقوامی سیاسی منظرنامے سے بیگانگی اور نفرت کو اُبھارنے کے لیے اپنی حکمت عملی ترتیب دیتی ہے ۔ اسی بارے میں ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی کتاب ہمارے ہندوستانی مسلمان میں لکھا تھا کہ ہمیں انگریزوں کے ایجنٹ افراد کے ساتھ ساتھ عافیت پسند مسلمانوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔ جو چند بے ضرر سے عقائد کے حامل اور عبادتیں شوق سے کرتے ہیں، لیکن ضروری (ملکی و اجتماعی) معاملات پر سوچنے کی ذرا پرواہ نہیں کرتے۔
یہ اس سیاسی جدوجہد کے مقابلے کی حکمت عملی تھی جو حریت پرورمسلمان صوفیا اور علما کی رہنمائی میں برادران وطن میں آزادی کا جذبہ بیدار کررہی تھی ۔
مسلمانوں کے مراعات یافتہ طبقے نے اسی سیاسی خوف کے سبب جماعت بنائی بھی تو مسلم لیگ کے نام سے۔اور بنگال کی تقسیم کی عرضی پیش کی جو ( برطانوی مفادات کے پیش نظر ) منظور ہوگئی ،لیکن بنگالی انقلابیوں نے زبردست جدوجہد کی اور یہ فیصلہ برطانیہ کو واپس لینا پڑا،جس پر نواب وقارالملک نے کہا کہ" یہ ایسے ہی ہے جیسے لاش پر سے توپ (ٹینک) گزر جائے" ۔
ایک طرف بیسویں صدی کی قومی تحریکات کے زیر اثر بدلتی مسلم دنیا نے سامراجیت کے خلاف زبردست کردار ادا کیا۔ اور دوسری جانب یہاں ایسی شخصیات، نظریات اور خیالات کو حالات و واقعات کے تناظر میں فروغ دیا گیا، جس سے مسلمان قومی سیاسی رجحان کے برخلاف ایک مجبور اکثریت نظر آتے ہیں-اس طرح ہندوستان کے قومی منظرنامے پر تنہائی اور قومی تصورات سے بیگانہ سیاسی شعور سے عاری جذباتی اور سطحی نعروں کی بنیاد قائم اور پھیلتی اس فضا نے مایوسی کو جنم دیا-اس ذہنیت کا نقصان یہ ہوا کہ برعظیم کے مسلمان نے اپنے آپ کو اس خطے سے کاٹ لیا اور اپنے آپ کو اعلیٰ مخلوق سمجھتے ہوئے بقیہ مقامی اقوام اور مذاہب کوکمتر سمجھنے لگے۔
اس طرزِ فکر و عمل کا یہ نقصان ہوا کہ مسلمانوں نے اپنے آپ کو اپنی ذات، نسل، برادری تک محدود کر لیا اور اپنے آپ صوفیا کی اس عظیم دعوت سے کاٹ لیا، جس میں صوفیا نے مضبوط ہندو فلسفے، اپنشندوں، روحانی تعلیمات وغیرہ کو سمجھ کر، اس کے اصل پیغام کی ہندوؤں کو دعوت دی تو اُن کو اسلام کی حقانیت سمجھ آ گئی۔ صوفیا نے اس دھرتی کو اپنا وطن بنایا اور یہاں کے باشندوں کو پیار و محبت سے گرویدہ بنایا۔ یہی وجہ تھی کہ صوفیا جس جگہ تشریف لے جاتے، پوری کی پوری ہندو آبادی مسلمان ہوجاتی تھی جیسے اجمیر شریف، پاکپتن، لاہور وغیرہ۔ لیکن اس کے بعد مسلمانوں نے صوفیا کی تعلیمات سے اپنے آپ کو کاٹ کر اپنے دروازے دیگر مذاہب پر بند کر دیے۔یوں آج ہزاروں مدرسوں، مساجد، خانقاہوں کے ہوتے ہوئے ہم پاکستان کے غیر مسلموں کو بھی مطمئن نہیں کرسکے ہیں اور وہ اپنی جان و مال، عزت وآبرو کے حوالے سے ہم مسلمانوں کے شر سے خوف زدہ رہتے ہیں -
اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتے ہیں کہ اس قوم کی حالت کبھی نہیں بدلی جاتی، جو خود اپنی حالت کو بدلنے کا خیال نہ کرے۔ ابدی، آفاقی اور غیر متبدل الہی اصول و ضابطہ تو یہی ہے کہ اپنی حالت کو بدلنے اور نہ بدلنے، دونوں پر، انسان اختیار رکھتا ہے۔
قومی سیاسی شعور سے بیگانہ رکھنے کے لیے یہاں کی اشرافیہ نے پاکستان کے مسلمان کو یہ بھی باور کروا دیا کہ چوں کہ پاکستان قیامت تک رہنے کے لیے بنا ہے تو اسے کچھ نہیں ہو سکتا، اس لیے اس کے ساتھ جو مرضی کرو یا جو کچھ ہو رہا ہے اسے ہونے دو ۔غور کرنےکی بات ہےکہ کونساپاکستان ہےجو قیامت تک رہنے کے لیے بنا تھا؟ 1947ء والا یا آج والا؟ وہ بنگلا دیش بھی تو پاکستان ہی تھا نا؟ اس ذہنیت کی وجہ سے ہر پاکستانی حکمران اور اعلی سرکاری عہدے دار اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں رہتا ہے۔ وہ یہاں کے وسائل لوٹ کر دوسرے ملک میں خاندان سمیت شفٹ ہونا چاہتا ہے۔ کیوں کہ اس کی نفسیات میں قومی سیاسی وحدت اور قومیت کے تصورات کے لیے خانہ ہی موجود نہیں ۔اس کے پاس رہنے کو گھر نہیں، لیکن سارا جہاں وطن ہمارا کی صدائیں اسے دیس سے دور ممالک کی ترقی کا ذریعہ بناتی ہیں اور قومی ترقی اس کے لیے ثانوی چیز بن جاتی ہے۔ جب کہ اس کے مقابل گزشتہ صدی کے اوائل میں ہندوستان سے ہجرت کرکے جانے والوں نے غدر پارٹی کی داغ بیل ڈالی قومی سیاسی فلسفے پر جدوجہد کی اور ہم آج بھی اپنی اس مذکورہ سوچ کی بدولت پوری مسلم دنیا میں پر تشدد تحریکات کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور اپنےنوجوان کو پرائی آگ کا ایندھن بنارہے ہیں یوں ہم مسلم کے ممالک رہے سہے سیاسی سماجی ڈھانچے کو تباہ و برباد کررہے ہیں ۔
اس لیے میرا خیال ہے کہ ہمیں جو کام کرنے چاہیئں، وہ درج ذیل ہیں:
1۔ اس خطے کو اپنا سمجھیں۔ اس خطے سے پیار کریں۔ اس خطے میں بسنے والی تمام قوموں، تہذیبوں، زبانوں اور نسلوں کو اپنائیں۔ ان سب کو اپنا وطنی بھائی سمجھیں۔ اپنے آباء سے محبت ضرور رکھیں۔ لیکن جب ملکی سرحدیں اقوام متحدہ نے طے کر دی ہیں تو اس دور میں اپنے ملک کی ترقی اور خوش حالی زیادہ اہمیت کی حامل ہو چکی ہے۔
2۔ بلا رنگ، نسل، مذہب، تمام قوموں سے ملک اور خطے کی بہتری و ترقی کے لیے تعلقات کو فروغ دیں۔
3۔ کسی بھی قسم کی فرقہ واریت کو فروغ دینا بند کردیں۔ تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے کے اصول پر انسانیت کی بہتری کا سوچیں۔
4۔ جدوجہد اور سخت محنت کو اپنا قومی شعار بنائیں۔
5۔ سب سے بڑھ کر اپنے آپ کو ایک پلیٹ فارم پر منظم کریں۔ منظم ہوئے بغیر یہ سب باتیں کرنا اور سوچنا کوئی نتیجہ پیدا نہیں کرسکتیں۔اس خطے میں دینی بنیادوں پر قومی سیاسی جدوجہد کی شان دار تاریخ موجود ہے اس سے اپنی نسل نو کو متعارف کرائیں ، کہ شاید ہی اسلامی دنیا میں ایسی مثال ملتی ہو کہ برادران وطن کے ساتھ قومی آزادی کی جدوجہد بھی کی اور ملی اقدار و مفادات کو قربان بھی نہیں ہونے دیا ۔اور انگریزی سیاست کو ہر موقع پرعقل و شعور کی طاقت سے بے نقاب کیا ۔
یہی وجہ ہے کہ ویران اور پژمردہ قومی سیاسی منظر نامے پر آزادی اور حریت کے متوالوں کا ذکر نسل نو کے لیے فراہم کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ۔
6۔ کوشش کرکے کم ازکم اپنے دوستوں کے حلقے میں سنجیدہ مکالمے کو فروغ دیں، جس میں ملک کی بہتری کے حوالے سے سوچ وبچار کی جائے۔ اور ایسے لایعنی مباحث کہ جن کا تعلق قومی خودی اور شعور کو منتشر کرنے سے بچا جائے ۔
7۔ ملک کی ستر سالہ تاریخ تو یہی بتاتی ہے کہ ریاست تو قومی نظریہ اپنانے کی اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں گریز کرتی رہی ہے ۔ اس لیے اپنے اخلاص، ہمدردی اور اجتماعیت کی سوچ کے ساتھ ساتھ قومی سیاسی تاریخ میں اپنے کردار کی اہمیت کے پیش نظر ریاستی و حکومتی معاملات چلانے کی صلاحیت پیدا کریں تاکہ موقع ملنے پر صلاحیت کی بنیاد پر آگے بڑھا جائے۔