تعلیم وتربیت کے شعوری تقاضے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • تعلیم وتربیت کے شعوری تقاضے

    نوجوانوں کو شعوری بنیاد پر بات کو سمجھنے سمجھانے کی بجاۓ؛ رٹو طوطے بنانے کا رجحان زورپر ہے۔ جسکی وجہ سے نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔

    By محمدجنیدزاہد Published on Jun 03, 2021 Views 1002

    تعلیم وتربیت کے شعوری تقاضے۔

    تحریر؛ محمد جنید زاہد چشتیاں۔


    تعلیم و تربیت کے ذریعے نوجوانوں میں قومی شعور بیدار کرنا  اور انہیں ایک پلیٹ فارم پہ اکٹھا کر کے ان کے درمیان ذہنی و عملی ہم آہنگی پیدا کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔

    آج اس زوال کے دور میں سب سے بڑا المیہ یہ ہوا ہے کہ نوجوانوں کو شعوری بنیاد پر بات کو سمجھنے سمجھانے کے بجائے رٹو طوطے بنانے کا رجحان زور پر ہے، جس کی وَجہ سے نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتوں کا فقدان ہے۔

    اس المیہ کی وَجہ سے سب سے بڑا ملک و قوم کو جو نقصان ہو رہا ہے وہ بےروزگاری، نفسیاتی اپاہج پن اور جنونی قسم کا غصے سے بھرا ہوا ،عقل سے عاری طبقہ کاپیدا ہونا ہے۔ جو بغیر سوچے  سمجھے چند ٹکوں کی خاطر اس سرمایہ دارانہ نظام کے ہاتھوں استعمال ہو جاتا ہے اور اس کو علم تک بھی نہیں ہوتا کہ سامراج کے وقتی اور جھوٹے نعروں میں آکر وہ اپنا اور اپنے سماج کا کتنا بڑا نقصان کر بیٹھا ہے۔

    آج زوال کے دور کا یہ بھی المیہ ہے کہ نوجوانوں کو نمبرگیم میں لگا کر اصل روح سے کوسوں دور کر دیا گیا ہے۔ آج کے نوجوان کو معاشی ضروریات کے ایسےچکر میں مبتلا کر دیا گیا ہے، اس کی تخلیقی صلاحیتوں کے ذریعے سے موجودہ دور کے مسائل کا حل دور کی بات ان کی اپنی اخلاقی تربیت کا بھی فقدان ہے۔

    موجودہ طاغوتی نظام نوجوانوں کو صرف کلرک بننے کی سوچ دے رہا ہے، مطلب ڈگری کے ذریعے صرف روزگار حاصل کرنے کے چکر میں لگا کر ان کی اخلاقیات تباہ کر رہا ہے، یہ ظلم پر مبنی طاغوتی نظام نوجوانوں کو اس طرح معاشی چکر میں گرفتار کیے ہوئےہے کہ نوجوان کے پاس اپنے خالق حقیقی سے تعلق مضبوط کرنے کا وقت بھی نہیں ہے۔اس کے پاس دنیا و آخرت کی بھلائیاں حاصل کرنے کاوقت نہیں ہے۔

    اور اس سے بڑھ کر اس پر ایک اور ظلم اس دور کا so called(نام نہاد) مذہبی طبقہ ایک سوچی ،سمجھی چال کے تحت ان نوجوانوں کو اپنے اوپر ہونے والے ظلم کو اپنی تقدیر سمجھ کر اس ظلم کو برداشت کرنے کا درس دیتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ وہ بھی اس دور کے طاغوتی نظام کو مجرم ٹھہرانے کے بجائے ان سے ملا ہوا دکھائی دیتا ہے۔

    آج کا نوجوان مایوسی کا شکار ہے، جسے سوتے جاگتے اٹھتے بیٹھتے ہر لمحہ معاشی فکر کھائےجا رہا ہے۔اور اس دور کا فرعون یعنی کپٹلزم سسٹم ان نوجوانوں کے مسائل کا حل پیش کرنے سے کوسوں دور ہے۔

    آج ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوان کو ہمت دی جائے، اسے اپنے پاؤں پے کھڑا ہونے کے لیے ایسا یکساں نظام دیا جائے، جس سے اس کا شعور بلند ہو؛ آلہ کاری کی سوچ ختم ہو، ملک و قوم کے اجتماعی مسائل کو حل کرنے اور انفرادی سوچ کو ختم کرنے کا جذبہ بیدار ہو۔

    اس مقصد کے لیے ان میں سماجی سوچ پیدا کی جائے۔ انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کیا جائے۔ 

    یکساں نظام تعلیم کے ذریعے اجتماعی سوچ پیدا کی جائے اور ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کیا جائے۔ 

    اپنے پاؤں پے کھڑا ہونے اور اپنے معاشرے کے مسائل کو ترجیحی بنیادوں پے حل کرنے کے لیےایک پلیٹ فارم پے اکٹھا ہونے کا درس دیا جائے۔ 

    آج کے نوجوان کو انفرادیت سے نکل کر اپنے سماج اور دکھی انسانیت کے مسائل کا حل تلاش کرنا چاہیے۔

    جس طرح کسی کالج یا یونیورسٹی میں ایڈمیشن لینے سے پہلے وہ وہاں کے سٹاف، لیبز(Lab) اور ماحول و میعار کا تجزیہ کرتا ہے، اسی طرح اس نوجوان کو قرآن و حدیث کی تعلیم دینے والی جماعت یا ادارے کا بھی بہ غور تجزیہ کرنا چاہیے اور سچی جماعت کی پہچان پیدا کرنی چاہیے۔ 

    اور سچی وہ ہے، جس کو قرآن نے حزب اللہ سے تعبیر کیاہے،اور حزب الله یعنی اللہ کی جماعت کی پہچان کی چند نشانیاں یہ ہیں۔

    ۱۔ سچی جماعت کل انسانیت کی خدمت کی بات کرتی ہے اور اپنے پیروکاروں میں کل انسانیت کی خدمت کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔

    ۲۔ دین کے نظام کے غلبے کی جدوجہد کرتی ہے۔

    ۳۔ اجتماعی سوچ کو غالب کرتی ہے۔

    ۴۔ دین کےسیاسی، سماجی اور معاشی نظام کو غالب کرنے کی جدوجہد کرتی ہے۔

    ۵۔ عدل کے قیام کے لیے ظلم کے نظام کے خلاف مزاحمت پیدا کرتی ہے۔

    6۔ وقتی نعرے اور جنونیت کے بجائے حقیقی شعور پیدا کرتی ہے۔

    ۷۔دین کی جامعیت(شریعت،طریقت اور سیاست) کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کرتی ہے۔

     قومی و ملی مسائل کا حل، ولی اللہی فکر و فلسفہ کے ذریعے اجتماعی شعور اور تخلیقی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں ہے۔ مرعوبیت سے نکل کر ، سسٹم کا شعور حاصل کیا جائے اور آلہ کاری کی سوچ کو ختم کیا جائے۔ 

    اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اس دور کے سامراجی نظام کے ہتھکنڈوں کو سمجھنے اور ان سے نبرد آزما ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارا شعور بلند فرمائے۔ آمین!

    Share via Whatsapp