پاکستانی سماج کی ابتر صورتحال اور چند تجاویز
تحریر: عا دل بادشاہ۔ مانسہرہ
ہمارا سماج گزشتہ سات دہائیوں سے بدترین انسانی و اجتماعی بحران کا شکار ہےاور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مسائل میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔یوں تو پاکستان میں بننے والی حکومتیں عوام کو ہر پانچ سال بعد کچھ نئے خواب دکھا تی ہیں لیکن ہر حکومت کے ابتدائی چند سال گزشتہ حکومتوں کے اقدامات کی نوحہ خوانی میں گزرتے ہیں پھراس کے بعدمسائل میں کمی کے بجائے اضافے کی وجہ سے برسراقتدار پارٹی سے وابستہ عوامی امیدیں دم توڑنے لگتی ہیں اور مایوسی پھیلنا شروع ہوتی ہے۔عوام کی اس صورتحال سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرانے مداری نئے کرتب لے کر میدان میں آجاتے ہیں اور بے شعورعوام ایک دفعہ پھر انہی لوگوں سے امیدیں وابستہ کرلیتی ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد دوبارہ مایوسی کی ایک نئی لہر کا آغاز ہو جاتا ہےاور یوں تاریخ خود کو دوہرانا شروع کردیتی ہے۔بقول ایک معروف صاحبِ فکر شخصیت، ہماری قوم کو ہر پانچ سال بعد امید کےایک نئے پہاڑ پر چڑھایا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصے بعد مایوسی کے عمیق سمندر میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
موجودہ حکومت بھی عوام، خاص طور پر ہماری نوجوان نسل کو نہ جانے کیا کیا خواب دکھا کر اقتدار میں آئی تھی لیکن پھر ڈھاک کے وہی تین پات، کہ حکومت کا عوام کو ریلیف دینے میں ناکامی کی وجہ سے عوامی بیزاری محسوس کی جانے لگی ہے۔اور ساتھ ہی ہر دفعہ کی طرح اپوزیشن کی پارٹیاں پوری ڈھٹائی کے ساتھ عوام کی مسیحائی کے دعوے کرتے ہوئے میدان میں کود پڑی ہیں۔افسوس!کہ عوام کو ایک بار پھر سےبے وقوف بنانے کے عمل کا آغاز کردیا گیا ہے۔لیکن اگرموجودہ حکومت واقعی سوسائٹی کو بہتر کرنا چاہتی ہے اور عوامی مسائل کو کسی درجے میں حل کرنا چاہتی ہے تو اسے فوری طور پر درج ذیل اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔
1. سب سے پہلے ملٹی نیشنل کمپنیز کے ساتھ ملکی مفاد میں نئے معاہدات کرنے کی ضرورت ہے۔مثال کے طور پر جیسے IPP اور RPP کے ساتھ موجود بجلی کے معاہدوں کے مطابق ہمیں بہت مہنگی بجلی خریدنا پڑ رہی ہے۔یہ کمپنیاں گزشتہ 14 سالوں سے بجلی کی مد میں تقریبادو ارب ڈالر کاسالانہ منافع باہر لےکر گئی ہیں جبکہ پاکستان نے مزید36 ارب ادا کرنے ہیں۔ہم اگر یہی معاہدے ایران اور چین کے ساتھ کرلیں توہمیں نسبتاً سستی بجلی مل سکتی ہے۔اسی طرح رکوڈیک اور سنڈک جو اس مملکت کے غریب عوام کا اثاثہ ہے، پچھلی حکومتوں نے اس کا ٹھیکہ لیز پر ملٹی نیشنل کمپنیز کو دیا ہواہےجوکہ سارا منافع خود وصول کررہی ہیں اوربطور کمیشن کچھ رقم حکومت کو بھی ادا کردی جاتی ہے۔ اسی طرح دوسری بہت ساری ملٹی نیشنل کمپنیزبھی ہیں۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان کمپنیوں کو پابند کیا جائے کہ وہ اپنے اثاثوں کاکم ازکم 3% پاکستان کی ترقی کے لیے وقف کریں تو اس سے بھی ایک خطیر رقم قومی ترقی میں کام آسکتی ہے۔آپ دیکھیے کہ صرف Nestle کمپنی 8 لاکھ لیٹر فی گھنٹہ کے حساب سے پانی استعمال کر رہی ہے ،جی ہاں! آٹھ لاکھ لیٹر فی گھنٹہ ۔اب یہ ایک کمپنی سرکار سے محض پچیس پیسہ فی لیٹر پانی خرید کر 60 روپے فی لیٹر بیچتے ہیں گویاقیمتِ فرخت قیمتِ خرید سے 200 گُنا زیادہ ہے ۔
2. پاکستان میں معیشت بند پالیسی ضروری ہے یعنی وہی انڈسٹری لگائی جائے جس کی پاکستان کی عوام کی ضرورت ہے۔
3. ٹیکس چوری ایک ایسا جرم ہے کہ جوممالک کو معاشی طور پر کمزور کرنے کا باعث بنتا ہے۔اعداد و شمار کی رو سے پاکستان میں کم از کم 40لاکھ پاکستانیوں کو ٹیکس دینا چاہیےمگر صرف پانچ لاکھ پاکستانی ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ ان پانچ لاکھ پاکستانیوں میں سے بھی کئی لوگ پورا ٹیکس نہیں دیتے۔ ایسے لوگوں کی اکثریت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان میں ٹیکس جمع کرنے والے سب سے بڑے ادارے، ایف بی آر کے افسر اور کارندےوغیرہ کرپٹ ہیں اس لیے وہ پورا ٹیکس ادا نہیں کرتے اور پھر 90% فیصدٹیکس تو غریب عوام کی جیب سے کھانے پینے اور روزمرہ استعمال کی اشیاء پر سے وصول کیا جاتاہے۔اس لیے ایک ایسے صاف و شفاف ٹیکس ریفارم سسٹم کی ضرورت ہے کہ جس میں ٹیکسز کا بوجھ غریب طبقے پر سے ہٹا کر امیروں پر عائد کیا جائےاسی طرح اشیائے صرف پر بالواسطہ ٹیکسز میں کمی کی جائے جس کا سراسر بوجھ سوسائٹی کے عام افراد پر پڑتا ہے۔
4. اسی طرح ایک رپورٹ کے مطابق 1990 ءسے2015ء تک 4کھرب 30 ارب روپے کے اندرونی قرضے معاف کیے گئے ہیں اور اب تک یہ سلسلہ جاری ہے۔اس لحاظ سے ایک ایسی جاندار پالیسی کی ضرورت ہے جس کے نتیجے میں اس عمل کی روک تھام کی جاسکے۔
5. قومی خزانے پر سے غیر پیداواری اخراجات کا بوجھ کم کرنا نہایت ضروری ہے۔خاص طور پر منتخب نمائندوں اور بیوروکریٹس کو ملنے والی بےتحاشا مراعات اور بیوروکریسی کی وسیع وعریض رہائش گاہوں پر آنے والے اخراجات کوبھی محدود کیاجانا بہت ضروری ہے۔
6. بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانی جوکہ 20 ارب ڈالر سالانہ بھیجتے ہیں، اس کو مزید بڑھانے کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع فراہم کیے جاناضروری ہیں۔خاص طورپر پیداواری عمل کے فروغ کے تناظر میں معاشی سرگرمیاں پیدا کی جانی ضروری ہیں۔
7. پاکستان میں زرعی اصلاحات (Land Reforms) کے ذریعے بھی ایک اندازے کے مطابق کم از کم 9 ہزار ارب روپے اضافی حاصل ہونے کی امید ہے کیونکہ پاکستان کا کثیر علاقہ زرعی اراضی پر مشتمل ہے۔پاکستان کا 2017 ءکا کلGDP کوئی 35ہزار ارب روپے کا تھا۔ جس کا 21 فیصد تقریباً 7 ہزار ارب سے زائد کی آمدنی زراعت سے ہوئی۔ پاکستان کی کل 7 کروڑ کی لیبر فورس کا 45 فیصدیعنی تقریباً 3 کروڑ سے زائد افراد زراعت سے وابستہ ہیں۔ پاکستان کی کل 80 ملین ہیکٹرز زمین میں سے قابل کاشت رقبہ 21 ملین ہیکٹرز سے زائد ہےاور باقی زمین آبادی، جنگلات اور جانوروں کی چراگاہوں اور بنجر رقبے پر مشتمل ہے۔ 80 فیصد قابل کاشت زمین کو نہری پانی سے سیراب کیا جاتا ہے۔
پاکستان کی 21 ملین ہیکٹرز قابل کاشت زمین میں سے تقریباً 8 ملین ہیکٹرز فارم لینڈ ہے جہاں سے ٹیکس ریونیو اکٹھا ہوتا ہے۔ باقی 13ملین ہیکٹرز وہ زمین ہے جہاں کاشتکاری کا عمل انتہائی محدود ہے اور زیادہ ترواجبی سی کھیتی باڑی ( subsistence farming)ہو رہی ہے۔2017ء میں FBR نے تقریباً 4 ہزار ارب روپے کا ٹیکس ریونیو اکٹھا کیا اس کا صرف 1 فیصد تقریباً 40 ارب روپے زراعت سے اکٹھا کیا گیا۔ اگر اس 40 ارب کو 8 ملین ہیکٹرز فارمز پر تقسیم کیا جائے تو اس حساب سے 270 روپے فی ایکڑ ٹیکس وصول کیا گیا۔ پاکستان کا وہ سیکٹر جہاں 7 ہزار ارب روپے سے زائد کی پیدائش دولت ہوئی اس سیکٹر سے صرف 40 ارب کا ٹیکس ریونیو اکٹھا کیا گیا۔ اگر حکومت کل ٹیکس ریونیو کا 20 فیصد (کیونکہ زراعت کل GDP کا 20فیصد ہے) بھی زراعت سے اکٹھا کرے تو یہ 800 ارب روپے بنتا ہے یعنی اگر حکومت زرعی سیکٹر پر Marginal سا بھی ٹیکس لگا دےتو اس سیکٹر سے ایک سال میں 800 ارب روپے کا ریونیو اکٹھا کیا جا سکتا ہے ۔
پاکستان میں Land Distribution کچھ ایسے ہے کہ پاکستان کی قابل کاشت زرعی زمین جو 21 ملین ہیکٹرز پر مشتمل ہے اس زمین کے 64 فیصد حصے کے مالک پاکستان کے صرف 5 فیصد فیوڈل خاندان ہیں جو نہ خود کاشت کرتے ہیں اور نہ کسی کو صحیح طور پرکاشت کرنے دیتے ہیں۔
دوسری طرف 63 فیصد کسان ایسے ہیں جو بے زمین ہیں اور وہ زیادہ سے زیادہ ان فیوڈلز کی زمینوں پر کام کرتے ہیں۔ اب اگر پاکستان میں زرعی اصلاحات کے ذریعے قابلِ کاشت زمینیں اس لینڈ مافیا سے واگزار کراکر محنت کش طبقے کی دسترس میں آ جاتی ہیں تو اس کے نتیجے میں زمین کے اکثریتی حصے پر commercial farming کا آغاز ہوسکےگا کیونکہ زرعی اصلاحات کی وجہ سے زمین ،فیوڈلز کہ جو اس زمین پر سانپ بن کر بیٹھے ہیں، کے قبضے سے نکل کر کسان کی ملکیت میں آ جائے گی۔ اگر یہ زمین 63 فیصد بے زمین کسانوں میں تقسیم کر دی جائے تو صرف ایک سال میں پیداوار دوگنی ہو جائے گی۔کیونکہ اگر ہم آج 8 ملین ہیکٹرز سے7 ہزار ارب کی دولت سالانہ پیدا کر سکتے ہیں تو 21 ملین ہیکٹرز سے سالانہ 14 ہزار ارب روپےتو بآسانی پیدا کیے جا سکتے ہیں اور اگر زرعی آمدن پر marginal سا ٹیکس بھی لگا دیں تو 2 ہزار ارب روپے مزید صرف ایک سال میں پیدا کیے جا سکتے ہیں گویا ان اصلاحات کی بدولت اگلے سال حکومت کو کم از کم 9 ہزار ارب روپے اضافی حاصل ہونگے۔ اب آپ دیکھیے کہ ایک بھاشا ڈیم کی تعمیری لاگت 1 ہزار ارب روپے ہے اس حکمت عملی سے ہم 9 بھاشا ڈیم بنا سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اس رقم سےبہت بڑے بڑے پیداواری منصوبوں کا آغاز کیا جاسکتا ہے جس کے نتیجے میں سوسائٹی میں عوامی خوشحالی کی کئی صورتیں پیدا ہو سکتی ہیں۔
8. ہماری پولیس1861ء کے برٹش ایکٹ کے تحت کام کررہی ہے۔یہ ایکٹ دراصل برطانیہ نے ہندوستان کو غلام بنانے اور عوام کو ذلیل و خوار کرنے کے لیے ترتیب دیا تھا۔ برصغیر پر برطانوی حکمرانی کی تاریخ کا اگر گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آتی ہے کہ کس طرح اس ادارے کو عوامی مفاد کے خلاف اور برطانوی سامراج کے تسلط کو برقرار رکھنےکے لیے استعمال کیا گیا تھا اور اسےخطے کے عوام میں خوف وہراس پھیلا کر آزادی پسند تحریکات کو ناکام بنانے کاکام اس ادارے سے لیا گیا۔بدقسمتی سے آج بھی ہمارا یہ ادارہ معاشرے میں دہشت کی علامت بنا ہوا ہے۔آج بھی عوام تھانے کے نام سے خوف کھاتے ہیں اورآج بھی طاقتور سرمایہ و جاگیردار اسے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔
اس لیے آج کی ایک بنیادی ضرورت یہ بھی ہے اس پولیس ایکٹ کو تبدیل کیا جائےاور عوامی فلاح و بہبود اور تحفظ کے نقطۂ نظر سے عوامی شمولیت کی اساس پر اسے از سرنو تشکیل دیا جائے تاکہ یہ ادارہ طاقتور کے ہاتھ میں کھلونا بننے کے بجائے عوام کو امن و تحفظ فراہم کرنے کا ذریعہ بنے۔
9. اسی طرح ہمارے ہاں کوڈ آف کریمنل پروسیجر 1898ءاور پاکستان پینل کوڈ 1860ءنافذ ہے اور یہ بھی ہمارے ہاں دور غلامی کی باقیات میں سے ہےجس کا مقصد اس دور میں عوام کو انصاف کی فراہمی نہیں تھا بلکہ انھیں مقدمات میں الجھا کر رکھنا مقصود تھا۔یہی وجہ ہے کہ اس دور سے لے کر آج تک جس انداز سے مقدمات چلتے ہیں اور ان کے پروسیجرز جتنے مشکل بنائے گئے ہیں اس کے نتیجے میں اکثر اوقات تو مقدمات کا فیصلہ ہو کر ہی نہیں دیتا۔ایک ایک مقدمے کو کئی کئی نسلیں بھگتی ہیں لیکن وکلاء کو بھاری بھاری فیسیں دینے کے باوجود انصاف کا حصول ممکن نہیں ہوتا۔بعض اوقات تو کئی کئی سال سزا گزارنے کے بعد کسی فرد کے بارے میں پتہ چلتا ہے کہ وہ بے گناہ ہے۔اس طرح کی دردناک کہانیاں آئے روز ہمارے میڈیا میں آتی رہتی ہیں۔پھر ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جرائم کی روک تھام (Deterrence)پر سزاؤں کے ذریعے زیادہ زور دیا جاتا ہے جبکہ اصلاح یا بحالی (Rehabilitation) کی گنجائش بہت کم ہے۔اس کے ساتھ ساتھ مختلف جرائم مثلاً بچوں کے جرائم ( juvenile delinquency) کو بھی دیگر جرائم psycho-pathic, professional یاhabitual criminals کےساتھ ایک ہی طرح دیکھا جاتا ہے۔
اب اس کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے تو سستا انصاف ہر فرد کو فراہم کیا جائے اور اگر کوئی شہری اپنے مقدمے کی پیروی نہیں کرسکتا تو ریاست اسے وکیل فراہم کرے ۔پھر مختلف نوعیت کے مقدمات کے لیے Deterrence اور Rehabilitation کی الگ الگ قانون سازی کی جائےاور اسی کے ساتھ ساتھ کیسز کو حل کرنے کی مدت کا تعین ضرور کیا جائے تاکہ حقیقی معنوں میں عوام انصاف کی فراہمی ممکن بنائی جاسکے ۔
10. ہمارے ہاں ایک مسئلہ ناجائز ذرائع سے قومی دولت کی باہر منتقلی بھی ہے جیسا کہ اکتوبر 2013ء کوجاری ہونے والے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر یاسین انور کے بیان کے مطابق ڈھائی کروڑ ڈالر ہر روز پاکستان سے باہر ’’سمگل‘‘ کیے جارہے ہیں، یہ رقم 9 ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے جو آئی ایم ایف کے ایک، تین سالہ بیل آؤٹ پیکج سےبھی ڈیڑھ گنا زیادہ ہے ۔اس کے لیے بھی ضروری قانون سازی کے جائے نیز متعلقہ اداروں کی کارکردگی کو بہتر بنا کر اس عمل کی روک تھام کی جائے تاکہ ہمارے ہاں معاشی سرگرمیاں بھی سانس لے سکیں اور اس کے نتائج بحق عوام ظاہر ہو سکیں۔
11. تعلیم اور صحت انسانی بقاء اور ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ہمارے ہاں یہ دونوں شعبے بڑ ی تیزی سے پرائیویٹ سیکٹر کی طرف منتقل ہو چکے ہیں اور بدقسمتی سے ان دو شعبوں میں بھی سرمایہ پورے زورو شور سے راج کررہا ہےجس کے نتیجے میں ہر گزرتے دن کے ساتھ یہ دونوں انسانی ضرورتیں عوام کی دسترس سے باہر ہوتی جارہی ہیں۔اس لیے یہ ضروری ہے کہ ان دونوں شعبوں کو فوری طور پر ریاستی تحویل میں لے کر شفافیت اور جوابدہی کی بنیاد پر جدید سسٹم استوار کیا جائے تاکہ ذہنی و جسمانی طور پر توانا انسانی وسائل میسر آتے رہیں اور سوسائٹی کے تمام شعبہ جات اس انسانی قوت عاملہ کے نتیجے میں ترقی کی جانب گامزن ہو سکیں۔
اب ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم حکومتوں اور پارٹیوں کی سنجیدگی اور استعداد کو مذکورہ بالا اقدامات کے تناظر میں دیکھیں ،کیونکہ تہتر سال ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی محض نعروں اور دعووں کا اسیر ہو جانا ایک سمجھدار انسان کے شایانِ شان نہیں ہے۔لہٰذا یہ ہماری اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہم سوسائٹی کےحقیقی مسائل کو سمجھیں ، ان کے اسباب کا تعین کریں اور ان مسائل کے حل کے لیے اپنا قومی و اجتماعی کردار ضرور ادا کریں۔
حوالہ جات:
(Society For Conservation and Protection of The Environment, SCOPE Report 2016
( ٹی وی چینل انٹرویو ڈ اکٹر کلیم اللہ )