پاکستان میں پروفیشنلز (پیشہ ور افراد) کی محرومیوں کا ازالہ
محنت اتنی خاموشی سے کرو کہ تمہاری کامیا بی دھو م مچا دے
پاکستان میں پروفیشنلز (پیشہ ور افراد) کی محرومیوں کا ازالہ
تحریر:ڈاکٹر عبدالرحمن شاہ (بنوں)
وطن عزیز میں یوں تو بے شمار نعمتیں ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں۔ جن کا آج تک کماحقہ استعمال پوری قوم کے لیے ممکن نہیں بنایا جاسکا، جس کی وَجہ سے وطن عزیز گوناگوں مسائل سے دوچار ہے، جس میں انرجی بجلی، گیس، تیل کی کمی کا مسئلہ زبان زد عام ہے۔ ایسے ہی ملک میں خداداد ذہنیت کی آبیاری اور ان سے کام لینے کی حکمت عملی کا بھی شدت سے فقدان رہا ہے۔ جس کا شکار ہماری نوجوان نسل کی ذہنی استعداد اور کام کرنے کی بہترین حکمت عملی ہے، جس کو پالش کرنا اور کام کے مواقع فراہم کرنا آج کے دِن کی پکار ہے ۔ اس بات کا ثبوت یہ ہے کہ دنیابھر کے ٹیکنالوجی کے لحاظ سے ترقی یافتہ ممالک میں پاکستانی نوجوان کی بڑی مانگ ہے اور وہ ان کی خداداد صلاحیتوں کے معترف ہیں۔ جنھیں سائنس و تحقیق کی خبریں دینے والی ویب سائیٹس پر سُنا اور دیکھا جاسکتا ہے ۔ ہمارا یہ نوجوان باہر کے ملکوں میں جاکر جس ذِلت اور مشکل حالات میں دن رات محنت کرکے زندگی گزارتا ہے وہ حالات بہت تکلیف دہ ہیں۔ ان پروفیشنلز کو اپنے ملک میں کھپانے اور ان کی محرومیوں کا ازالہ کیسے ممکن ہے؟ اس پہ بات کرتے ہیں۔
• پہلی بات یہ ہے کہ کسی بھی پیشے (پروفیشن) کو اختیار کرتے وقت یہ دیکھیے کہ اس میں آپ کی اپنی دلچسپی کتنی ہے؟ اگر دلچسپی ہے تو ضرور اس میں داخلہ لیجیے، کسی مجبوری یا نوکری کے لالچ میں ہرگز کسی پیشے کا انتخاب نہ کریں تاکہ آپ کی دلچسپی اور پروفیشن ایک ہو۔ تاکہ آپ زندگی میں ایک کامیاب اور کھرے انسان بن سکیں۔
• دوسری اہم بات یہ ہے کہ کسی بھی پروفیشنل ادارے میں داخلہ لینے کے بعد اسی پیشے سےمتعلقہ عملی میدان میں مہارت حاصل کرنے کے لیے کسی ورکشاپ / ہیلتھ سنٹر/ مکینک وغیرہ سے جُڑے رہیے۔ یہ چیزیں آج کل سرکاری اداروں میں برائے نام رہ گئی ہیں۔ اس لیے آپ کو پرائیویٹ سیکٹر سے رجوع کرنا پڑے گا تاکہ آپ کی ذہنی اور عملی صلاحیتیں نکھر کر سامنے آئیں یاد رکھیے، اگر پڑھائی کے دورانیے (تین یا چار سال) میں آپ نے کوئی مہارت حاصل نہ کی۔ تو یہاں سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو اپنی زندگی کے قیمتی تین تا چار سال مزید اسے حاصل کرنے کے لیے دینے پڑیں گے۔
• تیسری اہم بات یہ کہ دوران تعلیم اگر آپ مہارت سیکھنے کے لیے وقت نہیں دیں گے ۔ تو سرکاری اداروں کی دیگر نقصان دہ اور غیرضروری مصروفیات (نشہ، انٹرنیٹ کا غیر ضروری استعمال، ہر وقت کیفے ٹیریا یا انٹرٹینمنٹ کے نام پر وقت ضائع کرنا) آپ کی روزمرہ زندگی میں غالب آئیں گے، جس سے نہ صرف آپ کی خداداد صلاحیتیں ضائع ہوں گی بلکہ اخراجات کا بھاری بوجھ بھی پڑے گا، جس کا نتیجہ بسااوقات اس سارے سلسلے کو منقطع ہونے کی صورت میں نکلتا ہے۔
• چوتھی اہم بات یہ ہے کہ آپ لکھنے اور اپنے تجربات کو محفوظ بنانے کی عادت ڈالیے۔ استاد صاحب کے دیےگئے لیکچر کے بنیادی نکات (Hints) اُسی وقت لکھیے پھر اپنے کمرے میں جا کر تسلی سے اس کو تفصیلاً لکھیں۔ کیوں کہ گفتگو ہوا میں تحلیل ہوجاتی ہے اس لیے جو چیز تحریر اور سمجھ میں آجائے وہی پوری زندگی آپ کے ساتھ رہتی ہے اور بوقت ضرورت اس سے استفادہ بھی کیا جاسکتا ہے۔
• پانچویں ضروری چیز یہ ہے کہ دوران تعلیم مایوسی کو اپنے پاس نہ پھٹکنے دیں۔ ہر صبح نئی اُمید لے کر اُٹھیں اور اپنے حصے کا کام کریں۔ دنیا میں آج بھی مہارت کے حامل تجربہ کار لوگوں کی کمی ہے۔ اگر آپ میں یہ اوصاف حمیدہ پائے جائیں تو دنیا آپ کو خوش آمدید (Welcome) کہے گی۔
• چھٹی بات یہ ہے کہ تعلیم اور مہارت سیکھنے کے بعد گھر بیٹھنے سے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ اپنی فیلڈ کے ماہرین کی نگرانی میں عملی کام کا آغاز کریں۔ ناکامی کے ڈر اور خوف کی وجہ سے اپنے اوپر سستی اور غفلت نہ آنے دیں۔ جب آپ کو اپنی کام پر کمانڈ حاصل ہوجائے تو بے شک آپ اپنا کاروبار / پریکٹس شروع کریں، بلاوَجہ نوکریوں کی تلاش میں اپنا قیمتی سرمایہ اور وقت ضائع نہ کریں۔
• دوران تعلیم خود کو جذباتی ہونے اور اشتعال انگیزی سے بچائیں۔ معاشرے میں موجود باطل جماعتیں جمہوریت کے نام پر نوجوانوں کو بداخلاقی کی راہ پر ڈالتی ہیں یا فاسد قوم پرستی اور مذہبی جنونیت کی تعلیم اور نعرہ دے کر نوجوانوں کو اعتدال کے راستے سے ہٹا دیتی ہیں، ان سے بچنا ضروی ہے۔
• اپنی جسمانی صحت کا خیال رکھیے فاسٹ فوڈز اور کولڈڈرنکس کے نام پر کیمیکلز کھانے سے بچیے، ہمیشہ قدرتی غذائیں اور پھل استعمال کریں ۔ مناسب ورزش اور صبح کی سیر کو اپنا معمول بنائیں۔
• آخری بات جو سب سے اہم ہے وہ یہ کہ اجتماعیت کے ذہن سے سوچیں۔ عملی کام بھی اجتماعی ذہن ، دینی غلبے کے نظریے اور تعاون باہمی کے اصول پر کریں۔ تاکہ آپ کا جذبہ ایثار و قربانی سے آپ کی روحانی طاقت(Spiritual power ) بڑھے۔ کیوں کہ اس طرح کام کرنے سے نہ صرف آپ اپنی انفرادی زندگی میں کامیاب ہوں گے بلکہ پورے معاشرے کی صحت مند تبدیلی اور سماج کو سنوارنے میں آپ جان دار کردار ادا کر سکتے ہیں اور بداخلاقیوں، نظام ظلم کا ساتھ دینے، منافقت،خودغرضی،
مال و جاہ کی محبت، حسد، کینہ، بغض وغیرہ سے بچ سکتے ہیں۔