بکھرتے خواب، ٹوٹتی امیدیں
قوموں کی ترقی بخت و اتفاق نہیں بلکہ مسلمہ اصولوں اور قوانین کا نتیجہ ہوتی ہے۔جو قومیں فطرتی اصولوں کو اپنا کران اصولوں پر عملی ڈھانچہ اور نظام
بکھرتے خواب، ٹوٹتی امیدیں
تحریر؛ انجینئر محمد نواز خاں۔ لاہور
خواب کیوں بکھرتے ہیں امیدیں کیوں ٹوٹتی ہیں اس لیے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
قوموں کی ترقی بخت و اتفاق یا وقتی نعروں اور سطحی کوششوں سے نہیں بلکہ قومی شعور ی جدوجہد کے مسلمہ اصولوں اور قوانین کا نتیجہ ہوتی ہے۔جو قومیں فطری اصولوں کو اپنا کر ان اصولوں پر عملی ڈھانچہ اور نظام قائم کر لیتی ہیں ، عزم و ہمت کا نمونہ بنتی ہیں کائنات کی ہر چیز ان کی مطیع بن جاتی ہیں۔ تاریخ انسانی قوموں کے عروج و زوال کی داستان ہے۔ قرآن حکیم ان ترقی کے اصولوں اور قوانین کو بطور دلیل کامیاب قوموں کے رویوں کی شکل میں بیان کرتا ہے اور زوال یافتہ قوموں کے رویوں کو بطور عبرت بیان کرتا ہے۔
ہندوستان میں مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ تاریخ ، [کا بڑا حصہ معاشی خوشحالی ،مذہبی ہم آہنگی اور امن کے حوالے سے ] دنیا کی تاریخ کا ایک سنہری اور شاندار دور ہے۔ محمود غزنوی سے لےکر مغل حکمران اورنگزیب عالمگیر تک کا سات سو سالہ دور امن و آشتی ، خوشحالی، عدل و انصاف، مذہبی رواداری کے اعتبار سے نہ صرف ایک نمونہ بلکہ سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں ہندوستان کومعاشی اعتبار سے سپر پاور ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
کسی دور کی ترقی کا پیمانہ اس دور میں پیدا ہونے والی عظیم شخصیات ہیں۔ ہندوستان کے اس دور میں حضرت بابا فرید گنج شکر، حضرت نظام الدین اولیا، حضرت نصیر الدین چراغ دہلوی، حضرت بہاؤ الدین زکریا، شاہ رکن عالم جیسے کئی صوفیا، حضرت شیخ احمد سرہندی جیسےمجدد، مرزا مظہر جان جاناں ذوق ، میر درد، آتش اور غالب کے علاوہ شاہ عبدالطیف بھٹائی اور خوشحال خان خٹک جیسے شعرا ، حضرت امام شاہ ولی اللہ جیسے حکیم اور فلاسفر، اور اورنگ زیب جیسے متقی حکمران پیدا ہوئے۔جن کے فکرو عمل سے یہ خطہ اقوام عالم میں سربلند ہوا۔
یورپ کی قومیں تجارت کی غرض سے ہندوستان میں آئیں، اور یہاں کی سیاست معیشت ، اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو تہ و بالا کیا، ہندوستان کے وسائل کو لوٹا اور سونے کی چڑیا کی پہچان رکھنے والا ملک کنگال ہوا، قحط اس کا مقدر ہوا،ظلم و جبر کا قہر ہندوستانیوں پر ٹوٹا،بھائی چارہ اور مذہبی ہم آہنگی قصہ پارینہ بنی اور 95 فیصد سے زیادہ شرح خواندگی رکھنے والا ملک جاہل قرار پایا۔شعور سلب ہوا، کائنات کی وسعتیں لیے ذہن تنگ ہوئے ، مذہبی اور عقیدہ کی بنیاد پر لڑائیوں کو ہوا دی گئی اور بر عظیم ہند دو لخت ہوا۔
نام نہاد آزادی حاصل کیے تہتر سال بیت گئے لیکن ابھی تک بطور قوم ہم منزل کے متلاشی ہیں۔ نہ فکری ہم آہنگی ہے نہ عملی۔محض جذباتی فضا کا ماحول ہے۔نہ تاریخ کا مطالعہ ہے نہ حقیقی دین کا۔ تعلیمی اداروں کے نام پر جمع تفریق کا کھیل ہے نہ شعور ہے نہ عقلی ترقی۔سیاست ایک اکھاڑہ ہے۔ خاندانی لیمیٹد کمپنیوں کا نام سیاسی جماعتیں ہیں۔مفادات کا کھیل جاری ہے اور عالمی مالیاتی اداروں کی شکل میں غلامی کا طوق ابھی گلے میں ہے۔
واضح اور دو ٹوک اعلیٰ نصب العین سے ہی قوموں کی منزل اور جدوجہد کا تعین ہوتا ہے۔خطہ ارض پاکستان گروہیت، نفرت انگیز نعروں اور جذباتیت کی مسموم فضاؤں میں حاصل کیا گیا۔ قومی شعور سے بیگانہ نااہل اور مفاد پرست ٹولہ اس ملک کےسیاہ وسفید کا مالک بنا۔وقتی نعروں کے سائے میں پرورش پانے والا سیاسی کارکن پیش آمدہ مسائل سےبے بہرہ ہے جس سیاسی قیادت کے ذریعے یہ ملک حاصل کیا گیا ان کے بارےمیں بانی پاکستان کوبھی اعتراف کرنا پڑا کہ ان کی جیب میں سارے کھوٹے سکے ہیں۔جب قیادت کا نصب العین ہی مفاد پرستی اور خود غرضی کا ہو تو عملی نظام کی تشکیل کن بنیادوں پر ہوگی؟ وہی انگریز سامراج کے ایجنٹ ،افسر ، جاگیر دار ، سرمایہ دار اور آلہ کار مذہبی طبقہ اپنے اور اپنے آقا کے زیادہ سے زیادہ مفادات کے لیے میدان میں موجود رہتا ہے۔ کبھی مذہب کے نام پر، کبھی روٹی کپڑے اور مکان کے نام پر اور کبھی انصاف کے نام پر سیاست کی جاتی ہے لیکن عوام کی حالت بد سے بد تر ہوتی جا رہی ہے۔
حق و باطل کی پہچان ، ادراک اور شعور ،ترقی کی طرف بڑھنے کا ایک اور اہم اصول ہے کہ جب تک باشعور اجتماعیت پروان نہیں چڑھتی، واضح اورصحیح نصب العین پر رسوخ،حق اور درست نظریہ کی دعوتی عمل سے ابلاغ کی تڑپ اور مشکلات کو جھیلنے کی ہمت کسی جماعت اور قوم میں پیدا نہیں ہوتی تب تک ترقی اور عروج کی طرف جانے کا سفر شروع نہیں ہو سکتا۔پاکستان کی تہتر سالہ تاریخ میں جماعتیں اور باشعور اجتماعیتیں تو قائم نہ ہو سکیں بلکہ جتھے ، ٹولے اور پریشر گروپس وقتا فوقتا پیدا کیے جاتے رہے۔ خاندانی اجارہ داری کی بنیاد پرنام نہاد جماعتوں کے نام پر شعور کے بجائے نعروں ، دعووں اور جذبات کی بنیاد پر نوجوان کواستعمال کیا جاتا رہا۔ تعلیم و تعلم اور تربیت نام کی کی چیز کا کسی جماعت میں وجود تک نہیں ہے۔
نظام کےآلہ کار اداروں اور قوتوں کاعوام پر جبر کے خلاف کوئی ردعمل کا اظہار ہونے لگتا ہے تو نظام ایک نیا چہرہ لے آتا ہے جو پہلے مسلط پارٹیوں اور چہروں کے خلاف ایک ماحول بناتا ہے، ان کی کرپشن گنواتا ہے ، عالمی طاقتوں کا آلہ کار ثابت کرتا ہے اور ایک نئی امید اور کرن عوام کے ذہنوں میں پیدا کرتا ہے لیکن نتائج نے نہ بدلنےہوتے ہیں اور نہ بدلتے ہیں ۔ پاکستان کی تہتر سال کی تاریخ بطور دلیل ہمارے سامنے ہے۔ کئی پارٹیاں بدلیں، کئی چہرے بدلے لیکن حالات جوں کے توں ہیں بلکہ بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ نظام اپنی چالیں بدلتا ہے۔نوجوان نظام سے بےزار ہونے لگا تو ایک نیا آئیڈیل نوجوان کے سامنے لایا گیا۔ بغیر کسی نصب العین اور تربیت کے ممبر سازی مہم چلائی گئی نو جوانوں کو جوش دلایا گیا، جذباتی نعرے ، نظمیں اور ترانے بنائے گئے اور باور کرایا گیا کہ تمام مسائل کی جڑ محض مروجہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے لیڈرز ہیں۔اگر ایک لیڈر ایماندار آجائے تو ملک ترقی کر جائے گا، تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔اس جتھا نما پارٹی کو سیاست کے ایوانوں تک پہنچا دیا گیا۔کوئی واضح نصب العین کے نہ ہونے ، تربیت کے فقدان اور جماعت نہ ہونے کی وجہ سے کبھی ریاست مدینہ کی بات کی جاتی ہے، کبھی مہاتیر محمد کے ملائشیا ماڈل کی بات کی جاتی ہے، کبھی ایران جیسے انقلاب کو ضرورت قرار دیا جاتا ہے اور کبھی چین کے ریاستی ماڈل کا راگ الاپا جاتا ہے لیکن حقیقت اور حالات اب سب کے سامنے ہیں۔ مہنگائی ، بے روزگاری بے لگام ہے، تعلیمی سرگرمیاں ختم ہوتی جا رہی ہیں۔کرپشن کا بازار ویسے ہی گرم ہے، اداروں کی نالائقیاں عیاں ہیں۔ وہی جذباتی نوجوان اب نالاں ہیں ، مایوس اور ناامید ہیں اور اب کسی اور مسیحا اور آئیڈیل کی آمد کے منتظر ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ نوجوانوں کے سامنے نظام کی حقیقت کو کھولا جائے، معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے بنیادی اصولوں کو اجاگر کیا جائے،تبدیلی کےسائنسی طریقہ کار پر نوجوانوں سے ڈسکشن کی جائے ۔ نوجوان کو اس کی اہمیت اور کردار باور کروایا جائے تاکہ وہ کسی مسیحا کے انتظار کے بجائے اس غلامی اور جہالت کے طوق کو اتار پھینکے اور نظام کو بدلنے کی ذمہ داری اپنے کاندھوں پر لے ۔