قطاروں کی ماریں
قطاروں کا مقصد نظم ونسق برقرار رکھنا ہوتا ہے لیکن موجودہ دور میں قطاریں انسانوں کی بے عزتی کا باعث بن رہی ہیں
قطاروں کی ماریں
تحریر: ڈاکٹر محمد عارف بہاولپور
ویسے تو قطار نظم و ضبط کا تأثر اور شعور کی علامت ہے۔لیکن ناانصافی اورظلم و جبر کے ماحول میں جب اس قطار میں کھڑے آپ کی عزت نفس مجروح ہو تو اس کو منظم ترتیب کے بجائے ایک منظم جرم کا نام دیا جاسکتا ہے۔ زمانہ طالب علمی میں قطار بنانے پر زور دیا جاتا ہے، لیکن عملی زندگی میں اس کی ضرورت کبھی کبھار ہی پڑتی ہے۔ سال بھر کے لیے راشن ذخیرہ کرنے والے شاید اس طرح کی قطاروں کی زینت نہ بنیں ہوں گے، لیکن اَب تو باقاعدہ ان قطاروں کی تصاویر دستیاب ہیں ۔ ان قطاروں میں کھڑے لوگوں کے چہروں پر ایک بے بسی واضح طور دیکھی جا سکتی ہے ۔ آج سستے کے نام پر مہنگا آٹا اور چینی خریدنے والوں کی قطاریں میڈیا کی زینت بنی ہیں ۔ یہ قطاریں ماضی میں بھی دیکھنے کو ملتی تھیں۔عام طور پرلوگ بجلی کے بل لمبی قطاروں میں کھڑے ہو کر جمع کروانے کے مرحلے سے گزر رہےہوتے ہیں۔ آج ان کی جگہ مزید قطاریں عام ہو گئی ہیں۔ آپ دفتروں میں چلے جائیں، سائلین کی قطاریں کسی نہ کسی دفتر میں دیکھنے کو مل جائیں گی۔ کفالت کے نام پر پروگرام ہو یا انکم سپورٹ پروگرام ہو، رقم کے فرق کے علاوہ کوئی فرق نہیں۔ انسانی ذلت و رسوائی ہر طرف موجود ہے ،کچھ واقعات میں تو انسانی جانوں کے ضیاع کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ عوام کو نظم ونسق کا درس دینے والے لیڈر آج خود بد نظمی کی اعلٰی مثال بنے ہوئے ہیں اور عدم برداشت کی انتہاؤں کو چھو رہےہیں۔ انھوں نے ووٹ بھی ڈالنے ہوں تو باقاعدہ استقبال کیا جاتا ہے، لیکن عوام کو قطاروں کی ذلت و انتظار سے گزارا جاتا ہے۔ مجھے ان قطاروں سے کوئی شکایت نہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ یہ قطاریں صرف عوام کے حصے میں ہی کیوں؟ جو لوگ وقت بے وقت عوام کو نظم وضبط اور قطار بندی کے بھاشن دینا ضروری سمجھتے ہیں وہ خود ان قطاروں میں نظر کیوں نہیں آتے؟ عوام پیسے دے کر مہنگے داموں ناقص اشیا خریدے اور قطاروں کی مار سے بھی گزرے اسی طرح آج سہولت اور ماڈل کے نام پر جو خریداری کے مراکز کروڑوں روپے کی لاگت سے تعمیر کیے گئے ہیں، وہاں پر انسانوں کے ساتھ جو رویہ اپنایا جاتا ہے وہ بھی شرمناک ہے ۔ان مراکز سے کتنے فی صد لوگ مستفید ہوتے ہیں؟ یہ مراکز اکثریت کی تو پہنچ سے دور ہیں ۔اداروں پر ادارے تراشے جاتے ہیں عوام کو ذلیل وخوار کرنے کے لیے کبھی ان اداروں کی عوامی طریقہ کار سے ان وزیروں کو بھی گزارا گیا ہے؟ جو لیڈران عوام کے غم میں مرنے کا ڈرامہ کرتے ہیں ، کبھی وہ خود بھی ان قطاروں کی زینت بنے ہیں؟ عوام سخت محنت ومشقت سے گندم پیدا کریں اور حکمرانوں کی منہ بولی قیمتوں پر بیج،ادویات،کھاد خریدیں اور جب فصل تیار ہو جائے تو مافیاز طاقت کے زور پر اپنی مرضی کی قیمت پر خرید لیں اور اس کی ادائیگی بھی انتظار اور قطار کی زحمت دے کر کی جائے۔ ہم ایسے لوگوں کواپنا لیڈر کیسے مان لیں؟ لیڈر اور قائد تو وہ ہوتا ہے جوانسانوں کو پستی سے نکالتا ہے اور اپنے سینے سے لگاتا ہے۔ یہ کیسے لیڈر ہیں جو اپنی ہی قوم کو اغیار کے کہنے پر بھیڑ بکریوں کی طرح سلوک کرتے ہیں یہ تو اس چرواہے سے بھی گئے گزرے ہیں جو اپنے ریوڑ کو منظم بھی رکھتا ہے اور ان کو ہری بھری چراگاہوں کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے۔
سوسائٹی پر مسلط اشرافیہ کو یہ جان لینا چاہیے کہ عوام کی یہ مفلوک الحالی عارضی ہے، لیکن ظالموں کی سزا مستقل ہوتی ہے۔ قرآن حکیم کی تعلیمات کی رو سے جو لوگ مال گن گن کر کے جمع کرتے ہیں، یہی مال ایک ایک دن ان کی ہلاکت کا باعث بنے گا ۔
آج حالت یہ ہے کہ عوام کو مسائل میں اتنا الجھا دیا گیا ہے کہ نہ صرف ان کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ختم ہو گئی ہے ،بلکہ انھیں بدترین اخلاقی تنزل کا کابھی شکارکردیاگیا ہےاس لیے وہ تھوڑی سی چیز دو چار روپے سستی خریدنے کے لیے جھوٹ بولنے اور ذلت سہنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔آج اگرہم ان مسائل کی گرداب سےنکلنا چاہتےہیں تو ہمیں طبقاتیت پر مبنی غیر منصفانہ فکر و عمل کے بجائے عدل و انصاف کو ہر شعبہ زندگی میں غالب کرنا ہوگا ۔تبھی ہم قطار کا اصل لطف اور فائدہ حاصل کرسکتے ہیں ۔ورنہ مجبوروں کی یہ قطاریں ہماری بربادی کا منظر یونہی پیش کرتی رہیں گی۔
اس لیے معاشرے میں حقیقی نظم وضبط کےقیام کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسانوں کوبلا تعطل حقوق کی فراہمی اور انسانی وقارکے تحفظ کی جدوجہد پر خاص توجہ دی جائے۔اللہ تعالی ہمیں اس راہ میں استقامت نصیب فرمائے۔ آمین