سرمایہ دارنہ نظام کی کارستانیاں - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سرمایہ دارنہ نظام کی کارستانیاں

    سرمایہ دارانہ نظام میں عوام کی چیخ و پکار کا سارا ملبہ ایک حکومت سے دوسری اور دوسری حکومت سے تیسری حکومت پر ڈالا جاتا ہے۔

    By Abid Hussain Published on Sep 28, 2021 Views 936

    سرمایہ دارانہ نظام کی کارستانیاں

    تحریر: عابد حسین کولاچی، اسلام آباد 

    وطنِ عزیز کے74 سالوں میں کوئی ایسا دور نہیں گذرا، جس میں عوام کو امن و امان اور خوش حالی کا دن دیکھنا نصیب ہوا ہو، بلکہ ہر دور میں مہنگائی، ٹیکس اور بے روزگاری نے عوام کی کمر توڑ کے رکھ دی ۔ کوئی ایسی حکومت نہیں آئی، جس نے روٹی کپڑا مکان کے وعدے یا پھر مہنگائی اور بدعنوانی کو ختم کرنے کے دعوے سچے ثابت کیے ہوں۔ ہر دور میں عوام کی حالت جوں کی توں ہی رہی، بلکہ پہلے سے بھی بدتر ہوئی ہے۔آج بھی سیاسی جماعتیں روٹی کپڑا اور مکان کا چورن بڑی آسانی سے بیچ رہی ہیں۔مہنگائی، بدعنوانی اور بے روزگاری کو ختم کرنے کے نعرے بھی بڑا کام کر رہے ہیں۔ اس معاشرے کے انھی سلگتے ہوئے مسائل سے نکلنے کا خواب بے چاری عوام 74 سالوں سے دیکھ رہی ہے اور یہ سمجھتی ہے کوئی ایسی جماعت آئے گی جو وطن پرست اور عوام دوست قانون بنا کر خوش حالی پیدا کردے گی یا پہلے سے آزمائی ہوئی جماعت کو اس امید پر دوبارہ ووٹ دیتی ہے کہ شاید اس بار یہ جماعت عوام کی فلاح و بہبود کا اچھا کام کرے اور بھوک، بدحالی اور بدامنی کو مٹا دے یا پھر کسی جماعت کی حمایت اس بنیاد پر کرتی ہے کہ اس جماعت کے لوگ اچھے اور ایمان دار ہیں جو عوام کا درد سمجھ سکتے ہیں۔

    ان ہی باتوں اور امیدوں کی بنیاد پر عوام کا ووٹ لے کر جب کوئی جماعت اقتدار میں آجاتی ہے تو آتے ہی رونا دھونا شروع کر دیتی ہے کہ پچھلی حکومت کی ناقص کارکردگی کی وَجہ سے ہم کچھ نہیں کر پارہے، قومی خزانہ خالی ہے اور معاشی بحران کا ڈھنڈورا پیٹتی ہے اور بڑے بڑے قرضے لے کر پھر سے عوام پر مہنگائی اور بھاری بھرکم ٹیکسز کا بوجھ ڈالا جاتا ہے، جیسے پچھلی حکومتوں میں ہوتا آیا ہے اور پھر عوام کی چیخ و پکار کا سارا ملبہ ایک حکومت سے دوسری اور دوسری حکومت سے تیسری حکومت پر ڈالا جاتا ہے۔ یوں عوام کی ساری امیدوں پر پانی پھیر دیا جاتا ہے اور پھر پانچ سال گذرنے کے بعد پھر وہی پرانی کہانی نئے سرے سے شروع ہو جاتی ہے۔ یہ ساری کارستانیاں اس سرمایہ دارانہ نظام کی ہیں، جس کے زیرِ سایہ بننے والی حکومتیں اور جماعتیں اپنے مفادات کا کھیل کھیلتی ہیں اقتدار میں آنے والی ہر جماعت کے چھوٹے نمائندے سے لے کر بڑے لیڈر تک کو عالی شان مکانوں، مہنگی گاڑیوں اور عیاشیوں کی لت لگ جاتی ہے۔ ہر اس آرام و آسائش پر ان کا حق بن جاتا ہے، جس کا عوام سے کوئی لینا دینا نہیں۔ اس لیے جو بھی حکومت بنتی ہے بجائے عوام کے مسائل حل کرنے کے اس نظام کے تحفظ کے لیے اپنا کردار ادا کرتی ہے۔

    74 سالوں سے ملکی معاشی حالت نے عوام کو جکڑا ہوا ہے ۔ اس معاشرے میں کوئی بھی ایسی سہولت نہیں جو بہ آسانی عوام کی پہنچ میں ہو۔ تعلیم، صحت اور دیگر بنیادی ضروریات کے لیے عوام تا حال جوں کی توں پریشان ہے ۔ ملک میں زیادہ تر آبادی کسان، مزدور اور دہاڑی دار طبقے کی ہے۔ اس طبقے کے لیے ہر دور میں اتنی اُجرت رکھی جاتی ہے، جس سے وہ طبقہ اچھی تعلیم اور صحت تو دور کی بات محض دو وقت کی روٹی اور کپڑا بھی بڑی مشکل سے حاصل کرتا ہے۔ کسی بھی معاشرے میں اخلاقی گراوٹ کی سب سے بڑی وَجہ معاشی معاملات میں تنگی ہوتی ہے۔ یہی وَجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں چوری، بدامنی ،ڈاکہ اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم ہے۔ اس کے علاوہ چیزوں میں ملاوٹ، جھوٹ، فریب اور رشوت جیسی اخلاقی برائیاں بھی عام ہوگئی ہیں۔

    اسی نظام نے بڑی چالاکی اور مکاری سے عوام کو اس حالت پر راضی رکھنے اور تمام مسائل کی اصل جڑ سرمایہ دارانہ نظام سے توجہ ہٹانے کے لیے اپنے حربے استعمال کیے ہیں۔ سب سے پہلے تعلیم کے ذریعے نوجوان میں اِنفرادی، سطحی اور طبقاتی سوچ پیدا کردی جاتی ہے، جس سے وہ نوجوان اپنی ذات سے بڑھ کر کسی اور کو آگے دیکھنا پسند نہیں کرتا، اس میں قومی شعور اور اجتماعی سوچ کا فقدان پایا جاتا ہے اور اسی نوجوان کو سولہ سال کی تعلیم حاصل کرنے کے بعد بھی بے روزگاری کے عذاب کی نذر کردیا جاتا ہے اور جن کو روزگار یا ملازمت مل بھی جاتی ہے تو بڑی مشکل سے ان کی بنیادی ضروریات پوری ہوتی ہیں۔آج بھی چھوٹے طبقے والے ملازم اپنی آمدن سے اپنا ذاتی گھر بنانے سے قاصر ہیں۔

    دوسری طرف یہی نظام میڈیا اور نام نہاد سیاسی و مذہبی رہنماؤں کے ذریعے انھی نوجوانوں کے اندر مایوسی اور فرسودہ نظریات و خیالات کو فروغ دیتا ہے۔ کبھی میڈیا کے ذریعے سیاسی جماعتوں کے نمائندے بےہودہ اندازِ گفتگو کو اختیار کرتے ہوئے ایک دوسرے کی تذلیل کرکے عوام میں احمقانہ سوچ کی بنیاد پر تائید حاصل کرتے ہیں کہ فلاں نے فلاں کو کھری کھری سنا دی۔ لہٰذا کم سے کم یہ بندہ عوام کے حق میں بولتا ہے، اسی سوچ پر ان کی تقاریر کو بھی ترجیح حاصل ہوتی ہے۔ بڑے بڑے سیمیناروں پر سرمایہ لگا کر موٹیویشنل اسپیکرز کے ذریعے خوب اِنفرادیت کا درس دیا جاتا ہے جو ملکی نظام کے حالات اور واقعات سے کاٹ کر صرف اتنی سوچ پیدا کرتے ہیں کہ آپ نے ایک کامیاب آدمی اور اچھا بزنس مین اور سرمایہ دار کیسے بننا ہے ۔ کیوں کہ سارے موٹیویشنل اسپیکر اسی سرمایہ دارانہ نظام کی پیداوار ہیں۔ چاہے قومی حوالے سے دیکھا جائے یا بین الاقوامی طور پر پرکھا جائے،یہی موٹیویشنل اسپیکر ہیں جو بھوک، بدحالی اور مایوسی کی وَجہ خود اس بندےکو قرار دیتے ہیں اور نظامِ ظلم کی طرف آنکھ اُٹھا کر دیکھتے تک نہیں۔ اس کے علاوہ نام نہاد مذہبی رہنما ممبرِ رسولﷺ پر بیٹھ کر فرقہ واریت کا درس دیتے ہیں۔ عقیدوں کی بنیاد پر نفرت کو جائز قرار دیتے ہیں، تاکہ عوام میں اختلاف پیدا ہو اور کبھی بھی قومی مسائل پر ایک ساتھ بیٹھ کے شعور کی بات نہ کرسکیں اور کہیں خود کو غیرسیاسی کہہ کر عوام کے مسائل سے الگ ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کہیں اس حالتِ زار کا سارا ملبہ عوام پر ڈالتے ہوئے اللہ کی طرف سے آزمائش یا پھر عوام کے گناہوں کی سزاؤں کے فتوے بانٹتے رہتے ہیں۔ یہ سارا کھیل اس لیے رچایا جاتا ہے، تاکہ عوام میں کبھی شعور پیدا نہ ہو اور مسائل کی اصل جڑ سرمایہ دارانہ نظام پر سوچنے اور غوروفکر کرنے کا خیال ہی پیدا نہ ہو۔ اس لیے یہ نظام کبھی بھی ایسا نہیں چاہتا کہ عوام میں سیاسی اور قومی شعور پیدا ہو۔

    دنیا میں کسی بھی معاشرے میں مسلط نظامِ ظلم سے نجات پانے کا واحد راستہ نظامِ ظلم کا خاتمہ اور اس کی جگہ عادلانہ نظام کو قائم کرنا ہوتا ہے، جس کے لیے معاشرے کے نوجوانوں میں قومی اور اجتماعی شعور کا پیدا ہونا لازمی ہے، جس کی مثال دینِ اسلام کی تاریخ میں انبیائے کرام کے دور میں خاص طور پر حضور اکرمﷺ کے سیرتِ مبارکہ میں واضح اور روشن ملتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ نے مکہ مکرمہ میں صحابہ میں قومی شعور اور اجتماعی سوچ کے ذریعے ایک جماعت پیدا کردی، جس نے مدینے میں جاکر نہ صرف ابوجہل کے نظامِ ظلم کی حکومت کو توڑا، بلکہ مدینے کی ریاست بھی قائم کردی، جس نے بلاتفریق رنگ، نسل مذہب کل انسانیت کے مسائل کا حل پیش کر کے معاشرے میں خوش حالی پیدا کردی۔

    ہمارے ملک میں رائج اس سرمایہ دارانہ نظام کے عذاب سے عوام کو نجات دلانے کے لیے بہ حیثیت مسلمان یہ ہمارا فرض بنتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی سیرتِ مبارکہ سے رہنمائی حاصل کر کے قومی اور اجتماعی سوچ کی بنیاد پر شعور حاصل کیا جائے اور اس نظامِ ظلم کے خاتمے اور نظامِ عدل کو قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔

    Share via Whatsapp