خدا پرستی کا سماجی اثر
خدا پرستی کا فوری نتیجہ انسان دوستی
خدا پرستی کا سماجی اَثر
تحریر؛ حسن جہانگیر، مانسہرہ
خداپرستی کا مفہوم:
جب سے انسان کی تخلیق ہوئی تو روزِ اول سے ہی اس کی کامل رہنمائی کا بھی اہتمام قدرت نے انبیا اور صحائف سماویہ کی صورت میں کردیا۔ تمام انبیا کی نبوت کا بنیادی مقصد ہی تہذیبِ نفس اور سیاستِ ملیہ رہا۔ امام شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں، تہذیبِ نفس کے سلسلے میں جو چیز شریعت میں مطلوب ہے وہ چار خصلتیں ہیں۔ حق تعالیٰ نے انبیا کو ان ہی چار خصلتوں کےلیے بھیجا۔ تمام ملل حقہ میں انھی چار خصلتوں کا ارشاد اور ان کے حاصل کرنے کی ترغیب و تحریص ہے۔ بِر یعنی بھلائی ان ہی خصلتوں کا حاصل ہے اور گناہ سے مراد وہ عقائد و اعمال اور اخلاق ہیں جو انھی خصلتوں کی ضد ہیں۔ (شعور و آگہی، عبیداللہ سندھی، ص:18)
ان چار خصلتوں میں بنیادی خصلت خداپرستی ہے، جسے امام شاہ ولی اللہ نے اخبات الی اللہ سے تعبیر کیا ہے۔ اخبات سے مراد خدا کے لیے نہایت درجے کی عاجزی و نیازمندی ہے۔
مولانا سندھی فرماتے ہیں: "ایک سلیم الفطرت شخص جب طبعی اور خارجی تشویشوں سے فراغت کے بعد صفاتِ الٰہی، اس کے جلال اور کبریائی میں غور کرتا ہے تو اس پر ایک حیرت و دہشت کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔ یہی دہشت اور حیرت خشوع و خضوع یعنی نیازمندی کی صورت اختیار کرلیتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایک انسان جب کائنات کی اس گتھی کو حل کرنے سے عاجز آجاتا ہے اور عجز اور افتادگی کی حالت میں وہ کسی اور قوت کے سامنے اپنے آپ کو بے دست و پا پاتا ہےتو اس کی یہ بے دست و پائی اسے مجبور کرتی ہے کہ وہ اپنے سے بلند تر کسی اور قوت کو مانے۔ یہی مجبوری اسے خضوع یا خداپرستی کی طرف لے جاتی ہے" (شعور و آگہی، عبیداللہ سندھی، ص:18)
خدا پرستی کا نظریہ بلند نصب العین
غور کیا جائے تو خداپرستی یا ایمان بااللہ کا عقیدہ بلند نصب العین کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس دنیا میں اس اعلیٰ و ارفع تصور ممکن نہیں۔ اللہ کے تصور میں وحدتِ انسانیت اور وحدت کائنات سب آجاتے ہیں اور ذھن کے سامنے لامحدود آفاق اور بے کنار وسعتیں واشگاف ہوجاتی ہیں۔ خداپرستی کی سب سے اونچی منزل یہ ہے کہ انسان یہ مانے کہ اس زمین و آسمان میں اگر کوئی وجود حقیقی ہے تو وہ اسی اللہ کا ہے، جو کچھ ہے وہ سب اسی کا فیضان ہے اور جو کچھ ہوتا ہے اُس کا اصلی سبب وہی ذات ہے۔ جب وہی ذات تمام جہانوں پر غالب ہے تو پھر وہ اس لائق ہے کہ ہر ہر شعبے میں اسی کی بندگی کی جائے اور شرک کی تمام صورتوں کو فکرا ًو عملا ترک کر کے اپنے موحد ہونے کا ثبوت پیش کیا جائے۔ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ: وقال اللہ لاتتخذوا الٰھین اثنین(النحل:51)
ترجمہ: اور کہا اللہ نے کہ دو دو معبود نہ بنا بیٹھنا۔
مراد یہ ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عبادت (نماز،روزہ،زکوۃ،حج وغیرہ) تو اللہ کے حکم کے تحت بجا لاؤ اور معیشت و معاشرت میں کسی اور کو حکم مان کر اس کی اتباع کرنے لگو۔
خداپرستی کا اولین تقاضا یہ ہے کہ اس کی جامع اور کامل بندگی اختیار کی جائے اور اسی کے حکم کے مطابق معاشرہ تشکیل دیا جائے۔ اس مضمون کو سورۃ المائدہ میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ:
ومن لم یحکم بما انزل اللہ فاولئک ھم الکافرون
ترجمہ: جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتے وہی تو کافر ہیں۔
حدیث کی رو سے ایمان کی تعریف:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم ہے کہ "تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔"
حدیثِ مبارکہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کا سماجی اَثر بیان کیا ہے۔ اس حدیث کے تناظر میں جب ہم اپنے مسلمان معاشرے کا جائزہ لیتے ہیں تو افسوس اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ طویل عرصے سے معاشرے پر مسلط سرمایہ داری نظام نے انسانوں کے اخلاق اور رویوں پر بہت منفی اَثرات ڈالے ہیں، جن کا اِظہار خودغرضی اور مفادپرستی کی شکل میں ہوتا ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنے لیے تو اعلیٰ تعلیم کا خواہش مند ہے اور صاحبِ حیثیت شخص سرمائے کی بنیاد پر حاصل بھی کرلیتا ہے، لیکن معاشرے کے پس ماندہ اور تعلیم سے محروم طبقات کے لیے اس کے دل میں کوئی جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔
پھر اپنے لیے تو وہ روزی کے مستقل اور باوقار ذرائع چاہتا ہے، لیکن معاشرے میں موجود مفلس افراد جو غربت کی وَجہ سے حیوانی زندگی گزارنے پر مجبور کر دئے گئے ہیں۔ اُن کی حالتِ زار دیکھ کر اس کے دل میں انسانی ہمدردی پیدا نہیں ہوتی۔ وہ چاہتا ہے کہ اس کی ماں بہن باعزت اور خوش حال زندگی بسر کرے، کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلائے کسی کی گندی نظر کا سامنا نہ کرے، لیکن اس کا مردہ ضمیر کبھی معاشرے کی اُن ماؤں بیٹیوں کے لیے سوچ ہی نہیں سکا جو لاچارگی کے عالم میں دوسروں کے در پر ذلیل و خوار ہوتیں اور معاشرے کی گندی نظروں کا ہر لمحہ سامنا کرتی ہیں۔
قرآن کہتا ہے: "یاایھاالذین اٰمنوا اٰمِنوا"
ترجمہ: اے (دعوی) ایمان (کرنے) والو ! ایمان لے آؤ۔
خدا پرستی اور معاشی حقوق کی ادائیگی
حقیقت یہ ہے کہ ہم ایمان اور خداپرستی کے فلسفے کو سمجھے ہی نہیں۔ اگر کوئی مسلمان خدا اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور عبادت کے ذریعے کسی حد تک اس کا اِظہار بھی کرتا ہے، لیکن معاشرے کے لیےاس کا کوئی مثبت کردار موجود نہیں، اس کے دل میں انسانی ہمدردی کے جذبات موجود نہیں تو وہ دھوکے میں ہے۔ کیوں کہ وہ لوگ جو عبادات، ذکر و اذکار میں تو مشغول رہتے ہیں، لیکن سماجی بگاڑ بالخصوص بھوک و افلاس کے خاتمے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے اور سنجیدگی سے اس کے تدارک کے لیے حکمتِ عملی وضع کرنے سے غافل رہتے ہیں تو اللہ نے سورۃ الماعون میں ایسے عبادت گزار بندوں کے لیے ہلاکت کی وعید سنائی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: فویل للمصلین ہلاک ہوجائیں یہ نمازی جو اپنی نماز کے تقاضوں سے بے خبر ہیں۔
اسی حقیقت کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی واضح کیا کہ کسی نے ایک شخص کی بہت زیادہ تعریف کی کہ وہ بہت اچھا ہے، بہت نیک ہے، اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا کہ کیا تمھارا اس سے پیسے کا لین دین ہوا ہے کبھی؟ اس شخص نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا کہ تم نے اس کے ساتھ کبھی سفر کیا ہے؟ اس نے کہا نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اس کا مطلب ہے کہ تم نے اسے مسجد میں اُٹھتے بیٹھتے دیکھا ہوگا۔(کنز العمال)
اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر نماز کے ساتھ اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ سماجی کردار جڑا ہوا نہ ہو تو بہ قول حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے وہ محض اُٹھنے بیٹھنے کے سوا کچھ نہیں کیوں کہ نماز (اگر اس کے تقاضوں کو شعوری طور پر سمجھ کر پڑھی جائے) تو انسان میں ایک عظیم انقلاب برپا کرتی ہے ۔ عبادات کے اس فلسفے کو امام انقلاب مولانا عبیداللہ سندھی نے ایک جملے میں یوں بیان کیا کہ "خداپرستی کا لازمی نتیجہ انسان دوستی ہے۔"
قرآن حکیم اورمعاشی نظریہ
بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہب کے عنوان سے سماجی بگاڑ، غربت و افلاس اور اس طبقاتیت کو تقدیر سے جوڑ کر یہ کہہ کر ہاتھ جاڑ لیے جاتے ہیں کہ یہ تو خدا کی تقسیم ہے کہ کسی کو سرمایہ دیا تو کسی کو بھوکا رکھا۔ حال آں کہ قرآن حکیم کی تعلیم تو معاشی عدل و مساوات پر مبنی ہے، بلکہ تقسیم دولت سے متعلق اس قسم کی فرسودہ سوچ کو خدا نے کافروں کی طرف منسوب کیا ہے۔
سورۃ یس میں اللہ نے کفار کا طرزِعمل ذکر کرتے ہوئے فرمایا: "واذا قیل لھم انفقوا مما رزقکم اللہ قال الذین کفرو للذین اٰمنوا انطعم من لو یشائ اللہ اطعمہ"
ترجمہ: اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ نے جو رزق تمھیں دیا ہے، اس میں سے (غربا پر) خرچ کرو تو کافر لوگ ایمان والوں سے کہتے ہیں کہ ہم کیوں کھلائیں ان کو اگر اللہ چاہتا تو خود ان کو کھلاتا۔
معیشت کے حوالے سے یہ کفارِ مکہ کا نظریہ تھا کہ معاشرے میں طبقاتیت تو اللہ پیدا کرتا ہے، بدقسمتی سے معیشت سے متعلق ہمارے مذہبی طبقے کی بھی آج یہی سوچ ہے، حال آں کہ اسلام کا نظریہ تو یہ ہے کہ اگر دریائے فرات کے کنارے جانور بھی بھوکا مرے تو ذمہ دار وقت کا نظام ہوتا ہے۔ جہاں تک بات خدا کے رازق ہونے کی ہے تو وہ یہی ہے کہ اللہ نے قیامت تک کے انسانوں کے لیے وسائل رزق زمین میں مہیا کر دئے ہیں اور حضرتِ انسان کو بہ طورخلیفہ کے یہ ذمہ داری سپرد کی ہے کہ ان وسائلِ معیشت کی ایسی بہترین منصوبہ بندی کرے کہ کوئی فرد اپنے بنیادی حق سے محروم نہ رہے۔
آج سرمایہ دارانہ نظام کی وَجہ سے ہماری سوچ پست ہوچکی ہے کہ محض عبادات سے اللہ راضی ہوجائے گا، حال آں کہ قرآن حکیم یہ تعلیم دیتا ہے کہ عبادات کے نتیجے میں انسانی قلوب میں اللہ کی محبت پیدا ہوتی ہے اور اس محبت کا عملی تقاضا یہ بنتا ہے کہ انسان معاشرے میں بھوک و افلاس، غربت و جہالت اور سماجی پس ماندگی و ناانصافی کے نظام کو ختم کرکے، معاشرتی خوش حالی و مساوات اور عدل و انصاف کا اعلیٰ نظام قائم کرے گا۔ تب ہی حقیقی معنی میں انسان خدا پرست بن سکتا ہے۔