بنیادی انسانی حقوق اور ہمارا نظام
بنیادی انسانی حقوق اور ہمارا نظام
بنیادی انسانی حقوق اور ہمارا نظام
تحریر ؛ عزم اعجاز ، لاہور
گزشتہ دنوں پاکستان کے دارالخلافہ کے ایک ہوٹل( Cannoli ) میں ہونے والا واقعہ جو چند دن سوشل میڈیا کی زینت بنا رہا ، ہمارے اجتماعی رویوں کی عکاسی کرتا ہے ۔ اِس واقعہ میں ہوٹل کی مالکہ نے اپنے مینجر کو انگریزی زبان صحیح نہ بولنے پر طنز و مزاح میں لیا ۔ گر چہ یہ واقعہ لوکل کیفے میں پیش آیا مگر اس طرح کے واقعات کی مثالیں آئے روز ہمارے مشاہدے میں آتی رہتی ہیں ۔ یہ واقعہ نہ صرف ہمارے اخلاقی رویوں کا چہرہ دکھاتا ہے بلکہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے کہ خود کو مسلمان کہنے والے انفرادی اور اجتماعی معاملات میں اتنے کمزور کیوں ہیں ؟ اسے سمجھنے کے لیے ہمیں اس بات کا شعور ہونا چاہیے کہ انسانی اخلاقیات کو صحیح انداز میں سمجھنے کے لیے کیا اصول اور درست رکھنے کے لیے کیا امور لازمی ہیں ؟
یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ دنیا میں بیشتر افراد نظم وضبط کا مظاہرہ اْسی وقت کرتے ہیں جب اْن پر نگرانی کا کوئی مربوط نظام موجود ہو کیونکہ جب تک آپ انسانوں کو قانون کا پابند نہیں بنائیں گے وہ کسی نہ کسی بد اخلاقی کے مرتکب ہوتے رہیں گے۔
یہ بات قابلِ غور ہے کہ دنیا کا ہر مذہب اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے اور اْسی پر سوسائٹی کی تشکیل کرتا ہے۔ مگر وطن ِ عزیز جسے کہنے کو مذہب کے نام پر آزاد کرایا گیا تھا ، ہر گزرتے دن کے ساتھ اخلا قی کمزوریوں میں اضافہ نظر آتا ہے ۔ اس اخلاقی تنزلی کو دیکھ کر یہ واضح ہوتا ہے کہ یہاں کوئی نظام اور قانون موجود نہیں ، اگر ہے تو وہ اتنا ناقص ہے کہ لوگوں کو بنیادی انسانی حقوق فراہم کرنے سے قاصر ہے۔ مزید یہ کہ اِس فرسودہ نظام میں اخلاقی درستی قائم رکھنے اور اخلاقی رویوں کے قیام کا کوئی لائحہ عمل نظر نہیں آتا۔
حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں :
" انسان کی اخلاقیات اْس کی معیشت پر منحصر ہوتی ہیں"۔ یعنی انسانی سوسائٹی میں جب تک بلا تفریق رنگ ، نسل اور مذہب تمام انسانوں کو معاشی خوشحالی نہیں ملے گی ، اْس وقت تک وہ حقیقی طور پر آزاد نہیں ہو سکتے کیونکہ وہ اپنی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسروں کے محتاج ہوں گے۔
یہی وجہ ہے کہ مذکورہ بالا واقعہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد جب ایک نیوز چینل نے اْس مینجر سے اِس ہتک آمیز رویہ پر اْس کی رائےپوچھی تو وہ اپنی معیشت کو محفوظ رکھنے کے لیے اپنی ما لکہ کی تعریفیں کرتا رہا یعنی اْس شخص نے اپنے اوپر معاشی دباؤ کی وجہ سے اپنی عزت کو قربان کر دیا ۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر آج ہم بحیثیتِ قوم معاشی بد حالی ، خوف و ہراس اور بداخلاقی کے ماحول میں زندگی گزار رہے ہیں اور ہمارا نظام ہمیں یہ بنیادی انسانی حقوق دینے سے قاصر ہے تو اِس کا ذمہ دار کون ہے؟
پاکستانی نظام۔
پاکستان کے نظام میں آنے والی ہر نئی حکومت پچھلی حکومت کو تمام تر سیاسی و معاشی بدحالی کا ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔چوہتر سالوں سے آج تک کسی بھی پارٹی نے جو حکومت میں امن و خوشحالی کے نعرے لگاتی ہوئی آئی ، کبھی بھی اس نے اقتدار میں آنے کے بعد اِن نعروں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش نہیں کی۔
قومی نظام کے تجزیے کی ضرورت
اگر ہم آج اپنی اِس بدحالی کا جائزہ نہیں لیں گے ، اِس سیاسی اور معاشی عدم استحکام کی وجوہات پر غور کر کے اپنے لیے درست راستے کا تعین نہیں کریں گے تو پھر خدا اس قوم کی حالت نہیں بدلتا جسے خود اپنی حالت بدلنے کا خیال نہ ہو ۔
انسانی اخلاق کی اہمیت اور عالمی نظاموں کا نقص
انسانوں کی انفرادی اور اجتماعی ترقی بنیادی طور پر انسانی اخلاق کی ترقی ہے ۔ یہ اخلاق اْسی وقت درست ہو سکتے ہیں جب ہم ایسا نظام تشکیل دیں جو انسانوں کے بنیادی حقوق کا محافظ ہو نہ کہ اْنھیں پامال کرنے والا ہو۔ دنیا میں آج جو بھی نظام موجود ہیں اور دیگر ممالک پر اپنا تسلط رکھے ہوئے ہیں ، اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود انسانوں میں وہ اخلاقیات پیدا کرنے سے قاصر ہیں جو حقیقتا انسانیت کی معراج ہیں ۔ ایک طرف سرمایہ داریت پر مبنی معاشی نظام ہے جو لوگوں کا استحصال کر رہا ہے تو دوسری طرف اشتراکیت ہے جو انسانوں کی رہنمائی اور اْن میں اخلاقی بلندی کا نقائص سے پاک جامع نظام وضع نہیں کر سکی ۔ اِن دونوں مد مقابل نظاموں کے بر عکس دین کی تعلیمات قیامت تک کے تمام مسائل کو حل کرنے اور انسانوں کو مجموعی طور پر ترقی دینے کے لیے ہیں۔ آج جن سیاسی ، معاشی اور معاشرتی مسائل کا ہم شکار ہیں اور اخلاقی تنزلی سے دوچار ہیں ، اْس کا حل ہمیں قرآنی تعلیمات سے ملتا ہے۔
قرآن حکیم کی سورہ قریش میں ہے :
فَلْيَعْبُدُوْا رَبَّ هٰذَا الْبَيْتِ (3) اَلَّذِىٓ اَطْعَمَهُـمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَـهُـمْ مِّنْ خَوْفٍ (4)
ترجمہ: ان کو اس گھرکے مالک کی عبادت کرنی چاہیے ، جس نے ان کو بھوک میں کھلایا اور انہیں خوف سے امن دیا ۔
ان آیاتِ مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ قریش جس خوف اور بھو ک کے نظام میں مبتلا تھے ، اْنھیں قرآن کریم کے نظام نے امن اور معاشی خوشحالی دی۔
ہماری ذمہ داری
اگر آج ہم بھی اپنی سوسائٹی سے اِس خوف و ہراس اور معاشی استحصال کا خاتمہ چاہتے ہیں تو ہمیں ایسا نظام لانا چاہیے جو سوسائٹی میں بلا تفریق رنگ نسل اور مذہب تمام لوگوں کو امن اور خوشحالی دے ۔ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر سب کہانیاں ہیں۔