باتوں اور جوتوں کے دانش ور - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • باتوں اور جوتوں کے دانش ور

    ایک اہم سماجی مسئلہ کے بارے میں

    By Muhammad Salman Rana Published on Apr 29, 2021 Views 1904
    باتوں اور جوتوں کے دانش ور
    تحریر: رانا سلمان ، کراچی  

    چند روز قبل ملک کے نام و ر نجی ٹی وی چینل پر آج کل کی کرونائی صورتِ حال پر ایک مُباحثہ سماعت ہوا،جس میں ملک  کے دانش ور شریک ہوئے۔ جنھوں نے کرونا کی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے دانش مندانہ مشوروں سے نوازا۔ اپنی دانش ورانہ باتوں کو عمل میں لاتے ہوئے مباحثہ میں شریک محترم اور محترمہ نے کرونا سے نبٹنے کے لیے بہت ہی مؤثر حکمت عملی دی کہ ماسک نہ پہننے پر عوام کو ڈنڈے مارے جائیں ، اُلٹا لٹا کر جوتے مارے جائیں۔غلام قوموں کی دانش مندی بھی ڈنڈوں اور جوتوں تک محدود ہوجاتی ہے۔ غلامی عزت نفس سے محروم کردیتی ہے ، جس کے سبب  انسانی اقدار کی پامالی اور انسانیت کی  تذلیل کوئی معنیٰ نہیں رکھتی۔ 
    ماضی قریب میں  ترقی یافتہ ملک خاص طور پر ریجنل ممالک  چین اور روس جنھوں بہترین اور منظم قومی حکمت ِعملی سے اس صورتِ حال سے نپٹا۔نظریاتی اصولوں پرقائم منظم اقوام کو اپنی بات منوانے کے لیے تشدد کی ضرورت نہیں پڑتی۔ اس میں کوئی دوسری رائے  نہیں کہ دنیا میں کسی بھی ناگہانی صورت حال  سے بچنے کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرنا چاہییں۔مگر احتیاط کے نام پر شور و غل کرنا، خوف پیدا کرنا، ملک کی ڈُوبتی ہوئی معشیت کو مزید ڈبونا، انسانی اقدار پامال کرناانسانیت  کی تذلیل ہے۔
    اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا  ہے، اُس انسان کو  کسی راستے میں یا  کسی چوراہے پر مرغا بنا دیں۔ اس کے بچوں کے سامنے اس کی عزت پامال کریں ، ان  کی عزت نفس مجروح کریں۔ پھر اس کا سوشل میڈیا پر  چرچا بھی کریں۔ کیا  یہ رویے کسی انسانی معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں؟دراصل  عوام کو ڈنڈے مارنا، جوتے مارنا، کان پکڑوانا یہ سب نشانیاں اُس غلامانہ ذہنیت کی ہیں جو  برطانوی سامراج سے بہ طور تحفہ ہمیں وارثت میں ملی ہیں۔ یہ طریقہ تو اُس وقت عوام کے آزادی و حریت کے جذبات کو دبانے کے لیے تھا۔
    مگر افسوس! آج ہم یہ طریقہ خود کو آزاد کہنے والی قوم پر اختیار کرتے ہیں جو اس بات کا اِظہا رہے کہ یہ سماج نوآبادیات دور کے تسلسل میں ہی سانس لے رہا  ہے۔ آج بھی وہی غلامی کے نقوش معاشرے اور اس کے  اداروں پر پوری  طرح نقش ہیں۔
    غیر نظریاتی  سوچ جب اداروں میں جاتی ہے تو  کام ڈنڈے کے زور پر کروائے جاتے ہیں۔اگر کام کرنے کی حکمت ِعملی بھی متعین نہ ہوتوپھر یہی نتائج نکلتے ہیں ۔ اپنے خاص طبعی رحجان کے تحت دوسروں کی تذلیل کرنے  کی روایات جنم لیتی ہیں، جس سے ادارہ جاتی ترقی تو کیا ہوگی ، اُلٹا انسانیت کی توہین کا باعث بنتی ہے۔
    اس ذہنیت کے لوگ جمہوریت کے نعرہ کی بنیاد پر ایوانوں پر مسلط کر دیے جائیں تو وہ ریاست کو "جس کی لاٹھی اُس کی بھینس" کے اصول پر  چلاتے ہیں۔ اداروں کے  غیرمنظم اور نامناسب  عملی اقدامات کے نتیجے میں عوام سے انتہائی منظم ہونے کی امید بھی رکھی جاتی ہے۔  اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ عوام ان کی بتلائی تدابیر پر عمل درآمد نہیں کر رہی تو یہ بھی ان اداروں پر ایک سوالیہ نشان ہے کہ بہ حیثیت مجموعی قوم  کی   کوئی اخلاقی تربیت  بھی کی گئی ہے؟ ہمیں خود غور کرنے کی ضرورت ہے کہ ہماری درس گاہوں تعلیمی اداروں، رائے اور سوچ بنانے والے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا، ادیب دانش ور، پالیسی ساز اداروں نے قوم کی کیا اخلاقی تربیت کی ہے؟؟؟ کہ بہ حیثیت قوم کسی بھی ایمرجنسی صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے ہمارے کیا رویے ہونے چاہئیں ۔
    اس لیے آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بہ حیثیت قوم نوآبادیاتی دور کے غلامانہ تصورات کے طوق کو اُتار کر انسانیت دوستی پر مبنی معاشرے  کی تشکیل کریں۔مذکورہ بالا رویوں کی حوصلہ شکنی کریں۔ تاکہ معاشرے میں انسانی اقدار و روایات پروان چڑھیں۔ یقین جانیں کہ تاریخ میں کوئی بھی انسانی معاشرہ جوتے، ڈنڈے. سوٹے کی بنیاد پر کبھی بھی پروان نہیں چڑھا۔معاشرے اعلیٰ نظریات، مؤثرتربیت اور بہترین ادارہ جاتی نظم و نسق  کے ذریعے پروان چڑھتے ہیں۔
    Share via Whatsapp