سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی ہتھکنڈے - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی ہتھکنڈے

    عدمِ استحکام سرمایہ داریت کے دوام کے لیے از حد ضروری ہے

    By محمد عثمان Published on May 31, 2021 Views 2306
    سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی ہتھکنڈے
     تحریر ؛ محمد عثمان بلند ، کہوٹہ ، راولپنڈی 

    معاشی مفادات کے لیے انسانی المیے کو جنم دینا سرمایہ دارانہ نظام کا وطیرہ ہے۔ یہ انسانی المیہ کسی بھی نوعیت کا ہوسکتا ہے۔ غذائی بحران، وَبائی بحران، جنگی حالات، شدت پسندی سرمایہ داروں کی بچھائی ہوئی بساط ہوتے ہیں۔ چوں کہ پیداواری وسائل، پیداوار اور اس پیداوار کے تبادلے و تقسیم پر سرمایہ دار کا ہی تسلط ہوتا ہے۔ اس طرح اشیا کی رسد پر سرمایہ دار مکمل قابض ہوتا ہے۔ اَب سیدھا سا معاشی اصول ہے کہ طلب کے بڑھنے سے اور رسد کے کم ہونے سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے تو سرمایہ دار درج بالا بحرانوں کے تناظر میں رسد کو روک کر طلب میں اضافہ کرتا ہے، جس سے اس کا منافع کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
    اَب اشیائے ضرورت کو پوری دنیا میں بلاتعطل پہنچانے کے لیے ملٹی نیشنل کمپنیوں کا بین الاقوامی جال بچھا دیا گیا ہے، جس کی بدولت من مانی قیمتوں پر یہ اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے جو بن پڑے کیا جاتا ہے۔
    کمزور معیشتوں کو اخراجات پورا کرنے کے لیے آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے ذریعے سخت شرائط پر قرضے دیے جاتے ہیں، جس سے دوہرے تہرے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں۔ اول تو انھیں مقروض کر دیا جاتا ہے، دوئم سود کے نا ختم ہونے والے پھیر میں ڈال دیا جاتا ہے، سوئم ممالک کی سیاسی اور معاشی خودمختاری اور خودکفالت کو تہس نہس کیا جاتا ہے، چہارم ملٹی نیشنل کمپنیوں کی بدولت سارا قرض دیا ہوا سرمایہ منافع سمیت واپس سرمایہ دار ممالک کی جھولی میں گر جاتا ہے۔
    اَب ایک چیز جسے سمجھنا ضروری ہے کہ دیے گئے قرضے پر منافع کیسے کمایا جاتا ہے۔ حال آں کہ مقروض ممالک تو خودکفیل نہیں ہوتے نا ہی ان میں کوئی پیداواری سرگرمی ہوتی ہے۔
    تو اس حوالے یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کا کسی ملک کو قرض دینا، بذاتِ خود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ مذکورہ ملک سرمایہ کاری کے لیے محفوظ ہے، جس کی وَجہ سے دوسرے معاشی فورمز اور ممالک بھی مذکورہ ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ بعد ازاں اس سرمایہ کاری کا بڑا حصہ ملٹی نیشنلز کے ذریعے سرمایہ دار کی جیب میں چلا جاتا ہے۔
    موجودہ ٹیکنالوجی اور انٹرنیٹ کے دور میں تو عالمی معاشی بالادستی اور طلب و رسد کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے سوشل اور آن لائن فورمز تشکیل دیے گئے ہیں۔ تمام دنیا سے ڈیٹا اکٹھا کرنے کے لیے واٹس ایپ اور وائبر جیسے فورمز کی تشکیل، مختلف اشیا کی تشہیر وترویج کے لیے فیس بک اور طلب شدہ اشیا کی ترسیل کے لیے ایمازون اور علی بابا جیسے فورمز تشکیل دیے گئے ہیں۔
    کسی بھی ملک کی خودکفالت و خودمختاری کو سبوتاژ کرنے کے لیے سیاسی عدمِ استحکام پیدا کیا جاتا ہے۔ علاقائی تنازعات کی بنیاد پر کمزور ممالک کو جنگوں میں دھکیلا جاتا ہے۔ تاکہ غیرضروری اخراجات کے لیے راہ ہموار کی جاسکے۔ مذہبی شدت پسندی، لسانی و قومیت کے جھگڑے، حقوق کی عدم ادائیگی، مختلف قسم کی آزادی کے نام نہاد عنوانات وغیرہ کے ذریعے داخلی انتشار پیدا کیا جاتا ہے۔ اس طرح قومی دولت کے غیرضروری مصارف پیدا کیے جاتے ہیں، جس کی بدولت بجٹ خسارہ پیدا ہوتا ہے اور پھر اس خسارے کے لیے قرض دیا جاتا ہے اور پھر وہی پھیر۔
    اس تمام بحران میں مختلف بین الاقوامی اختلافات ابھارے جاتے ہیں، جن کو بعض اوقات مذہبی رنگ دیا جاتا ہے یا پھر نازک مذہبی ایشوز کو ہوا دینا جیسا کہ گستاخانہ خاکے یا پھر کسی خاص عقیدے کے لوگوں پر مظالم جیسا کہ نیوزی لینڈ میں مسجد کے نمازیوں کا بے رحمانہ قتل اور برما میں مسلمانوں کا قتل وغیرہ۔ اس تمام کے ردِعمل میں آلہ کار شدت پسند مذہبی عناصر کو تقویت دی جاتی ہے اور بعد ازاں دہشت گرد اور شدت پسند کا لیبل لگاکر ملکوں کی اقتصادی ناکہ بندی کی جاتی ہے۔ آج کل تو FATF کا فورم خاص اسی مقصد کے لیے استعمال ہو رہا ہے۔ اس اقتصادی ناکہ بندی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے معاشی خسارے کو پورا کرنے کے لیے پھر قرضہ اور پھر وہی چکی کے دو پاٹ۔
    بنیادی اور اصولی طور پر یہ ذہن نشین ہونا چاہیے کہ عدمِ استحکام سرمایہ داریت کے دوام کے لیے از حد ضروری ہے۔ یہ عدمِ استحکام کسی بھی ملک کے معاشی و اقتصادی عمل میں خلل پیدا کرتا ہے، جس سے طلب و رسد کا توازن بگڑتا ہے۔ رسد کی کمی قیمت کو بڑھاتی ہے، جس سے اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے اور سرمایہ دار کا منافع کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔
    اسی طرح آج کل دنیا کرونا نامی وَبائی بحران سے نبرد آزما ہے۔ کرونا کی حقیقت جو بھی ہے، لیکن ایک بات تو طے ہے اور وہ یہ کہ اس کے پسِ منظر میں کئی معاشی محرکات بھی کارفرما نظر آتے ہیں۔ بین الاقوامی اشیا کی رسد و ترسیلات کو محدود کر دیا گیا ہے۔ جب کہ دوسری طرف ملٹی نیشنلز کا جال اور جدید ٹیکنالوجی کے باہمی امتزاج سے سرمایہ دارانہ شکنجہ مزید مضبوط کر دیا گیا ہے۔ دنیا کی بیش تر معیشتوں کو گھٹنوں کے بل بیٹھنے پر مجبور کر دیا گیا ہے اور انھیں مزید قرضوں کے بوجھ تلے دبا دیا گیا ہے۔ دنیا کی ابھرتی ہوئی نئی معاشی طاقتوں کو محدود کر دیاگیا ہے۔
    اَب ملک کے نوجوانوں کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ عالمی استعمار کے ان ہتھکنڈ وں کا نہ صرف شعور حاصل کریں، بلکہ سامراج مخالف اور انسانیت دوست نظریات کی بنیاد نظم و ضبط پر مبنی اجتماعیت پیدا کریں۔ تاکہ منظم اور باشعور جدوجہد کے ذریعے اس شیطانی چرخے سے چھٹکارہ حاصل کیا جاسکے۔
    Share via Whatsapp