میڈیا پر تشہیری مُہم کا اخلاقی جائزہ - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • میڈیا پر تشہیری مُہم کا اخلاقی جائزہ

    ایڈور ٹائزنگ کے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے صارفین کے جزبات کوابھار کرجاجا ہر برانڈ کوکسی خاص جزبے کے ساتھ وابستہ کیا جاتاہے

    By حبیب الرحمان Published on Apr 27, 2021 Views 2010

    میڈیا پر تشہیری مُہم کا اخلاقی جائزہ

     

    حبیب الرحمان۔اکوڑہ خٹک ضلع نوشہرہ

     

    ماہرین عمرانیات و سماجیات کے مطابق کسی بھی معاشرے کے تین بڑے ستون ہوتے ہیں،پہلا وہ فکر وفلسفہ،جس پر سماج کی تشکیل ہوتی ہے دوسرا اسی فکر وفلسفے کی بنیاد پر سیاسی نظام قائم ہوتا ہے اور تیسرا دائرہ معاشی نظام کاوجود میں آنا ہے،لیکن بدلتے دور کے تقاضوں کے مطابق میڈیا کو چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔آج کے اس ڈیجیٹل یعنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں میڈیا کےکردارسے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ 

    بالخصوص میڈیا کے فروغ کے سبب مصنوعات کی تشہیر ایڈورٹائزنگ (Advertising) ایک صنعت کا درجہ اختیا ر کر گئی ہے جو انتہا درجے کا منافع بخش بھی ہے۔ ہر بڑی کمپنی اس مَد میں لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کرتی ہے اور اس کے ذریعے اپنی مصنوعات اور برانڈ کی سیل اور مانگ بڑھانے کا کام کیا جاتا ہے۔

    اردو میں ایڈورٹائزنگ کے لیے "تشہیر" کا لفظ استعمال کیا جاتاہے، جس کا مفہوم ہے کہ مصنوعات (Products) اور برانڈ کو شہرت دی جائے کہ ان کی سیل میں اضافہ ہو اور عام لوگوں کے ذہنوں میں اپنے برانڈ کے بارے میں مثبت رائے کو فروغ دے کر اپنا برانڈ خریدنے پر آمادہ کیا جائے۔ مطلوبہ اہداف کے حصول کے لیے موجودہ دور کے بنیادی طور پر تینوں اقسام الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور آؤٹ ڈور میڈیا کا بھر پور استعما ل کیا جاتا ہے۔ 

    ایڈورٹائزنگ کے مندرجہ بالاطریقوں کا استعمال اگر اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے کیا جائے تو اس میں کوئی قباحت اور مضائقہ نہیں، کیوں کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ دوسرے کی مرضی سے اپنی کوئی بھی چیز فروخت کرے، کسی کو بھی اپنی تیار کردہ اشیا فروخت کرنے کے لیے عوام کو آگاہ بھی کیا جا سکتا ہے، اور ان کو خریدنے کے بارے میں ترغیب بھی دی جاسکتی ہے اور اس کےفوائد بھی بتائے جا سکتے ہیں۔ یہ کام دور قدیم کی طرح بازار میں کھڑے ہو کر آواز لگانے سے بھی ہوسکتا ہے اور دور جدید کی طرح میڈیا کیےذریعے بھی۔ ایڈورٹائزنگ کی اس عام اجازت کے باوجود دور جدید کی ایڈور ٹائزنگ میں بعض ایسے عوامل بھی داخل ہوئے ہیں جو اخلاقی اعتبار سے کسی طرح بھی قابل قبول نہیں جو سرمایہ دارانہ نظام کی عکاسی کرتے ہیں۔ کیوں کہ سرمایہ دارانہ نظام کا مقصد سرمائے کا حصول اور بالادستی ہے۔اور اس مقصد کی تکمیل کے لیے نِت نئے ہتھکنڈے اور حلال وحرام میں امتیاز کیے بغیر استعمال کیے جاتے ہیں، جیسا کہ صارفین کے جذبات کو اُبھارنا اور اس مقصد کے لیے ہر برانڈ کو کسی مخصوص جذبے مثلاً دوستی، عشق و محبت، مامتا،اپنائیت، ذہنی سکون، ایڈوینچرحتیٰ کہ جنسی خواہش کے ساتھ وابستہ کیا جاتا ہے، جن افراد میں یہ جذبات شدت سے پائے جاتے ہیں،انہی اشتہارات کے ذریعے سے ان میں تحریک پیدا کرکے اپنا برانڈ خریدنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

    اسی طرح الیکٹرانک میڈیا، پرنٹ میڈیا اور آؤٹ ڈور میڈیا کے ذریعے سے بے ہودہ اشتہارات دکھا کر نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف دھکیلا جا رہا ہے، جو ہر سلیم الفطرت انسان کے لیے قابل مذمت ہے۔ 

    سرمائے کی ہوَس اس پر بس نہیں کرتی، بلکہ نیشنل و ملٹی نیشنل کمپنیاں ایڈورٹائزنگ میں جھوٹ کا سہارا لے کر اپنی پراڈکٹ کی ایسی خصوصیات بیان کرتی ہیں جو اس میں موجود نہیں ہوتیں اور اس پراڈکٹ کی خامیوں کو بھی چُھپایا جاتا ہے۔ جب کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی ہدایات کے مطابق کسی بھی مسلمان تاجر کے لیے یہ بات روا نہیں کہ وہ اپنی چیز کے عیب چُھپائے۔

    اس کے ساتھ ساتھ نا جائز اشیا کی ایڈورٹائزنگ بے باکی سے اپنے عروج پر ہے۔ اس سلسلے میں الیکٹرانک میڈیا پر اور خاص کر انٹرنیٹ،سوشل میڈیا پربے ہودہ اور اخلاق باختہ قسم کے اشتہارات لگا کر اپنے پراڈکٹس کی تشہیر کی جاتی ہے۔ جو نہایت افسوس ناک امَر ہے۔ 

    صارفین میں تعیشات کی زیادہ سے زیادہ طلب پیدا کرنا بھی سرمایہ دارانہ نظام کا آزمودہ حَربہ ہے۔ایسی بہت سی اشیا ہیں، جن کے بغیر بھی انسانی زندگی بڑے آرام سے گزر جاتی ہے۔ کیوں کہ ان کا استعمال محض لُطف اُٹھانے اور عیش پسندی کے مانند ہیں۔جب ایسی اشیا کی تشہیر کی جاتی ہے تو اس کے نتیجے میں عوام الناس میں اس کی مصنوعی ڈیمانڈ پیدا ہوجاتی ہے۔ اَب اس غیرضروری ڈیمانڈ کو پورا کرنے کے لیے دولت کے حصول کا ہر جائز و ناجائز طریقےاپنایا جاتا ہے اور اسی طرح معاشرے میں نمائش اور مقابلےکی فِضا پیدا کرکے سرمائے کے حصول کی دوڑ لگ جاتی ہے، اور اگر کوئی اس دوڑ میں ناکام ہوتا ہے تو وہ مستقل مایوسی،بے چارگی اور احساس کمتری کاشکار ہو کر نفسیاتی اور سماجی مسائل کے بھنور میں پھنس جاتے ہیں۔

    ایڈورٹائزنگ کے ذریعے اسراف اور فضول خرچی کی بے انتہا ترغیب ہوتی ہے۔پاکستان میں ہر بڑی کمپنی سالانہ اربوں روپے اس مد میں خرچ کرتی ہے اور اس رقم میں بڑا حصہ ماڈلز،ڈائریکٹرز اور دیگر افراد کی عیاشیوں پر خرچ کیا جاتا ہے۔یوں فرد کو سماجی اقدار اور سماجی ذمہ داری سے فرار کی ترغیب دی جاتی ہے۔

    تشہیری مُہم کا ایک اہم پہلو سوشل میڈیا کا منفی استعمال ہے۔ ہر کوئی اپنے ذاتی وگروہی نظریات کا پرچار اور مخالف نظریات کا رَد کرتے ہیں۔خاص کر انتخابات کے لیےتشہیری مُہم کو بہ طور ایک آلہ(Tool) کے استعمال کر کے سیاسی میدان کو گرم کیاجاتاہے، جس میں اخلاقیات کا جنازہ نکال کر ذاتیات پر اُترکر کردار کشی، گویاقومی مشغلہ بن چکا ہے ۔ایڈورٹائزنگ کا طائرانہ جائزہ لینے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے ہوتے ہوئے اس برائی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ اور نہ ہی اسی نظام میں رہتے ہوئے کوئی اصلاح کا طریقہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے۔

    ضرورت اس امَر کی ہے کہ سرمائے کی ہوس کے نظام کے برعکس فطرت انسانی کے حامل دین ِاسلام کی حقیقی تعلیمات کی روشنی میں انسان دوستی اور تکریم انسانیت کا مثالی معاشرہ تشکیل کیا جائے۔ جوانسانیت کی بنیادی ضروریات کا کفیل اور اعلیٰ اخلاق کا ضامن ہو۔ اور یہ تب ہی ممکن ہے کہ قوم کے باشعور و مخلص نوجوانوں کی شعوری تربیت دین فطرت کے اعلیٰ اصولوں پر کرکے اس سرمایہ دارنہ نظام کے مقابلے میں حقیقی معنوں میں سماجی تبدیلی رونما کریں۔

    اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس اجتماعی جدوجہد کے لیے قبول کرکے معاشرے کے لیے مثبت اور تعمیری کام سر انجام دینےکی توفیق عطا کریں۔ آمین

     

    Share via Whatsapp