قدرتی آفات اور پاکستان
قدرتی آفات اور ان کی انتظام کاری پر ملک میں قائم نظام کے اثرات کا تجزیہ کیا گیا ھے
قدرتی آفات اور پاکستان
تحریر: عادل بادشاہ
پسماندہ معاشروں کا دانشورطبقہ قدرتی آفات بلکہ بےروزگاری، مہنگائی اور غربت کو الله کے عذاب کا نام دے کرزمینی حقائق کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔جو کام اپنے کرنے کا ہے اسے اللہ تعالٰی پہ ڈال کر حکمران طبقات اپنی ذمہ داریوں سے فرار کا راستہ اختیار کرتا ہے۔غور طلب پہلو یہ ہے کہ عذاب صرف غریبوں پر ہی کیوں آتے ہیں ؟ کیا امیر جو پوش ایریاز میں رہتے ہیں وہ الله کے پسندیدہ ہیں اورپارسا ہیں؟ یا حقیقت کچھ اور ہے؟ آفات کا منظم کنٹرول ( Disaster Management )جو اس صدی کا اہم موضوع بن چکا ہے ۔اس میں ایک اصطلاح ہےکمزور دفاعی صلاحیت (Vulnerability)۔ جس طرح اللہ نے انسان کے جسم میں قوت مدافعت (Immune System) رکھا ہے جو Infection اور بیماریوں کے لیے مقابلے کی قوت دیتا ہے اسی طرح انسانی اجتماع میں اس قسم کی صلاحیت پیدا کی جا سکتی ہے جس کوڈیزاسٹر منیجمنٹ کی زبان میں مشکلات سے نبٹنا) (Resilience کہتے ہیں ۔ قدرتی آفات کے نقصانات اور اثرات کو کیسے کم سے کم کیا جا سکتا ہے ۔ اس کا جائزہ لینے کی بہت سے جہتیں ہیں مثلا سوسائٹی کا مجموعی رویہ ، طرزتعمیر، اداروں میں موجود سہولیات ، تربیت یافتہ افراد ، نظم و نسق، گورنمنٹ کی حکمت عملی ، حکمت عملی کا اطلاق جیسے پہلو اگر کمزور ہوں گے تو اسے کمزور دفاعی صلاحیت کہاجائے گا۔جہاں کمزور صلاحیت ہو گی وہاں تباہی زیادہ ہو گی کیونکہ وہاں انسانی جسم کی طرح سوسائٹی کی قوت مدافعت یعنی (Resilience of Society) نہ ہونے کے برابر ہے ۔آفات کو کنٹرول کرنے کا ایک ماڈل یہ ہے کہ کسی بھی غیرمعمولی صورتحال کے سبب جوحالات کا دباؤ آتاہے اس کو اپنی حکمت عملی سے کم کیاجاتا ہے جسےآفات کادباؤ اور نبٹنے کا طریقہ ) (Disaster Pressure and Release Model کہا جاتا ہے ۔
قدرتی آفات سے نبٹنے کے اور بڑے نقصان سے بچنے میں بنیادی اور اہم کردار معاشرتی نظریات ، افکار اور خیالات کابھی ہوتا ہے۔ جن افکار اورنظریات (Ideology) پر ملک کا پورا سسٹم قائم ہوتاہے۔ نظریہ سوسائٹی کا وہ خیالی نقشہ ہوتا ہے جس پر کسی بھی ملک کا نظام ترتیب پاتا ہے جو کسی بھی معاشرے کے معاشی، سیاسی، سماجی ڈھانچے کی تشکیل میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اگر یہ ڈھانچہ کمزور ہوتو بہت بڑی تباہی کی طرف لے جاتا ہے۔
آفات سے نبٹنے کے لیے چھ اہم عوامل ہیں جو مؤثر طریقے سے کارگر ہوتے ہیں ۔
1۔فرد کا داخلی عزم و حوصلہ((Intra personal determinant
ذاتی حفاظت (Personal Safety)کا ایک دائرہ ہر فرد کےاپنے اختیار میں ہوتا ہے۔ جس کا تعلق فرد کی صنف ، عمراورچاق و چوبند ہونے سے ہوتا ہے۔اس کا تعلق تعلیم و تربیت سے بھی ہوتا ہے۔جس سے فرد کی دفاعی صلاحیت مؤثر ہوجاتی ہے۔ اگر تعلیمی نظام ملک کے تمام لوگوں کی تعلیم و تربیت کا مکمل اہتمام کر رہا ہےتو وھاں کی شرح زیادہ ھو گی اور لوگوں کا شعور بھی بہتر ہوگا ، ایمرجنسی میں ان کی انتظامی مہارتیں بھی بہتر ہوں گی۔ مثال کے طور پر ایمرجنسی ،ابتدائی طبی امداد اوربچاؤ کی مہارتیں انسانی جانوں کو بچا سکتی ہیں مثلا اگر کسی کے دل کی دھڑکن تعطل کا شکا ر ہوجائے ٌٌٗٗ{Cardio Pulmonary Resuscitation (CPR)} یا سانس رک جائےRespiratory System or Circulatory System تو ایک تربیت یافتہ فر د دوسرے کو بحالی میں مدد دے سکتا ہے ۔
2-باہمی تحفظ کا عزم اور حوصلہ Inter- personal determinant
اس میں ایک فرد کے گردو پیش کا ماحول آ جاتا ہے ۔اس ماحول پر معاشرے میں قائم اجتماعی نظام کے گہرے اثرات نقش ہوتے ہیں جس میں آپ کا گھر ،عزیزو اقارب اور محلہ آجاتا ہے۔ اس سطح پر عموماً چھوٹی چھوٹی کمیٹیاں بنی ہوتی ہیں۔ جو علاقے کے ماحول اور تقاضوں کے مطابق تشکیل دی جاتی ہیں ۔ جو محدود سطح پر ہنگامی حالت سے نبٹنے میں کردار اداکرتی ہیں۔ اس طرح کی کمیٹیاں دستیاب وسائل اور تربیت کے مطابق کام کرتی ہیں ۔جن معاشروں میں آفات سے نبٹنے کا مربوط نظام نہیں ہوتا بالخصوص پسماندہ ممالک ایسی احتیاطی تدابیر کو اختیار نہیں کرتے جس کے سبب حادثہ کی صورت میں نقصان زیادہ ہوتا ہے اورلوگ چاہ کر بھی ایک دوسرے کی مدد نہیں کرپاتے۔ کمیونٹی کی سطح پر تنظیم سازی اور پھر ان کی ایمرجنسی مینجمنٹ کی صلاحتوں میں اضافہ آفات کے اثرات کو کم کر سکتا ہے۔
3- اجتماعی عزم و حوصلہ:(Community level Determinant)
لوگ جس اجتماعیت اورجغرافیہ میں رہتی ہیں ان کے باہمی میل جول اور ثقافتی اقدار( cultural values) اور شعوری رویہ بھی آفات کو کنٹرول کرنے میں اہم ہوتا ہے۔ یعنی اپنے خطے کے حوالے سے خطرات ( Hazards) کی جانکاری اوراس سے نبٹنے کے لیے قبل از وقت اقدامات کا اہتمام ہوتا ہے اور اس پر باقاعدہ منظم شعبہ قائم کیا جاتا ہے ۔مقامی سطح پر آفات کی منصوبہ بندی اور ضلعی سطح پر ایمرجنسی کے اداروں کے ساتھ رابطے مقامی سطح پر آفات سے نبٹنے کے عمل میں مؤثر ہوتے ۔
4-حکومتی ، اداراجاتی اقدامات( Governmental institutional determination)
قدرتی آفات میں گورنمنٹ کے ادارے بنیادی اور اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ وہ عوام کے لیے موسمی تغیرات (climate change )سے آگاہ کرنے کا نظام بناتے ہیں ۔عوامی تحفظ اور املاک کے تحفظ کی پالیسیاں لاگو کرتے ہیں ۔ عوامی شعور بےدارکرتے ہیں۔ اگر گورنمنٹ کے ادارے ہر سطح پر مختلف خطرات سے نبٹنے کی دفاعی صلاحیت {Multi-Hazard Vulnerability and Capacity Assessment (MHVRA)} کی مشقوں کا اہتمام کریں توقبل از وقت تحفظ ( ُ(Prevention، تیاری(ُ(Preparedness، کر کے خطرے کو کم کرنے (Risk Mitigation)کے لیے اقدامات کیے جاسکتے ہیں۔
4-قومی سطح پرعزم و حوصلہ ( Macro level determinant)
اس عمل کا تعلق قومی پالیسیز کے ساتھ ہے۔ کیا وہ عوام دوست ہیں؟ یاعوامی استحصال پر مبنی ہیں ؟ تعلیم ، صحت ، زراعت ، تجارت ، روزگار ، موسمیاتی تبدیلی کے متعلق پالیسیاں آفات کے خطرات کو پیش نظر رکھ کر بنائی گئی ہیں؟ جس سے ملک کے تمام لوگ یکساں طور پر مستفید ہو سکتے ہوں ۔ قومی سطح پر بنائی گئی پالیساں اور ان کا نفاذ آفات کنٹرول کرنے والے ادارں کو مضبوط بنا سکتا ہے۔ پاکستان میں بھی آفات کو کنٹرول کرنے کا ایک طریقہ کار (Framework) ڈیزائن کیا گیا جس کے لیے قومی سطح پر National Disaster Management Authority (NDMA) قائم کی گئی ہے ۔ اسی طرح صوبائی سطح پر Provincial Disaster Management Authority (PDMA) اور ضلعی سطح پر District Disaster Management Authority (DDMA) قائم کی گئی ہے۔ ان اداروں کی کارکردگی کے اثرات مقامی سطح تک جائیں گے۔ ان اداروں کے اقدامات کے پاکستان کے سماجی ڈھانچہ کی روشنی میں مثبت اور منفی اثرات کا تعین مذکورہ بالا معیارات کی روشنی میں کیا جاسکتا ہے۔
5-نظریاتی پختگی (Ideological Determinant)
نظریہ (Ideology)کسی بھی سوسائٹی کا خیالی نقشہ ہوتا ہے ۔نظریہ قومی سطح پر معاشی ، سیاسی ، عدالتی اور تعلیمی نظام کی تشکیل میں بنیادی اور رہنماکردار کرتا ہے۔آفات کی صورت میں آنے والا دباؤ اوراس مشکل سے نبٹنے کا طریقۂ کار نظریہ کی نشان دہی کرتا ہے آفات کا کنٹرولنگ سسٹم طبقہ اشرافیہ تک محدود ہے یا تمام لوگوں کی حفاظت کا یکساں نظام ہے۔اگر وہ نظام ایک مخصوص طبقہ کو فائدہ دے رہا ہے تو یہ کمزور دفاعی صلاحیت کا اظہار ہے جس کے نتیجے میں کمزور طبقہ ہمیشہ غربت، بےروزگاری، جرائم اور قدرتی آفات کا شکار رہتے ہیں جس کے سبب انفرادی ، اجتماعی،قومی ساکھ کمزور ہوتی ہے جوانسانی مثبت رویوں کو پست کردیتے ہیں۔یوں آفات کی صورت میں آنے والا دباؤ انفرادی، اجتماعی دفاعی صلاحیت کمزور ہونے کے سبب مسائل میں اضافہ ہوجاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ حکمران اور دانشور قدرتی آفات کو عذاب الہی قرار دے کر تمام گناه غریبوں پر ڈال دیتے ہیں ۔جس سے وہ اپنی نااہلی اور ملکی وسائل پر اجتماعی حقوق سے گمراہ کردیتے ہیں۔ یوں اک غلط نظریہ پر قائم نظام کو تحفظ مل جاتا ہے ۔سماجی ترقی کے لیے ضرورت محسوس ہوتی ہےکہ اس کمزور نظام کو جوسیاسی، معاشی، سماجی، تعلیمی اور ادارہ جاتی طور پر طبقاتیت اور سماجی اونچ نیچ اور تقسیم پر کھڑاہے،کو تبدیل کریں۔ کسی اجتماعی انسانی نظریہ کی بنیاد پرمعاشرے کو منظم کریں۔ایسے منظم نظام کے ذریعے ہی ملک کو قدرتی آفات کے ممکنہ جانی ، مالی اور ماحولیاتی نقصانات سے حفاظت ممکن ہو سکتی ہے۔