عقل مند انسانوں کی خصوصیات۔ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عقل مند انسانوں کی خصوصیات۔

    انسانیت کی ترقی کے اصول کبھی نہیں بدلے جاتے ہاں ان اصولوں کی روشنی میں دور کے تقاضوں کے مطابق معاشرے کے عقل مند اور باشعور انسان قوانین بناتے ہیں

    By Hafiz Talha Akhtar Published on Nov 06, 2021 Views 1676
    عقل مند انسانوں کی خصوصیات 
    تحریر: حافظ طلحہ اختر۔گوجرانوالہ

    انسانی سماج کی ترقی میں عقل مند اور باشعور انسانوں کا بڑا نمایاں کردار رہا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو معاشرے کی ترقی اور خوش حالی کےفطری اصول دریافت کرتے ہیں۔ اور جب مؤثر اور مقتدر طبقے فطرت کے اصولوں سے انحراف کرتے ہیں اوراس کی خرابی معاشرے میں سرایت کرجائے تومعاشرتی  ترقی رک جاتی ہے۔ 
    حق اور سچ کے ساتھ آزادی رائے
    عقل مندی کی پہلی پہچان حالات کا جائزہ لے کر درست لائحہ عمل کا انتخاب ہے ۔اکثر حالات ناموافق ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ حق اور سچ بات سے پیچھے نہیں ہٹتے ۔ ابراہیم علیہ السلام کی جدوجہد کا تذکرہ تاریخ انسانی کی نمایاں مثال ہے ۔انھوں نے انسانی عقل کو مخاطب کیا اور غور و فکر پرآمادہ کیا۔ نیز اپنے فکروعمل سے یہ نکتہ واضح کیا کہ معقول سوالات سے ذہن انسانی کو متأثر کیا جاسکتا ہے ۔
    عقل مند اور جرأت مندانسان جب اپنی رائے دیتا ہے تو حقائق کی بنیاد پر بالکل واضح رائے دیتا ہے، کسی کو پسند آئے یا نہ آئے۔ 
    قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے سورہ مومن میں رجل مومن کی تقریر نقل کی ہے جو فرعون کے ظلم و جبر کے نظام میں بھی اپنی رائے کا اِظہار کھل کر کرتا ہے۔ 
    ترجمہ:اور ایک مومن شخص نے ، جو فرعون کے خاندان میں سے تھا اور اپنا ایمان چھپائے ہوئے تھا کہا کہ کیا تم ایک شخص کو محض اس بات پر قتل کرتے ہو کہ وہ کہتا ہے کہ میرا رب اللہ ہے اور تمھارے رب کی طرف سے دلیلیں لے کر آیا ہے اگر وہ جھوٹا ہو تو اس کا جھوٹ اسی پر ہے اور اگر وہ سچا ہو ، تو جس ( عذاب)  کا وہ تم سے وعدہ کر رہا ہے، اس میں کچھ نہ کچھ تو تم پر آپڑے گا ، اللہ تعالیٰ اس کی رہبری نہیں کرتا جو حد سے گزر جانے والے اور جھوٹے ہوں۔ المؤمن،28
    فرعونی نظاموں کی یہ پہچان ہے کہ کبھی آپ کے عقل و شعور کو بلند نہیں کرنے دیتے۔ 
    آزادی رائے معاشرے کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور بہتر رائے وہ ہے کہ جس سے معاشرتی تشکیل کا عمل اجتماعیت کے اصول پر ہو ۔ 
    آج کے مسائل کے حل اور شعوری سماجی تبدیلی کے لیے غوروفکر نہایت ضروری ہے۔ قرآن حکیم غور و تدبر کی تعلیمات سے عبارت ہے۔ 
    لیکن اَب ہمارے سماجی اور تعلیمی نظام میں سوال کرنے کے لیے حوصلہ افزا ماحول میسر نہیں ہے ،بلکہ حوصلہ شکنی کا رویہ فروغ پارہا ہے ۔ اس وَجہ سے صورتِ حال کچھ یوں ہے کہ ہم صرف مسائل کا تذکرہ ایک قومی مشغلے اور وقت گزاری کے لیے کرتے ہیں ۔ اور ہمارے مسائل حل کرنے کی سوچ مایوسی میں تبدیل ہوکر ہمیں بے حس بنارہی ہے ۔گھریلو نظام میں دراڑ پڑ رہی ہے ۔ ہم اپنی نسل نو کے مستقبل پر توجہ دینے، ان کی تربیت کرنے، ان میں اپنی محبت سے زندگی کے مقاصد کی لگن، احساس ذمہ داری اور اجتماعی شعور پیدا کرنے کے بجائے اس اہم فریضہ کی ادائیگی کی ذمہ داری مدرسہ یا اسکول پر ڈالنے کے خواہش مند ہیں ۔ 
    ہمیں اپنے سماجی رویوں پر غور کرنا ہوگا۔ انسانی معاشرے مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے غور فکر کرتے ہیں اور غور وفکر کے لیے کسی بنیادی نکتہ کو تلاش کرتے ہیں ۔ جیسے ابراہیم علیہ السلام اور ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے توحید کو اپنی دعوت کا بنیادی نکتہ بنایا۔ اور اس زمانے کے سرداروں کو بجا طور یہ محسوس ہوا کہ یہ نظریہ تو ہماری سرداری اور معاشی و سیاسی قیادت کو ہم سے چھیننا چاہتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے شدید مخالفت کی۔ 
    سوال کے بجائے پروپیگنڈا کو فروغ دیا۔ سوال سے جی چرایا۔ طاقت کا بے دریغ استعمال کیا۔ اَب یہاں ہم غور کریں اور جائزہ لیں اور سوچیں کہ درست اور نتیجہ خیز لائحہ عمل کیا ہے۔ کسی بنیادی مسئلہ کا تعین کرنا اور اس کے حل کے لیے کسی نظریہ اور فکر کو فروغ دے کر اجتماعی فہم و فراست کو بروئے کار لانا یا مسائل کا حل طاقت اور جبر میں تلاش کرناہے۔یہ تاریخی حقیقت ہے کہ طاقت اور جبر کو شکست ہوتی ہےاور عقل و شعور نے ہمیشہ ترقی کی ہے ۔
    سیرت انبیا علیہم السلام کا اجتماعی مطالعہ (قرآن حکیم کی صورت میں) ہمیں دعوت دیتا ہےکہ ہم اپنے اِنفرادی اجتماعی فکر و عمل کا جائزہ لیں اور بہ حیثیت مسلمان فرد اور قوم کے اپنے رویوں کو دنیا کے عقل مند انسانوں کے فکر و کردار سے ہم آہنگ کرکے اپنے لیے کامیابیوں کے دروازے کھولیں۔
    ہمیں انعام یافتہ ہونے کے لیے دعا سکھائی گئی ہے اور قدرت نے ہمیں بے شمارصلاحیتوں سے نوازا ہے، جس میں عقل و شعورنمایاں ہیں۔ یہ ہی وہ نعمت ہے، جس سے ہم تمام مخلوقات میں معزز و محترم ہیں۔ 
    اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے: 
    اور یہ کہ انسان کو وہی ملتا ہے جو[وہ کوشش] کرتا ہے۔النجم،28
    اس کے لیے سب سے پہلے مرحلے میں ذہنی انقلاب سے گزرنا لازمی ہے۔ اپنے عمل کو ایک مضبوط فکر کے ماتحت لانالازمی ہے ۔اور وقتی اور جزوی مسائل کے بجائے ان مسائل کی تہہ میں اصل مسئلے کا حل سمجھ کر ہی ہم ایک وسیع تر شعوری سماجی تبدیلی کے عمل کو فروغ دے سکتے ہیں۔
    Share via Whatsapp