بھنور - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • بھنور

    سوسائٹی میں موجود ٹرینڈز کا تجزیہ جو نہ تو تبدیل ہوتے ہیں اور پورا معاشرہ مجموعی طور پر ان کا شکار بن کر زوال یا فتنہ ہو چکا ہے.

    By محمد ارباز Published on Jun 26, 2021 Views 2605
    بھنور
    تحریر: محمد ارباز۔ گوجرانوالہ 

     شاہ ولی اللہ ؒنے انسان کی تین بنیادی خصوصیات کا ذکر کیا ہے ،جو اسے دیگر مخلوقات سے ممتاز کرتی ہیں ،انسان کا شوق حسن و جمال اسے ہمیشہ زندگی کے تمام شعبوں میں بہتر سے بہترین کی تلاش پر آمادہ کرتاہے ۔ اور اس کے لیے وہ اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر سب کی بھلائی کے خیال کو پیش نظر رکھتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ایجاد کا فطری ہنر اور اس میں بہتری لانے کا جذبہ [ یعنی مادہ ایجاد و تقلید] حیاتِ انسانی کے اس سفر کو مثالی بناتے ہیں ۔
    اس ساری بحث سے جو بنیادی بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ وقت کے ساتھ انسان اپنی ذاتی زندگی اور اجتماعی زندگی میں ترقی کرنے کی حکمت عملی بناتا ہے اور انسانی معاشرے اسی بنیاد پر ترقی حاصل کرتے ہیں۔ اَب اگر کوئی انسانی معاشرہ ان خصوصیات کا حامل نہیں تو وہ کسی بھی صورت میں انسانیت کا بلند درجہ رکھنے کا دعویٰ کیسے کر سکتا ہے؟ 
    وطن عزیز کی آبادی کم و بیش 22 کروڑ انسانوں پر مشتمل ہے، جن کا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے ہے۔ اَب سوال یہ ہے کہ کتنے فی صد طبقہ اپنے شعبے(پروفیشن) میں کسی خاص مقام پر موجود ہے؟ اور کیا ان لوگوں کی ذاتی ترقی پورے سماج کی اجتماعی ترقی کے امکانات روشن کر رہی ہے؟ 
    ہمارا جواب یقینی طور پر منفی ہوگا، اگر ہم اس کی بنیادی وَجہ کو جا ننے کی کو شش کریں تو اس کے لیے ہمیں زیادہ پیچھے نہیں جانا پڑے گا۔ اگر ہم پچھلے دس سالوں میں ہونے والے واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیں تو ہمیں محسوس ہوگا کہ ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر کسی بھنور میں پھنسا ہوا ہے۔ اگر 2011 ءجنوری، فروری سے شروع کریں تو گیس اور سی این جی کا بحران، صنعتوں اور گھریلوں صارفین کو گیس پریشر میں کمی کا سامنا ہمیں جنوری، فروری 2021 ءتک نظر آئے گا۔ 
    اگر ہم آگےمارچ اور اپریل کی بات کریں، ہمیں23 /مارچ 1940ء کی قرار دادِپاکستان منظورہونے کی خوشی میں سیمینارز کا انعقاد اور جوشیلے انداز میں تقریریں سننے کو ملتی ہیں۔ سوال پھر وہی پیدا ہوتا ہے اس ساری سرگرمی کا پورے معاشرے کو کیا فائدہ حاصل ہوتا ہے؟ ساتھ ہی ان مہینوں میں سیاسی جماعتوں کے جلسے جلوس ، دھرنے اور ہڑتالوں کا ایک تسلسل ہمیں ہر سال نظر آئے گا۔اور 2018 - 2019 ءسے مارچ میں عورتوں کے حقوق کے نام پر پورے معاشرے کو صنفی تقسیم پر قائم کرنے کی ایک نہ ختم ہونے والی بحث میں دھکیل دیا جاتا ہے۔ ٹیلی وژن پر خواتین کے حقوق کے اہم اور سنجیدہ موضوع پر غیر سنجیدہ انداز سے مختلف نظریات رکھنے والے نان پروفیشنلز کو بلا کر ایک لا حاصل بحث کا انعقاد کرواکر پوری سوسائٹی کو اس میں اُلجھا دیا جاتا ہے۔ سوال پھر سے وہی ہے ،اس ساری سرگرمی کا پورے معاشرے پر کیا اثر پڑا؟ 
    مئی اور جون کے مہینوں میں بجٹ پر بحثیں، حکومتوں کا اپنے پیش کردہ بجٹ کے حق میں بلندو بانگ دعوے کرنا، اپوزیشن کا قوم کی بربادی کے موضوعات پر ڈھول پیٹنا اور اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہمیں مستقل نظر آئے گا۔ 
    جولائی اور اگست میں پھر موسم کی شدت میں کمی کے ساتھ سیاسی ماحول میں شدت کا آنا۔ مون سون کی بارشوں کی وَجہ سے کئی علاقوں میں اونچے یا نچلے درجے کا سیلاب آ جانا۔ 14/اگست کے موقع پر ملکی سلامتی کے حوالے سے عہد کرنا اور بازاروں اور گھروں کی چھتوں پر سبز حلالی پرچم لگا کر اور ٹیلی ویژن پر خاص قسم کے پروگرامز کا ہونا، سڑکوں پر نوجوانوں کا موٹرسائیکلوں کے سائلنسر نکال کر اپنی آزادی کی تصدیق کرنا اور اگلے دن اخبارات میں حادثات کی خبروں کا شائع ہونا۔ سوال پھر وہی ہے کہ تہتر سال سے زیادہ عرصہ گزرنے کے بعد بھی مجموعی طورپر ہمارا معاشرہ کہاں کھڑا ہے؟ رمضان المبارک میں اشیائے خورد ونوش کی قیمتوں میں اچانک اضافہ اور حکومتوں کا ناجائز منافع خوروں کے خلاف سخت کارروائی کے اعلان کرنا۔ 
    ستمبر اور اکتوبر میں پاک بھارت تعلقات کا خراب ہو جانا اور سرحدوں پر کشیدگی کا بڑھ جانا۔ نومبر اور دسمبر میں مذہبی کشیدگی کا پیدا ہو جانا۔ 16/ دسمبر کو مشرقی پاکستان کے علاحدہ ہونے کے محرکات پر پروگرامز کا ہونا اور 16/ دسمبر 2014 ء سانحہ اے پی ایس کے حوالے سے پروگرامز کا ہونا اور ان سب کے دوران پورا سال سیاسی جماعتوں کا آپس میں دست و گریبان رہنا، الیکشن کے دنوں میں عوام کو گروہوں میں بانٹ کر اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرنا اور آج مئی 2021ءمیں بیٹھ کر کرونا کی لہروں[ ویوز ] کے دائرے میں پھنس کر کبھی کرونا کے کیسیز میں اضافہ اور کبھی کمی کا آ جانا اور اسی کے نتیجے میں کبھی تعلیمی ادارے اور مارکیٹیں کھلنے اور کبھی دوبارہ بند کرنے کے فیصلے سامنے آتے ہیں۔ 
    .. اور آج کے دور میں سوشل میڈیا پر آے روز نت نئے ٹرینڈز اور پورا کا پورا معاشرہ ان ٹرینڈز کی نظر ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سوشل میڈیا پر لاحاصل بحثوں کا ہونا اور مین سٹریم میڈیا کا اس سے متأثر ہونا ، اس ساری صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے ہم وطن ِعزیز کی چوہتر سالہ تاریخ کا مطالعہ کریں توہمارا معاشرہ کسی نہ کسی دائرے کا شکار بن کر اِنفرادی اور اجتماعی طور پر زوال کا شکار ہوتا چلا گیا اور ابھی بھی اسی ذِلت و پستی کے راستے پر گامزن نظر آتا ہے... 
    اَب اس عمل میں اصل ذمہ داری نظام اور اس قابض اشرافیہ کی ہے، مگر وہ بھی اس ماحول سے اپنے ذاتی مفادات اُٹھاتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ جب کہ انسانی معاشروں کا اصول ہے کہ وہ ہمیشہ عصری تقاضوں اور مستقبل کے چیلنجز کو سامنے رکھ کر نظام کو چلانے والا طبقہ معاشرے میں موجود انسانوں کی رہنمائی کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیتا ہے۔ اوراگر سوسائٹی کسی بھنور کا شکار ہے تو اس میں سے معاشرے کو مجموعی طور پر نکالنے میں اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ 
    اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں اس بھنور سے نکلنے کی سمجھ اور شعور عطا فرمائے ۔ مایوسی دور ہو اور جہد مسلسل سے پرانے شکاریوں کا ہر نیا جال قومی وحدت کی طاقت سے توڑ سکیں ۔
    Share via Whatsapp