تساہل ایک مہلک مرض
کامیابی یہ نہیں دیکھتی کہ انسان امیر ہے یا غریب بلکہ کامیابی پانے کیلئے ایک کوشش اور محنت درکار ہے جس نے خلوص کے ساتھ محنت کی اس نے اپنا مطلوب پا لیا۔
تساہل ایک مہلک مرض
تحریر : ابراہیم خان ، مانسہرہ
"مشکل ایک ایسا عذر ہے، جسے تاریخ کبھی تسلیم نہیں کرتی۔"
ایک دانش ور کا قول ہے :
"دنیا جد وجہد کا وسیع میدان ہے ، جس میں ترقی کے لیے بے شمار راستے ہر طرف کھلتے ہیں۔ یہ آپ کے اختیار میں ہے کہ محنت اور کوشش سے انھیں طے کرکے منزل مقصود پر پہنچ جاؤ۔"
تساہل کا نقصان
سستی ، کاہلی اور کام کو کل پر چھوڑنے کے باعث ہم اہم امور کو غیراہم امور کے مقابلے میں مؤخر کر دیتے ہیں۔ یہ تساہل ، سست روی ، ٹال مٹول اور تاخیر ہمارے دشمن اور ہمارے مستقبل کے لیے تباہ کن ہیں۔ یہ تساہل نشہ آور چیزوں سے زیادہ نقصان دہ ہے کیوں کہ جو شخص نشہ کرتا ہے وہ معاشرے سے کافی حد تک کٹ جاتا ہے، مگر تساہل اور سست روی کا شکار فرد معاشرے میں رہ کر اپنی سستی اور غفلت سے معاشرے کو نقصان پہنچاتا ہے۔ ہم بعض اہم امور کو اس لیے پس پشت ڈال دیتے ہیں کہ انھیں کرنے کو جی نہیں چاہتا یا مناسب وقت اور سکون میسر نہیں ہوتا یا اس خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں کہ ابھی کافی وقت باقی ہے۔
سست لوگوں کی زندگی میں "کل" (آنے والا دن) کا لفظ بھی ایک دھوکے کی شکل اختیار کر لیتا ہے جو انسان کو وقت ضائع کرنے کی شرم اور افسوس سے بچاتا رہتا ہے۔
داناؤں کا مزاج اور عمل
داناؤں کی ڈکشنری میں "کل" کا لفظ نہیں ملتا۔ البتہ کم فہموں کے ہاں یہ بکثرت مل سکتا ہے اور یہ رویہ ہم لوگوں کے لیے بہ حیثیت فرد، قوم اور امت کے نقصان دہ ہے۔ اہم اور ضروری نوعیت کے کام جن کی تکمیل سے ہمارا ذاتی، معاشرتی اور قومی مفاد وابستہ ہو اسے ہم ملتوی کر دیتے ہیں اور اس کے مقابلے میں غیرضروری کام میں اپنا وقت برباد کر دیتے ہیں۔
تساہل کا مفہوم:
تساہل ایک غیرمحسوس بیماری اور خود ملامتی سے بھرپور نشہ ہے۔ اس سے انسان لذت لیتا ہے۔ یہ اِنفرادی بیماری بھی ہے اور اس کے اجتماعیت پر بھی منفی اَثرات پڑتے ہیں۔ اسی تساہل اور سست روی کی وَجہ سے کچھ لوگوں کی زند گی کی ترجیحات ہی واضح نہیں ہوتیں۔
جب منزل متعین نہ ہو تو سفر کیسے طے ہو گا؟ ہم تساہل کی اس بیماری کے باعث اپنے قومی اور اجتماعی مقاصد حاصل نہیں کر سکتے ، نہ آخرت کی تیاری کر پاتے ہیں اور نہ ہی دنیا کو سنوارتے ہیں۔ زندگی میں ناکامی زنجیروں کی طرح پیروں کو جکڑ لیتی ہے ، ملامتیں اور طعنے مستقبل کا سامان بن جاتے ہیں۔
ہم جانتے ہیں کہ سوتے کو جگانا آسان ہے، لیکن جاگتے کو جگانا دشوار ہے۔
قوموں کی زوال پذیری کی وجوہات :
زوال کا شکار اقوام کے زوال کی بےشمار وجوہات ہیں۔ ان وجوہات میں بےشعوری ، کاہلی ، سست روی اور نااہلی سرفہرست ہیں۔
بہ قول شاعر:
جب کشتی ثابت و سالم تھی ساحل کی تمنا کس کو تھی
اَب ایسی شکستہ کشتی پر ساحل کی تمنا کون کرے
جو لوگ تساہل کا شکار ہیں ،وہ اصل میں عدم توجہی اور یکسوئی کی کمی کا شکار ہوتے ہیں۔ کاہلی اور سست روی کے شکار افراد اپنی ذات اور معاشرے کے معاملات میں سنجیدگی سے کام نہیں لیتے اور غیرذمہ دارانہ رویے اپنائے رکھتے ہیں۔ کچھ لوگ باصلاحیت اور ہنرمند ہوتے ہیں، مگر اپنی زندگی کا نصب العین اور مقاصد کا تعین نہیں کرتے۔ کھلی آنکھوں سے کامیابی کا خواب دیکھتے ہیں اور تصورات میں ہی لطف لیتے رہتے ہیں، مگر عمل کی دنیا میں سست روی اور کاہلی کا شکار رہتے ہیں۔
سستی اور کاہلی موذی بیماری ہے۔ یہ انسانی زندگی میں مادی طور پر نقصان دہ تو ہے ہی مگر دین کے معاملے میں بھی یہ تساہل انسان کو اکثر نفاق کی حد تک لے جاتا ہے۔
تساہل ایک ایسا مرض ہے، جس کا علاج محض تصورات سے نہیں ہوتا۔ بلکہ یہ نفس کے خلاف ایک جہاد ہے جو کرنا ہوتا ہے۔ تب ہی ہم بہ حیثیت قوم تساہل، جیسے مہلک مرض سے نجات حاصل کر سکتے ہیں۔ وگرنہ ناکامی مقدر رہے گی اور ذِلت و پستی کا شکار ہمیشہ رہیں گے۔