کرونا کے غازی
کرونا کا خوف باقی تمام حقیقی بیماریوں کی جگہ زیادہ پھیلایا جا رہا ہے
کرونا کے غازی
تحریر؛ ڈاکٹر محمد عارف ،بہاولپور
ابھی تک آپ کو کورونا کےشہیدوں سے ہر روز تعارف کروایا جا رہا ہے، لیکن میں آپ کو کورونا کے غازیوں سے ملوانا چاہوں گا۔ کورونا وَبا نے دنیا میں سماجی، سیاسی اور معاشی حالات کو یکسر تبدیل کر لیا ہے۔ شاید تاریخ لکھنے والا مؤرخ تاریخ کو کورونا وَبا سے پہلے اور کورونا وَبا کے بعد کے ابواب میں تقسیم ہونے پر مجبور ہو جائے۔ ان تمام اَثرات کے ساتھ ساتھ اس وَبا کے انسانی اعصاب اور ذہنی صحت پر کیا اَثرات پڑے۔ اس موضوع میں اسی پر بحث کریں گے۔
مضمون کو آگے بڑھانے سے پہلے کچھ عالمی سطح پر اعداد و شمار کا جائزہ لیتے ہیں۔ امریکن سائیکالوجیکل ایسوسی ایشن نے 16/اپریل 2020ء میں ایک سروے کے نتائج میں کورونا کے دوران ہونے والے نفسیاتی مسائل پر بات کرتے ہوئے کچھ علامات کو (Psychological impacts of Covid) یعنی کورونا کے نفسیاتی اَثرات کے عنوان سے شائع کیا ہے ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہےکہ isolation (کسی کو علاحدگی میں بند کردیا) نے زندگی کو تبدیل کر کے رکھ دیا ہے ۔اس کے علاوہ معاشی تنگی، بےروزگاری اور کسی عزیز کی موت کے صدمے، آخری رسومات کی ادائیگی کے بغیر اور لاش کو بے حرمتی سے ٹھکانے لگانے نے انسان کی دماغی صحت کو بری طرح متأثر کیا ہے۔ اسی مضمون میں ڈپریشن، شدید گھبراہٹ کا حملہ (Panic attack) اور anxiety (اچانک شدید پریشانی اور بے چینی) کی علامات کو تحریر کیا گیا ہے ۔مثلاً پسینہ آنا، جسم کا کپکپانا، سانس لینے میں تنگی، گلے میں پھندا محسوس ہونا شامل ہیں۔
اس کے علاوہ ڈیپارٹمنٹ آف ہیومن سائنسز سوسائٹی اینڈ ہیلتھ یونیورسٹی آف کیسینو اٹلی نے 2 /اکتوبر 2020 ء میں شائع شدہ اپنی ایک ریسرچ میں بتایا ہے کہ کورونا وَبا کے نفسیاتی اَثرات بچوں، کالج کے طالب علموں اور شعبہ صحت سے منسلک افراد میں بہت زیادہ دیکھے گئے ہیں۔ Post- traumatic stress Disorder (شدید حادثہ یا صدمہ کے بعد دباؤ)کا شکار زیادہ تر یہی طبقہ ہوا ہے۔ خاص طور سماجی فاصلہ رکھنے والی احتیاطی تدبیر نے آپسی تعلقات کو بےحد متأثر کیا ہے۔ زیادہ عرصہ تک ذہنی دَباؤ کی حالت نے اینگزائٹی اور ڈپریشن کو پروان چڑھایا ہے اور انسان کی ہنگامی حالات سے نمٹنے کی صلاحیت کو متأثر کیا ہے۔ قرنطینہ نے سماجی تعلقات کو متأثر کیا ہے۔جب ایک انسان کو علاج کی غرض سے تنہائی میں رکھا جاتا ہے تو اس کی نفسیات بری طرح متأثر ہوتی ہیں۔ اس ریسرچ میں اٹلی اور سپین کے بچوں کے والدین کے گروپس میں موازنہ کو شامل کیا گیا ہے۔ قرنطینہ والے دورانیہ میں بچوں میں توجہ کی کمی 76 ٪ ، بوریت 52 فی صد، چڑچڑاپن 39 فی صد، بےچینی 38.8 فی صد، گھبراہٹ 38 فی صد، تنہائی کا احساس 31 فی صد ریکارڈ کیا گیا اسی طرح پریشانی والی کیفیت بھی 30.1فی صد تک نوٹ کی گئی ہے۔
اگر American Psychiatrist diagnostic manual کا جائزہ لیا جائے تو نفسیاتی اَثرات کی وَجہ سے بے چینی، پٹھوں میں کھچاؤ،بغیر کسی خطرہ کے خوامخواہ پریشان ہونا ،پسینہ آنا، پیچس کی شکایات اور سانس لینے میں دشواری جیسی علامات GAD (Generalized anxiety disorder) میں عام طور پر دیکھنے میں مل جاتی ہیں۔ ان ہی میں سے ایک تحقیق میں ذہنی دَباؤ سے نجات حاصل کرنے کے طریقہ پر بات کی گئی ہے کہ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا کو دیکھنا کم کیا جائے تو بھی اس خوف پر قابو پایا جا سکتا ہے ۔
اسی طرح امریکا میں سنٹر فار ڈیزیز کنڑول (CDC) نے 20/ جنوری2021ء میں Coping with stress کے عنوان سے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کرونا وَبا کے دورانیہ نے انسانی زندگیوں پر کافی بھیانک اَثرات مرتب کیے ہیں۔ خاص طور پر بیماری سے بچاؤ والا سماجی فاصلہ برقرار رکھنے والے طریقے نے تنہائی اور بیگانگنی کا احساس بڑھایا ہے۔ ذہنی دَباؤ کی وَجہ سے خوف، غصہ، غمگینی، تشویش، اعضا کے سُن ہونے اور محرومیوں کا احساس ہونے جیسے جذبات بڑھے ہیں۔ توجہ مرکوز کرنے میں مشکلات، نیند آنے میں دشواری، سردرد، جسم میں درد ،معدے میں گڑ بڑ کے ساتھ جلد پر اَثرات مرتب ہوئے ہیں۔
یہ بات تو حقیقت ہے کہ آپ کسی کو فون ملا لیں رنگ ٹون لہروں کے حساب سے کرونا پر معلومات فراہم کرتی ہے۔ آپ کوئی ویب سائٹ کھول لیں چاہے وہ بزنس کی ہو یا صحت کی یا تعلیم کی ہر ویب سائٹ پر کرونا کا نام سب سے پہلے لکھا ہوا دکھائی دے گا۔ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی خبریں دیکھ لیں کرونا کے وار تھم نہ سکے، کرونا نے تباہی مچادی، کرونا سے اموات کا سلسلہ رک نہ سکا ،ہسپتالوں میں گنجائش ختم ہوگئی یا اس سے ملتی جلتی شہ سرخیوں سے آپ کا سامنا ہوگا۔ حال آں کہ ہسپتالوں کی گنجائش تو پہلے سے سوالیہ نشان ہے۔ وہاں پر موجود سہولیات اور سٹاف تو پہلے ہی بہت کم ہے، ایک ڈاکٹر کے مقابلے پر ایک ہزار مریض کھڑا ہوتا ہے ۔ جیسے ایک کمپنی اپنی پروڈکٹ کی لانچنگ تقریب منعقد کرتی ہے، اسی طرح کی برانڈنگ پالیسی کرونا کے نام پر اپنائی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا بیماروں کو حوصلہ دیا جاتا ہے یا ہولناکیوں سے متعارف کروایا جاتا ہے۔ ہر ادارہ چاہے قومی ہو یا بین الاقوامی، اسی بیماری کی منادی لگانے پر لگا ہوا ہے۔ اکثریتی ادارے تو اپنے روزمرہ کے فرائض پورے نہیں کر پاتے ۔ان کو ایک نیا کام سونپ دیا گیا ہے۔ گویا کہ خوف پیدا کیا جا رہا ہے۔ بیماری کے وجود سے کوئی انکار نہیں، لیکن اس کا پروپیگنڈا اس درجہ پر خوف کو جنم دے رہا ہے کہ ہمیں ایک نئی قسم کے ذہنی بیماروں سے واسطہ پڑ رہا ہے۔ اور المیہ یہ ہے کہ اس کی ہولناکی پر کوئی توجہ بھی نہیں ہے۔
اَب میں آپ کا تعارف کرونا کے غازیوں سے کرواتا ہوں۔
آپ بیتی سے شروع کرتے ہیں سردیوں میں گھر کے بڑے میاں کو موسمی بخار ،نزلہ،کھانسی ہوا۔ اس سے پہلے ان کو چکر آنے اور شوگرکا مسئلہ کافی پرانا ہے۔ معمول کے مطابق فیملی ڈاکٹر کے پاس جانا ہوا ۔ڈاکٹر نے دوا لکھ دی ۔افاقہ نہ ہونے پر دوبارہ جانا پڑا ،لیکن اَب کے بار بابا جی چل کر گئے، لیکن واپسی پر اٹھا کر لانا پڑا ۔بس! ڈاکٹر نے کرونا ہونے کا شبہ ظاہر کر دیا یہ کہنا تھا کہ بےہوشی ،انتہائی کمزوری ،اٹھنے کی سکت نہ ہونےکے ساتھ ساتھ حالت نزع کی سی کیفیت طاری ہو گئی۔ بس! رشتہ داروں سے الوداعی ملاقات کروا دی گئی اور دعاکی اپیل کر دی گئی۔ میں چوں کہ میڈیکل کے شعبہ سے وابستہ ہوں تو مزید علاج کی غرض اور تشخیص کے لیے بڑے ہسپتال کا رخ کیا کچھ ابتدائی ٹیسٹ کے بعد گھر واپس ہو لیے، لیکن کرونا کاٹیسٹ نہیں کروا یا اور دوائی کھانا شروع کر دی۔ پندرہ بیس دن میں مکمل صحت بحال ہوگئی، لیکن یہ مرحلہ کسی جنگ سے کم نہیں تھا ۔اَب بڑے میاں جی کسی غازی سے کم نہ دکھائی دیتے تھے۔
مجھے اَب تقریباً ہفتہ بھر میں ایک غازی یا غازی کے انتہائی قریبی ساتھی سے ملاقات کا موقع مل جاتا ہے۔ علامات میں کافی شدت کا اظہار ملتا۔ بس جی! اللہ بچائے نئی زندگی ملی ہے۔ اسی طرح کے جملے سننے کو ملتے ہیں۔ گویا اس سے پہلے تو اس طرح کی بیماری سے واسطہ پڑا ہی نہیں؟ بالکل جیسے ایک مہم جو ایک جنگی فوجی معرکہ طے کرکے واپس آکر قصہ کہانی سناتا ہے ۔ان غازیوں میں سانس مشکل سے آنا، ایک انتہائی اہم علامت ہوتی ہے۔ یقیناً سانس کی دشواری بیماری کی علامات میں سے ایک علامت ضرور ہے ،لیکن وہ بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ اس بات پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی کہ آیا یہ دشواری بیماری کی وَجہ سے ہے یا جو خوف کی عمومی کیفیت معاشرے میں طاری ہوئی ہے اس وَجہ سے ہے۔
ایک اورغازی سے ملاقات ہوئی، انتہائی صحت مند اور وجیہ جوان۔ دو چار دن بیمار ہوئے، لیکن طبیعت کافی بہتر تھی۔ لیکن جونہی ڈاکٹر صاحب نے کرونا ٹیسٹ تجویز کیا تو ٹیسٹ کروانے سے پہلے ہی اس نوجوان کی جسمانی قوت ایسے جواب دے گئی کہ اس کو اٹھا کر لانا پڑا۔ جب کہ یہ ڈاکٹر کے پاس خود چل کر گیا تھا۔ بس! ٹیسٹ نہیں کروایا سانس لینا مشکل ہو گیا دو چار دنوں میں طبیعت بحال ہونا شروع ہوگئی۔ اسی طرح سے آپ کو اپنے اردگرد کرونا کے بہت سارے غازی ملیں گے، جن میں کرونا کی موجودگی ثابت نہیں ہوئی ہوگی، لیکن وہ خود کو ایسا بڑھا چڑھا کر پیش کر رہے ہوتے ہیں کہ وہ اس خوف کے ماحول کو پھیلانے میں مزید اضافے کا باعث بن رہے ہوتے ہیں۔
آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ کچھ سال پہلے ہر طرف ڈینگی کی ہولناکیاں تھیں۔ لیکن جب سے کرونا نے ڈرائیونگ سیٹ سنبھال لی ہے۔ ڈینگی کلین بولڈ ہوگئی ہے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنی فکر اس بیماری کے حوالے سے کیوں ہے ؟کیا کینسر جیسا مرض ختم ہو گیا؟کیا ناقص خوراک سے ہونے والی بیماریاں ختم ہوگئیں؟کیا حادثات ختم ہوگئے؟کیا لوگ غربت کے ہاتھوں تنگ ہوکر خودکشی کرنا چھوڑ گئے جو اس بیماری کا اتنا خوف پوری دنیا پرمسلط ہے۔آپ جس طرح بیماریوں کا اظہار کرتے ہیں، اسی طرح یہ بیماریاں دوسروں میں نمودار ہوتی ہیں وہ منفی اور مثبت دونوں طرح کی ہوسکتی ہیں۔ ان غازیوں میں مسابقتی رویہ بھی پایا جاتا ہے مثلاً دوسرا غازی پہلے سے معلوم غازی سے زیادہ شدت سے بیماری کا اظہار کرتاہے۔ خوف کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے۔ منفی کردار ادا کرتا ہے میرا خیال ہے کہ بیماریوں سے انسان ٹھیک ہو سکتا ہے، لیکن خوف سے مر سکتا ہے اور خوف باقاعدہ منظم انداز میں پیدا کیا جا رہا ہے۔ اور اس بیماری کے کاروبار سے ایک طبقہ مستفید ہورہا ہے، منفی پہلو کی بنیاد پر مستقبل میں ایک کاروبار استوار کیا جا رہا ہے۔اس میں ترقی یافتہ ممالک بھی ملوث ہیں، حکومتیں عالمی ساہوکاروں کی آلہ کار بنی ہوئی ہیں ۔اس سے حصہ بمطابق جثہ وصول کر رہی ہیں۔ آج بھی عالمی اعداد و شمار اٹھا کر دیکھیں تو اس بیماری سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد کئی گنا زیادہ ہے۔ سوچنے کی بات ہے کہ خبر ایسے بھی دی جا سکتی ہے، بیماری سے دنیا میں 98 فی صد لوگ صحت یاب ہوئے ہیں، لیکن بیماری سے لڑائی میں 2 فی صد لوگ اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، جن میں اکثر لوگ دیگر بیماریوں کا شکار بھی تھے۔ اگر خبریں ایسی بننا شروع ہو جائیں تو دنیا کا جو نقشہ آج بنایا گیا ہے وہ یکسر بدل جائے۔
دعا ہے کہ اللہ تعالی ہمیں دجل کی پہچان اور درست نظام کا شعور نصیب فرمائے۔ آمین!