مذہبی و لسانی شدت پسند ی - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • مذہبی و لسانی شدت پسند ی

    نوجوان کو دین اسلام کے عدل ،انصاف اور معاشی مساوات کے زرین اصولوں پر تربیت یافتہ بنا کر اور لسانیت کے بجاءے مظلوم انسانیت کے نظریے سے لیس کرنا

    By Khalid farooq Published on May 23, 2021 Views 1046
    مذہبی و لسانی شدت پسندی  
    تحریر ؛ ڈاکٹر خالد فاروق ، پشاور

    مفہوم ؛ کسی بھی فکر میں افراط و تفریط کا ہونا شدت پسندی کا دوسرا نام ہے ۔ یہ صرف مذہب ہی کے ساتھ خاص نہیں، بلکہ کسی بھی فکر میں افراط و تفریط شدت پسندی پر ہی منتج ہوتی ہے ۔مثال کے طور پر دین اسلام کے اصل فکر پر اگر کسی سوسائٹی کا سماجی ڈھانچہ استوار ہو تو اس کے لازمی نتائج عدل ، امن اور معاشی مساوات کی صورت میں ظاہر ہوں گے اور اگر معاشرہ مذہب کے ٹائٹل سے افراط و تفریط کا شکار ہو جائے تو نتائج فرقہ واریت اور تشدد کی صورت میں نکلیں گے ۔ 
    صالح قومیت اور اسلام:
    اسی طرح اس بات سے آگہی بھی ضروری ہے کہ صالح قومیت دین اسلام کی ضد نہیں، بلکہ یہ دوسری اقوام کے حقوق تسلیم اور ان کا تحفظ کرتے ہوئے قومی و ملکی ترقی کا زینہ ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن اگر اس میں عدل باقی نہ رہے تو نتیجہ دوسری اقوام اور زبانوں سے نفرت ، نسلی تفاخر ، بےعملی و بدعملی کی صورت میں نکلتا ہے ۔ 
    سامراجی طاقتوں کا طریقہ:
    سامراجی قوتوں کا ہمیشہ سے یہ طریقہ رہا ہے کہ جب ان کا کسی ملک کی سوسائٹی کو اپنے مقاصد و اہداف کی بھینٹ چڑھانےاور تخت و تاراج کرنے کا ارادہ ہو تو اس کے ایک خاص طبقے میں شدت پسند افکار کو فروغ دیتی ہیں ۔
    برصغیر میں تقریباً 800سال تک ، دین اسلام کا غلبہ رہا، جس کی بنیاد عدل ، امن ، سماجی انصاف اور معاشی مساوات پر تھی ۔ان بنیادوں پر یہاں کی نوجوان قوت کو سامراجی مفادات کے لیے استعمال کرنا ممکن نہ تھا۔ 
    چناں چہ سامراجی ممالک نے اس خطے میں دین اسلام کے نام پر ایسے نظریات کو براعظم افریقا کے ملک مصر سے لے کر ایشیا میں پھیلایا ( کیوں کہ مغرب نے جدیدیت کے نام سے ، سب سے پہلے مصر ہی میں دین اسلام کی اصل صورت کو بگاڑنے کی کوشش کی تھی ) ، جس سے سرمایہ دارانہ نظام کی مذہبی ملمع سازی ہوئی اور جس سے سکول و کالج کے نوجوان طبقے میں حقوق سے محرومی کے سبب شدت پیدا ہوئی۔ جب کہ اس عمل سے ان کے پیش نظر اصل ہدف سرمایہ داری نظام کے مخالف ممالک میں مذہب کے نام سے عسکری مداخلت تھی ۔
    اس کی پہلی مثال ہمارے ہمسایہ اور مسلم ملک افغانستان کی ہے، جس کے تمام اداروں کو ایسا تخت و تاراج کر دیا گیا کہ آج 40 سال بعد بھی وہاں امن نام کا تصور ناپید ہے ۔ 
    دوسری مثال : 2010ء کے بعد جب مشرق وسطٰی کے ان ممالک کے ذخائر کو ہتھیانے کا منصوبہ بنایا گیا۔ جہاں کے ریاستی ڈھانچے سالوں سال سے ( غیر سرمایہ دارانہ ) قومی جمہوریت کے تصورات پر کھڑے تھے تو وہاں باقاعدہ انقلاب کا جھانسا دے کر نوجوانوں کا ایک جتھا تیار کیا گیا، جن سے قوم پرستی ، جمہوریت اور انسانی حقوق کے نام سے ، پُرتشدد مظاہرے کروائے گئے ، جن کا پہلا سٹیج شو مصر اور تیونس میں کروایا گیا جو کہ اصل ہدف نہیں تھا، بلکہ اصل ہدف کے لیے خطے میں رائے عامہ کی ہمواری تھی، جسے باقاعدہ سی این این ( CNN ) کے مشرقی ایجنٹ الجزیرہ اور یورپی جانشین بی بی سی ( BBC ) سے " عرب سپرنگ " کا خوش نما عنوان دیا گیا۔ سوشل میڈیا پر کرائے کے فیسبک بلاگرز سے اس پورے ہنگامے کو اینٹی سرمایہ دار تحریک ثابت کروانے کے لیے بلاگز لکھوائے گئے ۔ البرادعی سمیت انسانی حقوق کے کرائے کے لیڈر درآمد کرکے اپنے اتحادیوں کو نوازا گیا ۔ اس کے بعد کھیل کا اصل میدان لیبیا اور شام کو بنایا گیا، جہاں باقاعدہ شدت پسند قوم پرستوں اور مذہبی ایجنٹوں کا اتحاد کرایا گیا ،جس سے وہاں کی نوجوان قوت کو خوش نما نعروں کے جھانسے میں لا کر ملکی اداروں کو تخت و تاراج کرایا گیا، جس کے نتیجے میں 10 سال گذرنے کے باوجود لیبیا اور شام آج بھی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہیں ۔
    مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر رابرٹ فسک نے اسے یوں بیان کیا ہے : 
    In December 2010, the “Tunisian Revolution” touched off a wave of protests, riots, revolutions and civil wars throughout the Middle East.
     Initially the world hoped for positive change – democracy, free elections, and human rights. But, by 2012 the Arab Spring had morphed into “Arab Winter” bringing death, destruction, and despair-
    (Arab spring then and now from hope to despair by Robert fisk)
    دسمبر 2010 میں ، پورا مشرق وسطی " تیونس انقلاب" کے سبب مظاہروں ، فسادات ، ( نام نہاد ) انقلابات اور خانہ جنگیوں کی لہر کو چھونے لگا۔
     ابتدا میں دنیا کو مثبت تبدیلی یعنی جمہوریت ، آزادانہ انتخابات اور انسانی حقوق کی امید تھی ، لیکن 2012ءتک " عرب بہار " موت ، تباہی اور ناامیدی لانے والی "عرب سردی" میں بدل گئی ۔ [ "اس وقت اور اب ، عرب بہار کی امید سے مایوسی " ( رابرٹ فِسک کی کتاب کا اردو نام ہے ۔)[
    رابرٹ فسک کے مذکورہ بالا تجزیہ سے عرب مسلم ممالک میں نام نہاد انقلابی روح کے علمبرداروں کا جھوٹ عیاں ہوا ۔ 
    وطن عزیز کے حوالے سے تجزیہ:
    آج اگر وطن عزیز کے حالات کا تجزیہ کیا جائے تو کچھ عرصے سے ریجنل قوتوں کا بڑھتا ہوا اثر و رسوخ ، اور خطے کے ممالک بڑھتی قربتیں، جو کسی بھی قیمت پر بوڑھے سامراج ( امریکا ) اور اس کے حواریوں کو قابل قبول نہیں ۔ اس کے مقابلے کے لیے مذہبی شدت پسندی کا کارڈ جو کہ افغان فساد میں استعمال کیا جا چکا ، فیل ہو گیا ہے ۔ اَب اس کی جگہ منظم طریقے سے لسانی تشدد کو ابھارا جا رہا ہے - 
    جدید سامراجی ہتھکنڈے:
    1۔ بلوچستان میں کافی عرصے سے انٹرنیشنل ایجنسیوں ، این جی اوز اور مقامی جاگیردار سرداروں کی زیر نگرانی یہ عمل جاری ہے۔ 
    2۔ سوشل میڈیا پر بلاگرز کا ایک پورا نیٹ ورک انسانی حقوق اور سرمایہ دارانہ جمہوریت کے خوش نما القابات کی آڑ میں معاشرے اور نظام کی اصل خرابیوں کی نشاندہی اور اس کا متبادل حل پیش کرنے کے بجائے اداروں کے خلاف نفرت کی فضا بنانے میں مصروف ہے۔
    3۔ایک قدم اور آگے سوسائٹی میں خواتین کے حقوق کی پامالی پر ایک مثبت ڈائیلاگ کے بجائے خاندانی نظام جو کہ ایشیا کا صدیوں سے طرۂ امتیاز ہے ، اسے بنیادوں سے توڑنے کی بھی مذموم کوشش ہو رہی ہے ۔ 
    یہاں یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ وطن عزیز کا ریاستی ڈھانچہ جو کہ نو آبادیاتی اور غلامی کے دور کی فکر پر استوار ہے اور اس پر مزید یہ کہ جدید نوآبادیاتی نظام کی زد میں ہے ، ایسے میں قومی اداروں کا ریجنل قوتوں کی جانب دیکھنا معاشی زبوں حالی اور ان کے اپنی بقا کو لاحق خطرات کے نتیجے میں ہے۔ یہ کسی انقلابی تقاضوں کے تحت نہیں ہے ۔
     سرمایہ داری نظام کا محافط نوآبادیاتی ڈھانچہ جس سے صرف یہاں کی سیاسی ، سول و عسکری اشرا فیہ کا ہی مفاد وابستہ ہے اور اس کے نتیجے میں 70 فی صد عوام خط غربت سے بھی نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں - ایسا ہی معاشرہ شدت پسندی پر مبنی سوچ اور بیرونی مداخلت کے لیے زرخیز زمین کا ذریعہ بنتا ہے ۔ 
    عصری ضرورت اور تقاضے:
     آج اس امر کی ضرورت ہے کہ 
    1۔ نوجوانوں کو دین اسلام کے عدل و انصاف اور معاشی مساوات کے نظریہ پر تربیت دی جائے ۔
    2۔ لسانیت کے بجائے مظلوم انسانیت کے لیے ہمدردی پیدا کی جائے ۔
    3۔ ان میں اجتماعی تنظیم کی اہمیت پیدا کی جائے ۔
    4۔ عدم تشدد کی بنیاد پر معروضی تقاضوں کا لحاظ کرکے تبدیلی کا عمل آگےبڑھے ، جس کے نتیجے میں کل قومی ریاستی ڈھانچے کو جدید دور کے تقاضوں اور قومی ضروریات کے تناظر میں ڈھالا جاسکے ۔ 
    اللّٰہ تعالیٰ اس عمل میں ہمارا حامی وناصر ہو ۔
    Share via Whatsapp