طریقۂ تربیت اور اس کے اصول - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • طریقۂ تربیت اور اس کے اصول

    اس تحریر کا مقصد انسانیت کو تربیت کے مروجہ طریقوں اور فوائد سے آگاہ کرنا ہے۔

    By Hafiz Talha Akhtar Published on Jun 14, 2021 Views 2255
    طریقۂ تربیت اور اس کے اصول
    تحریر: حافظ طلحہ اختر ، ایگریکلچر یونیورسٹی۔فیصل آباد 

    انسانی معاشروں اور شخصی ترقی میں تربیت کا بڑا بنیادی کردار ہے۔انسان کی شخصیت اور اس کے اخلاق کا پتہ اس کی گفتگو اور تربیت سے ہوتا ہے۔ 
    آج ہمارے معاشرے میں ہر ایک فرد اپنی ذمہ داری پوری نہیں کرتا اور دوسروں سے اس کی توقع رکھتا ہے۔ دوسرے کو غلط کہتا ہے اپنی غلطی ماننے کو کوئی تیار نہیں ہوتا ۔
    جب سے ملک پاکستان قائم ہوا ہے، قومی اعتبار سے ہم متحد نہیں، بلکہ فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں ۔ نفرت، انتقام اور قتل و غارت گری کا بازار گرم ہے۔ ہر ایک اپنی ذاتی مفادات کے لیے کوشاں ہے  اس کی بنیادی وَجہ تربیت کا فقدان ہے۔
    تربیت اور نظام
    تربیت کا بنیادی اصول یہ ہے کہ وہ ایک نظام کے ذریعے سے عمل میں لائی جاتی ہے۔ یہ کہنا غلط ہے کہ فرد کی اصلاح کے لیے نظام  کی ضرورت نہیں۔سوال تو یہ ہے کہ ایک فرد خود کو کتنی دیر تک  ٹھیک رکھ سکتا ہے؟  ہمارے ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت کہتی ہے کہ آپ ذاتی اصلاح کریں۔
    لیکن آپ گھر کی مثال لیں ۔ گھر کے افراد کی تربیت کے لیے بھی ایک سسٹم کی ضرورت ہے۔ اس کا ذمہ دار گھر کا سربراہ ہوتا ہے۔ اگر وہ کوئی خلق اپنے افراد خانہ میں پیدا کرنا چاہتا ہے تو اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ وہ پہلے اپنے اندر وہ خلق پیدا کرے اور پھر اس کی تلقین کرے۔ نہ یہ کہ وہ کسی جبر اور زور کی بنیاد پر مجبور کرے۔ اگر وہ ایسا کر بھی لے تو اس کے نتائج وہ نہیں مل سکیں گے جو ملنے چاہییں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جس انداز سے اپنے صحابہ کی تربیت کی وہ عمل ہمارے سامنے رہنا چاہیے۔ آپ دیکھیں کہ حضور کے اس فاسد معاشرے میں کیا اخلاق تھے وہ جو آپ کی ذات کے دشمن تھے، وہ بھی آپ کے صادق اور امین ہونے کی گواہی دے رہے ہیں اور صحابہ نے آپ کے ان اخلاق کو اپنے اندر پیدا کیا یہ ایک اصول ہے کہ چیزیں اوپر سے نیچے آتی ہیں اور اصول کبھی نہیں بدلے جاتے۔ آپ جو آج بوئیں گے وہی کل کو کاٹیں گے۔ یہ نہیں ہو سکتا آپ گندم  بوئیں اور سوچیں کہ اَب پیداوار کپاس کی ہو۔ اَب جب یہ اصول ہے کہ چیزیں اوپر سے نیچے آتی ہیں تو آج ہم اسے نظر انداز کرتے ہیں، جس کی وَجہ سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
    تربیت اور ذمہ داری
    تربیت کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں۔ ایک اعلیٰ تربیت یافتہ فرد اپنی غلطیوں اور ذمہ داریوں کو قبول کرتا ہے۔ ان کا بوجھ اپنے ماتحتوں پر نہیں ڈال دیتا ۔ آج ہمارے معاشرے میں کوئی بھی اپنی ذمہ داریوں کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔
    حالیہ دنوں میں شوگر سکینڈل کی رپورٹ سامنے آئی، جس میں ملک کے بڑے سرمایہ داروں کے نام شامل ہیں۔ اَب ایک تربیت یافتہ معاشرے میں ایسے لوگ اپنی ذمہ داریوں اور نادانستہ غلطیوں کو قبول کر کے اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہیں اور ایک تربیت یافتہ معاشرے میں لوگوں کا شعور بھی اس درجہ بلند ہوتا ہے کہ وہ ان سے جواب طلبی کرتے ہیں۔ لیکن یہاں حالات ہم سب کے سامنے ہیں۔
    تربیت اور نظم و ضبط
    تربیت کا ایک بنیادی اصول یہ بھی ہے کہ معاشرے میں نظم و ضبط  پیدا کیا جائے۔ کیوں کہ معاشرے کی ترقی میں نظم و ضبط بڑی بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جماعت صحابہ کی تربیت میں اس وصف کو پیدا کیا، جس کی مثال صلح حدیبیہ میں ملتی ہے کہ مدینہ سے نکلے عمرہ کی نیت سے، لیکن جب وہاں پہنچے تو حضرت عثمان رض  کو جب اپنا سفیر بنا کر بھیجا تو وہاں سے آپ کی شہادت کی افواہ پھیلی، جس پر جماعت صحابہ سے موت پر بیعت لی گئی۔ لیکن اسی دوران وہ خبر غلط ثابت ہوئی اور پھر صلح حدیبیہ کے معاہدے پر دستخط کیے گئے اور اس معاہدے میں حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے دشمن کی ہر شرط کو مانا۔ کیوں کہ آپ کا مقصد واضح اور بڑا تھا اور جماعت نے اس کی تائید کی، لیکن آپ دیکھیے کہ اتنی بڑی جماعت کو کس چیز نے متحد رکھا ؟ وہ یقیناً نظم و ضبط تھا اور پھر اسی پر اللہ تعالیٰ نے کہا: انا فتحنا لک فتحا مبینا (سورہ فتح)
    تربیت میں شفقت
    تربیت کرنے کے بنیادی عمل میں شفقت بڑی بنیادی حیثیت رکھتی ہے، آپ جبر کے ساتھ یا سختی سے نہ کسی کی تربیت کرسکتے ہیں اور نہ ہی اپنی بات منوا سکتے ہیں۔ 
    آپ دیکھیے کہ حضور نبی اکرم صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم نے جماعت سازی کے عمل کے دوران کس قدر شفقت اور محبت کا مظاہرہ کیا جب حضور طائف تشریف لے گئے تو وہاں پر بھی جو کچھ آپ کے ساتھ ہوا اس کے باوجود حضور نے ان کے لیے بد دعا نہیں کی، بلکہ صبر اور شفقت ومحبت کا اظہار فرمایا کہ ہو سکتا ہے ان کی آنے والی نسلوں میں سے کوئی ایمان لے آئے ۔
    اگر گھر کے اندر والدین بچوں کی تربیت ڈنڈے کے زور پر کریں تو وہ بچہ تربیت نہیں بغاوت سیکھے گا۔ اسی لیے شفقت کا عمل تربیت کے لیے نہایت ضروری ہے۔ تربیت کے عمل میں آپ ہر چیز پر تنقید نہیں کر سکتے اور نہ ہی کسی کو آپ ہر چیز سے روک سکتے ہیں یہ تو ایک مرحلے میں جاکر ہوتا ہے کہ وہ آپ کی تربیت سے متأثر ہو کر آپ کی ہر بات مانے اس لیے آپ کو تربیت کے عمل میں بلاوجہ تنقید سے بھی گریز کرنا چاہیے۔ کیوں کہ بلا وَجہ  تنقید کوئی نتیجہ نہیں پیدا کرسکتی۔ 
    فطری طور پر کوئی بھی انسان نفرت کو پسند نہیں کرتا وہ شفقت اور محبت کو پسند کرتا ہے یہ تو ماحول کی وَجہ سے شدت پسند یا محبت پسند بن جاتا ہے۔
    مسائل کی وَجہ
    آج ہمارے جتنے بھی مسائل ہیں، خواہ وہ ملکی ہوں، ذاتی ہوں یا گھریلو ہوں ان سب کا سبب تربیت کا فقدان ہے۔ آج ہمارے گھرو میں اپنے پیاروں سے بھی رنجشیں ہیں اور تربیت کے فقدان کے باعث ہم ان مسائل کو سلجھانے کے بجائے مزید خراب کرتے ہیں۔
    آج ایک مسئلہ مایوسی کا ہے۔ ہمارے ملک کے تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم نوجوانوں میں مایوسی ہے، وہ بیچارے اپنی زندگی کے سب سے قیمتی سال اس ظلم کے نظام میں رہ کر تعلیم حاصل کرتیں ہیں اور بعد میں یہی نظام اسے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ وہ بیچارے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ملازمت اختیار کرنے پر مجبور ہیں۔
    اس لیے آج ضرورت ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو اس مایوسی سے نکالیں، ان کی شعوری تربیت کریں۔ تاکہ وہ اپنی قومی ضرورتوں پر غور وفکر کرکے اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں اور اسے پورا کریں۔ اس فاسد نظام کو بدلیں ۔
    Share via Whatsapp