پاکستان میں سائنسی تحقیق وتخلیقی عمل کا جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • پاکستان میں سائنسی تحقیق وتخلیقی عمل کا جائزہ

    کسی بھی ملک میں ہونیوالی سائنسی ترقیات و تحقیق کی صحت و معیار کا اندازہ اس ملک میں شائع ہونیوالے تحقیق جرائد و رسا ئل سے لگایا جا سکتا ہے

    By haroon rasheed Published on Jul 11, 2021 Views 1778
    پاکستان میں سائنسی تحقیق وتخلیقی عمل کا جائزہ
     تحریر: ہارون الرشید۔ راولپنڈی 

    وزیراعظم کے معاون ِخصوصی برائے صحت نے مژدہ سناتے ہوئے اعلان کیا کہ کرونا ویکسین پاکستان میں تیار ہوگی تو عوام اور اشرافیہ نے خوشی سے قلابازیاں لگاتے ہوئے اسے عظیم کامیابی اور ملکی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل قرار دیا۔حقیقت میں تو یہ ویکسین کی مقامی سطح پر تیاری نہیں، بلکہ دوبارہ بھرائی (Refilling) ہے۔ اسی طرح کا ایک مژدہ پچھلے سال مئی/ 2020 ء میں اس وقت کے معاونِ خصوصی برائے صحت نے بھی سنایا تھا، جب انھوں نے میڈیا سے باتیں کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کووڈ-19 کے علاج میں مطلوب انتہائی اہم دوائی ریمڈیسور (Remdesivir) چند ہفتوں میں تیار کر کے نہ صرف اپنے مریضوں کے لیے استعمال کرے گا، بلکہ اسے دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ بھی کرے گا۔ درحقیقت وہ بھی دوسرے ممالک سے درآمدہ خام مال کی دوبارہ بھرائی (Refilling) اور پیکنگ(Packing) تھی۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ویکسین اور ادویات کے خام مال کی تیاری کے حوالے کوئی معیاری لیبارٹری یا فیکٹری ہی نہیں ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان ہنگامی حالات میں ترقی یافتہ ممالک سے ٹیکنالوجی حاصل کی جاتی اور ہائی ٹیک بائیولوجیکل ویکسی نیشن اور فارماسیوٹیکل پلانٹس لگائے جاتے ، تو ملک ویکسین اور ادویات سازی میں کسی حد تک خود کفالت کی راہ پر گامزن ہوتا ۔ان کے دام بھی مناسب ہوتے اور پھر حقیقت میں فخر کے ساتھ اس کو برآمد کرنے کے اعلانات بھی کرتے۔ 
    اگر ہم بین الاقوامی ترقیات پر غور کریں تو دنیاتحقیق پر مبنی معیشت(Knowledge Based Economy) کی جانب بڑھ رہی ہے،جس میں پہلے تحقیق ہوتی ہے، اس کے بعد کاروبار معیشت کو آگے بڑھایا جاتا ہے،جس کے نتیجے میں ان نئی مصنوعات کی ہائی ٹیک ایکسپورٹس ہوتی ہیں جوملکی ترسیلاتِ زر میں اضافہ کا سبب بنتی ہیں۔ پاکستان کی مقتدرہ ایسی دوراندیشی کی سوچ سے عاری ،آس لگائے بیٹھتی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سے یہ چیزیں امداد (Donation) میں مل جائیں گی اور اس کے لیے بار بار اپیل کرنے میں بھی کوئی توہین محسوس نہیں کرتے۔ یہی اشرافیہ اپنے کمیشن کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں سے بھاری قیمتوں پر معاہدات کر کے ان کی مصنوعات کو عوام پر مسلط کر دیتے ہیں، لیکن ان چیزوں کی مقامی سطح پر تیاری کے حوالے سے کوئی جامع اور ٹھوس منصوبہ بندی سے قاصر نظر آتے ہیں ۔
    پاکستانی جامعات (Universities) اور تحقیقی مراکز (Research Centers) پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی تخلیقی سوچ اور جدیدتحقیق کا فقدان واضح نظر آتا ہے جو کہ پاکستان کے بوسیدہ نظام تعلیم کا عکاس ہے۔یہی وَجہ ہے کہ یونیورسٹیاں اور شائع ہونے والے تحقیقی جرائد و رسائل عالمی درجہ بندی میں دور تک دکھائی نہیں دیتے۔پاکستان کی یورنیورسٹیوں میں قائداعظم یونیورسٹی سرِفہرست ہے، جس میں گزشتہ 16 برسوں میں 4891 مقالہ جات شائع کیے۔ کسی بھی معاشرے میں سائنسی رسائل اور جرائد نہ صرف تحقیق و ترقی کے ہراول دستے کا کام کرتے ہیں، بلکہ ان میں شائع ہونے والی تحقیق سے معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوتی ہے۔
    بین الاقوامی سائنسی اور علمی جرائد کی درجہ بندی کرنے والی ویب سائٹ سائنٹفک جنرل رینکنگ ( Scientific Journal Ranking ) کے مطابق پاکستان میں 1996 ء سے 2020 ء کے دوران 24 برس کے عرصے میں کل 209486 مقالہ جات شائع ہوئے۔ اس کے مقابلے پر بھارت میں اسی دوران 2128896 تحقیقات منظرِ عام پر آئیں۔جب کہ اسی دورانیے میں چین میں 7454602 مقالہ جات شائع ہوئے۔چین میں سائنسی تحقیق کی اشاعت پر توجہ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چین کی اکیڈمی آف سائنسز ملک کے تحقیق کاروں کو نمایاں بین الاقوامی سائنسی جرائد میں کسی مضمون کی اشاعت پر 30 ہزار ڈالر انعام دیتی ہے۔جب ہم امریکا کی ترقی کی بات کرتے ہیں تو یہ بات ذہن نشیں رہنی چاہیے کہ تحقیق کے میدان میں تاحال اس کا کوئی مدمقابل نہیں۔ایس جے آر 2017 کی رپورٹ کے مطابق امریکا میں گزشتہ 16 برسوں میں 70 لاکھ تحقیقی مقالہ جات شائع ہوئے ہیں۔
    سائنس و ٹیکنالوجیکل ریسرچ میں بھی عالمی گرو امریکا ہے جو اپنی کل قومی آمدنی کا 2.7 فی صد اس مد میں خرچ کرتا ہے، مگر یہ رقم بھی اس شعبے میں ہونے والے کل عالمی اخراجات کا 30فی صد ہیں۔اسی لیے امریکا سب سے بڑی سپر پاور ہے۔چین دوسری بڑی سپر پاور ہے جو اپنی قومی آمدنی کا2.7 فی صد اس مد میں خرچ کرتا ہے، مگر یہ آمدنی سائنٹیفک ریسرچ پر خرچ ہونے والی عالمی رقم کے 20فی صد کے لگ بھگ ہے۔لیکن چین ہر سال اس بجٹ کی مد میں 18 فی صد کا اضافہ کر رہا ہے۔ اس لیے توقع کی جارہی ہے کہ اس شرح سے چین سائنٹیفک انڈسٹریل ریسرچ کے میدان میں کچھ ہی عرصے میں امریکا سے آگے نکل جائے گا۔
    عالمی ادارے گلوبل انوویشن انڈیکس 2020 ء میں شائع ہونے والی رپورٹ جو معیشت اور ترقی پر نئی ایجادات کے اثرات کا جائزہ لیتی ہے، کے مطابق پاکستان 141 ممالک میں سے107 ویں نمبر پر ہے۔ جب کہ سوئٹزرلینڈ جی آئی آئی کی فہرست میں پہلے نمبر پر ہے۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ اس کے پاس 57 فی صد تحقیق کار بیرون ملک سے تعلق رکھتے ہیں، کیوں کہ انھیں کئی طرح کی مراعات اور الاؤنسز دیے جاتے ہیں۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان میں تحقیق کاروں کو ایسے کوئی بھی خاص پیکجز، الاؤنس یا مراعات نہیں دی جاتیں۔ اس کی ایک جھلک وفاقی حکومت کے رواں مالی سال 22-2021ء کے بجٹ میں تعلیمی امور اور خدمات کے لیے 91.97 ارب روپے مختص کرنے سے بھی دیکھی جا سکتی ہے، جس کا زیادہ تر حصہ اساتذہ اور ملازمین کی تنخواہوں میں چلا جاتا ہے ۔ جب کہ اس کے برعکس عالمی ادارے (UNDP ) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی معیشت کے 26کھرب 60 ارب روپے (17.4 ارب ڈالر ) صرف پاکستانی اشرافیہ (کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی طبقہ اور اسٹیبلشمنٹ) کی مراعات پر خرچ ہوتے ہیں۔ مقتدرہ کی تر جیحات اور مفادات کی عکاسی کرتی ہیں، لیکن اس سب کے باوجود ہماری اشرافیہ اپنے معمولی کارناموں کو رائی کا پہاڑ بنا کر پیش کرتے ہیں اور عوامی و جمہوری ترقی کے بلند و بانگ دعوے کرتے نظر آتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ ترقیاتی کاموں کے لیے مخصوص بجٹ کو بھی مناسب طریقے سے خرچ نہیں کرتے ہیں۔ 
    جیسا کہ پاکستانی جامعات (Universities) عالمی درجہ بندی میں کوئی خاص مقام نہیں رکھتیں، جس کی بنیادی وَجہ مروجہ نظامِ تعلیم ہے، جس کا ڈھانچہ تقریباَ دو سو سال پہلے دیے گئے کالونیل دور کا تشکیل کردہ ہے،جس کا خالق لارڈمیکالے ایک مضمون نگار اورچالاک شخص تھا جو 1839ء اور 1841ء کی جنگوں میں ’’سیکرٹری آف وار‘‘ کے عہدے پر فائز رہا۔ 1835ء میں جب انگلش ایجوکیشن ایکٹ بنا تو میکالے نے اصرار کیا کہ ہندوستان کے لوگوں کو انگریزی ادب پڑھایا جائے، کیوں کہ اس زمانے میں خود انگریز بھی کیمسٹری، الیکٹرونکس، میٹالرجی اور معدنی وسائل سے متعلق علوم حاصل کرنے میں مصروف تھا ۔ انگریز اچھی طرح جانتے تھے کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کی تعلیم سے برصغیر معاشی ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتا تھا۔ جب کہ صرف انگلش لٹریچر پڑھنے سے معاشی ترقی ممکن نہیں تھی۔میکالے نے مزید کہا کہ اگر ہندوستانیوں نے یہ سمجھ لیا کہ ہر انگریزی اور غیر ملکی شے ان کی اشیا سے بہترہے تو وہ اپنا قومی وقار اور تہذیب کھودیں گے اور حقیقت میں ذہنی مغلوب قوم بن جائیں گے، ایساہی انگریز چاہتے تھے۔ جو ایک نظام تعلیم و تربیت کے ذریعے ہی ممکن تھا۔ نتیجتاً ہندوستان کے لوگوں میں اپنی زبان، ثقافت اور تہذیب و تمدن کے بارے میں نفرت پیدا ہوتی چلی گئی اور لوگوں نے ترقی کا ضامن اپنی زبان کے بجائے انگریزی زبان کو سمجھنا شروع کردیا۔ یہی سوچ پاکستان میں آج تک برقرار ہے، بلکہ اس کی جڑیں بتدریج گہری ہوگئیں، جس کے نتیجے میں ایسا تعلیم یافتہ طبقہ پیدا ہوگیا ہے جو ذہنی مرعوبیت کا شکارہے ۔ انگریزی ادب اور زبان بولنے میں فخراور برتری محسوس کرتا ہے۔یہی وَجہ ہے کہ گزشتہ 4 دہائیوں سے پاکستان میں انگلش میڈیم سکول کھمبیوں کی طرح نظر آتے ہیں۔ جہاں پر تخلیقی صلاحیتوں پر تو کوئی خاص توجہ نہیں دی جاتی۔ البتہ بچوں کو منہ ٹیڑھا کرکے انگریزی بولنا مطمع نظر بنا دیاگیا ہے ۔
    اگرچہ اس وقت پاکستان میں کچھ ادارے ایسے ہیں، جن کو قائم کرنے کا مقصد ایجاد و تخلیق اور سائنسی ترویج و ترقی کے عمل کو فروغ دینا ہے۔ جیسا کہ پاکستان سائنس فاونڈیشن اور پاکستان کونسل برائے سائنس و ٹیکنالوجی اس میں نمایاں نام ہیں ۔ لیکن اس کے باوجود بھی کوئی خاطر خواہ ثمرات نہیں آرہے۔ 
    تاریخی نوشتے اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ دو سو سال قبل تک تحقیق کا میدان مسلمانوں کے ہاتھوں میں تھا اورگزشتہ کئی صدیوں تک مسلمانوں کا علمی عروج رہا ہے ۔آج پاکستان ہو یا کوئی بھی دوسرا معاشرہ، ترقی اسی وقت ہوتی ہے، جب وہاں کے لوگ اجتماعی اصولوں پر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کا مظاہرہ کریں اور اس تخلیقی جدت پسندی میں ان کو ساز گار ماحول دینے کے ساتھ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی جائے ۔ اس لیے اس خطے کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ مفادپرست اشرافیہ اور کمیشن مافیا جو تحقیق و تخلیق میں رکاوٹ ہے ، کے چنگل سے نکلا جائے۔ مسلم دورِ عروج کے تحقیقی و تخلیقی علوم کے ساتھ ، جدید دور کی مثبت اور انسان دوست ترقیات سے استفادہ کیا جائے۔ یہ عمل اعلیٰ نظریے اور اجتماع سوچ پر مبنی معاشرتی تشکیل کیے بغیر ممکن نہیں۔
    Share via Whatsapp