جاپان ایک نو آبادیاتی شہری کی نظر سے
جاپان دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے۔ جاپانی معاشرہ قدیم جاپانی روایات اور جدید سائنسی ترقی کا حسین امتراج ہے۔
جاپان ایک نو آبادیاتی شہری کی نظر میں
ڈاکٹرمحمد شعیب اختر (ٹو کیو،جاپان)
نور حسین نے اپنے خوابوں کو پورا کرنے کےلیے کچھ دوستوں کے مشورے سے جاپان کا رخ کیا تھا۔ اس کا تعلق پاکستان کے ایک پسماندہ علاقے سے تھا جہاں اس نے ان لوگوں کو بہت باعزت پایا جن کے پاس بہت زیادہ دولت اور وسائل کی فراوانی تھی ۔ سرمایہ دارانہ نظام نے انسانوں کی وحدت کو پارہ پارہ کرکے ان میں طبقات پیدا کردیے تھے۔
چناں چہ محدود وسائل اور غربت، ہمیشہ نور حسین کے خوابوں کی راہ میں آڑے رہی۔ آخر اس نے اس رکاوٹ کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا تھا اور اپنے خوابوں کی تعبیر کےلیے دولت کمانے کی راہ پر گامزن ہوا ۔
آج اس کی نئی زندگی کا پہلا دن تھا جب وہ ٹوکیو ائیر پورٹ پر لینڈ کر رہا تھا۔ آج سے اسے اپنے خوابوں کو پانے کا سفر شروع کرنا تھا ۔ کون سے خواب؟ جی ہاں! بہت زیادہ دولت کمانے کے۔ کیونکہ اس کے ملک میں کسی بھی شخص کی حیثیت کو جانچنے کا یہ ہی ایک پیمانہ تھا۔
لینڈنگ کے دوران ہی نور حسین کو حیرت نے آ گھیرا ۔ یہ کیا ؟!! یہ جہاز تو سمندر پر لینڈ کر رہا ہے !! لیکن پھر اسے رن وے نظر آگیا۔ وہ اس بات پر حیران ہوا کہ کیسے ایک سمندری جزیرے کو ویران چھوڑنے کے بجائے قومی وسیلہ کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے ۔ اس کی حیرانی کے سفر کا یہ صرف آغاز تھا۔ائیرپورٹ سے دفتر تک اور دفتر سے گھر تک اور آئندہ بازاروں میں اور سفر کرتے ہوئے ہر روز شاید اس سے بھی زیادہ حیران کن مشاہدات کرنے تھے ۔یعنی آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔!!!
ائیرپورٹ سے نکلتے ہوئے اس نے دیکھا کہ نہ تو یہاں سکیورٹی کے نام پر لمبی لمبی قطاریں ہیں اور نہ ہی ملکی افرادی قوت کو سکیورٹی اہلکاروں کے نام پر نوکریاں دے کر بے کار بنایا گیا ہے ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ سکیورٹی کا یہ سارا کام روبوٹس، سینسرز اور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی مددسے لیا جاتا ہے جس سے افرادی کھپت کم ہوتی ہے اور پھر وہ افراد ملکی صنعت اور دیگر شعبوں میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔
نورحسین نے اپنے ملک کی بڑی بڑی دیواروں پر"صفائی نصف ایمان ہے." کی تحریر تو کئی بار پڑھی تھی مگر اس کا عملی نمونہ اسے جاپان میں نظر آیا۔ یہاں ہر طرف صفائی ہی صفائی تھی اور گندگی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ اس سے بھی حیران کن بات جو اس نے آنے والے دنوں میں سمجھی کہ ہر شخص یہاں صفائی کو اپنی بنیادی ذمہ داری سمجھتا ہے اور اپنے ملک کی صفائی کا خیال رکھتا ہے۔ ملازمت کے بعد اس کی حیرت مزید بڑھ گئی جب اس نے دیکھا کہ دفتر کا عملہ جس میں اس کا بوس بھی شامل ہے دفتر کی صفائی خود اپنی ذمہ داری سے کر رہے ہیں۔اس حیرت میں نور حسین کے ذہن میں کئی سوالات جنم لے رہے تھے اور وہ سوچ رہا تھا کہ ایسی کیا چیز ہے جو کسی قوم کو ایسا شعور دیتی ہے اور جو اسے عمل کرنے پر بھی مجبور کرتی ہے؟
اس سوال کا جواب بھی جلد ہی مل گیا کہ نظام تعلیم میں یہ سب باتیں نصاب کا حصہ تھیں۔ کیوں کہ جاپانی قوم شنتو اور بدھ مت مذاہب کی ماننے والی ہے۔ اس کی تعلیمات بھی ان کی زندگی کو متوازن رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جاپانی کبھی غلامی کے عذاب سے نہیں گذرے ۔ یوں ان کے قومی عناصر اور قومی توانائیاں بڑی حد تک متحد رہیں ۔
نورحسین کے لیے ہر نیا دن ایک نئی حیرت کا سامان لے کر آتا تھا ۔ اس نے اپنے ملک میں بسوں ٹرینوں میں بہت دھکم پیل دیکھی تھی اور آج صبح سٹیشن پر رش دیکھ کر وہاں بھی وہ اسی کے لیے ذہنی طور پر تیار ہو چکا تھا مگر چند ہی
لمحوں میں یہاں کا ماحول بدل گیا۔ ٹرین آتے ہی دھکم پیل کے بجائے جاپانی عوام قطار بنا کر ٹرین میں جانے لگی ۔نظم و ضبط کی مجسم پیکر اس قوم نے نور حسین کو یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ یہ بدھ مت کی تعلیمات کا اثر ہے یا بادشاہ سے وفاداری کا نتیجہ۔ وہ اس پر بھی فکرمند تھا کہ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے والی مسلمان اقوام۔تقریبا ایک ہزار سال تک دنیا پر حکمرانی کرنے میں کامیاب رہیں۔ لیکن ان مسلمان اقوام کانظم و ضبط کہاں اور کیوں کھو گیا؟ جس کی بنیاد پرا نہوں نے پوری دنیا میں پرامن سیاسی نظام قائم کر رکھا تھا۔ اس کے نتیجے میں فلسفہ وحکمت اور سائنس اور خوش حالی فروغ پذیر تھی ۔
غرضیکہ یہاں کی صنعتی ترقی اور ٹیکنالوجی سے لےکر تعلیم اور صحت کی سہولیات تک اس کو ہر روز حیران کرتی رہیں۔ وہ صرف یہی سوچتا تھا کہ اس کی اپنی قوم کب شعوری بنیادوں پر نظم و ضبط کا مظاہرہ کرے گی تاکہ وہ اپنی اور آنے والی نسلوں کی تقدیر بدل سکے۔ وہ سوچتا تھا کہ یہ وہی قوم ہے جس کے معاشی مراکز کو چند دہائیوں پہلے ایٹم بم گرا کر صفحۂ ہستی سے مٹا دیا گیا تھا۔ وہ یہ بھی دیکھ رہا تھا کہ یہ خطۂ ارض زلزلوں، سونامی، سمندری طوفانوں اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے بھی متأثر ہورہا ہے مگر یہاں اس کو نہ تو نعرے لگاتے سیاسی کارکنان نظر آتے اور نہ ہی قومی وسائل کو لوٹنے والے سیاستدان ۔ یہاں ہر شخص کی سوچ قومی ہے، یہاں ہر شخص اپنی قوم کا وقار بلند رکھنا چاہتا ہے۔ یہاں دفتر میں کام کرنے والا ہر شخص اپنی ذمہ داری مکمل طور پر ادا کرتا ہے اور یہاں کے قانون ساز ایسے قوانین بنانے میں مشغول رہتے ہیں جن سے قوم کی بقا ہے اور جن سے جاپان دنیا کی دیگر قوموں میں ہمیشہ ممتاز رہے۔
پھر اس کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا تھا کہ ایسا سب کچھ اس کے ملک میں کیوں نہیں؟ وہ سوچتا کہ شاید اس کے ملک کے لوگ اس قابل نہیں ، شاید قوم کے نوجوانوں میں اتنی قابلیت نہیں مگر پھر وہ دیکھتا ہے کہ اس کی قوم کے نوجوان دنیا کے ہر کونے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں تو پھر اس کا وطن اتنا پیچھے کیوں ہے؟ اس کا ذہن ایک ہی جواب دیتا کہ اس کی قوم کو اس کے ملک کا نظام کولہو کے بیل کی طرح آنکھوں پر پٹی باندھ کر چلا رہا ہے اور بھولے بھالے لوگ اس ظالمانہ نظام کے کولہو میں چکر کاٹے جا رہے ہیں۔
وہ یہ بھی سوچتا کہ اس کا ملک غلام ہے ائی ایم ایف ، ورلڈ بینک اور امریکا کا۔ ملک کے قومی وسائل پر ملٹی نیشنل کمپنیوں کا قبضہ ہے ۔بڑے بڑے قومی ادارے، ائیر پورٹس بحری اڈے سمندری جزیروں تک گروی رکھے ہوئے ہیں ۔ غلام قوم کی محنت، ترقی، ان کی اپنے لیے نہیں بلکہ غیروں کے لیے ہوتی ہے ، ان کی اپنی کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔بر عظیم پاک و ہند میں مسلمانوں کی 750 سالہ دور حکومت کا نظم وضبط اور عادلانہ نظام ان کے عروج اور آزادی کا بے مثال دور رہاہے ۔
اس نے سوچا کہ اس کی قوم کے نوجوان کو تبدیلی کی یہ ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھانی پڑے گی ، انہیں ایک آزاد قوم بن کر جاپانیوں کی طرح ملک و قوم کی ترقی میں گامزن ہونا پڑے گا ۔ قوم کے نوجوان کو اس ظالمانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑنا ہوگا۔ یہی ایک راستہ ہے جس سے اس کی قوم دنیا بھر میں اعلیٰ مقام حاصل کرسکتی ہے۔