سب سسٹم کی خرابی ہے
علم و آگہی سے معمور ہر ذی استطاعت شخص جب بھی ملکی مسائل پر غور و خوض کرتا ہے تو اس کے سامنےدرپیش استغاثہ یہ ہی رہتا ہے۔۔۔
سب سسٹم کی خرابی ہے
تحریر: سعید احمد پھلپوٹو، خیرپور
علم و آگہی سے معمور ہر ذی استطاعت شخص جب بھی ملکی مسائل پر غور و خوض کرتا ہے تو اس کے سامنےدرپیش استغاثہ یہ ہی رہتا ہے کہ:
وطن عزیز اسلامی ریاست ہونے کے باوجود اس کو دنیا میں قدر و منزلت حاصل کیوں نہیں؟ گروہیت اور فرقہ بندی کی اصل وجوہات کیا ہیں؟ صاحب ثروت اور بے زر کے لیے الگ الگ قانون کیوں ہے؟
ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہوتے ہوئے غربت و افلاس سے دوچار کیوں ہے؟ عدل و انصاف، مساوات، رواداری اور امن و امان نیست و نابود کیوں ہے؟
اور روزگار کے ذرائع تمام افراد کے لیے یکساں بنیادوں پر میسر کیوں نہیں؟
بنیادی تعلیم سب کا حق ہوتے ہوئے سب کو میسر کیوں نہیں؟
صحت کے نظام کی خستہ حالی کے اصل محرکات کیا ہیں؟
رشوت ستانی، بدعنوانی، جھوٹ، فریب دہی جیسی بد اخلاقی معاشرے میں کیوں سرایت کر رہی ہے؟
ایسے کئی سوالات ہر عام و خاص میں جنم لیتے ہیں، اس پر افراد کھل کر لب کشائی بھی کرتے ہیں، نکتہ چینی اور بحث مباحثے سے ماحول بھی گرم کر لیتے ہیں۔
مسطورہ بالا بیان کردہ ملکی مسائل کے حل میں ان افراد کا زاویہ نظر تقریباً یکساں ہوتا ہے. کیوں کہ ان کی ذہنی صلاحیت اور استعداد نصاب میں پڑھائے گئے علم اور میڈیا کے زریعے بنائے گئے رجحانات کے مطابق ہوتی ہے۔
مسائل کی کثرت اور پیچیدگیوں سے گھبرا کر کچھ افراد اس طرح سوچنا شروع کرتے ہیں کہ ہر فرد گناہوں سے کنارہ کشی اختیار کر کے سچا پکا مسلمان بن جائے، اصولی طورپریہ بات درست ہے کہ ہر فرد اوصاف حمیدہ اپنے آپ میں پیدا کرلے، اور گناہوں سے اپنے آپ کو محفوظ بنالے، بےشک بار بار توبہ کرنے سے اللہ تعالی کو راضی کیا جاسکتا ہے،لیکن سوچنا یہ ہے کہ کیا کچھ رسمی نیک اعمال کی انجام دہی اختیار کرنے سے آخرت کی منزل آسان ہو جاتی ہے، ہم نے کبھی سوچا کہ محض بد اخلاقیوں سے دور رہنے سے ایک مسلمان کس حدتک کامیابی کی راہ پا سکتا ہے۔ اسی طرح عاقبت درست کرنے کی یہ کاوشیں کس درجے کی ہیں۔
تاریخی حقائق اور سیرت النبی سے ادھوری واقفیت، مقاصد نبوت سے اعراض اورغلبہ دین کا نظریہ نہ ہونے کے باعث وہ تجزیہ اور تکراری بحث و مباحثہ مایوسی اور انتشار میں تبدیل ہوجاتا ہے۔
معاشرے میں اسلام کا جو محدود تعارف پیش کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے مضمرات پر متوجہ ہونا اس حوالے بہت اہمیت کا حامل ہے کہ ظلم و جور کے حاملین کا دامن مزید پھیل رہا ہے اجتماعیت سے فرد کو کاٹا جارہا ہے اپنی ذات کو درست کرنے کی وعظ و نصیحت ہر مسجد کے ممبر پر عام ہے۔لیکن ایک ہمہ گیر آفاقی اور انسان پرور دین اسلام کا مکمل تعارف نا ہونے کی وجہ سے تمام مکاتب فکر کا رجحان محض ذات اور نفس کی ترقی پر لگا ہوا ہے۔
12 سو سالہ مسلمانوں کا دور عروج جو اعلی انسانی اقدارکا حامل اورترقی کن سیاسی، معاشی اور اخلاقی نظام کا مظہر تھا،یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ مسلمانوں کے سیاسی زوال کے نتیجے میں سیاسی، معاشی اوراقتصادی انحطاط سے دنیا کوبہت بڑا خمیازہ بھگتنا پڑاہے. ہمارے خطے کو بھی ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد سے لےکر دورِ تاج برطانیہ تک غارت گری، لوٹ کھسوٹ اور ملکی وسائل پر قبضہ جمائے رکھنے کے نتیجے میں سیاسی معاشی اور اخلاقی نقصان برداشت کرنا پڑا۔
انسان پیدائشی طور پر سلیم الفطرت طبیعت پر رہا ہے. انسان کی فطرت متقاضی رہتی آئی ہے کہ ان کو امن، عدل و انصاف، مساوی تعلیم، روزگار کے مواقع، صحت کی ضروریات بہم پہنچائی جائیں اور ان کو اظہار رائے آزادی ہر آن میسر ہونی چاہیے۔
انسانی سماج کا عقلی منہج پر اور درست تجزیہ کرنے سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ جن معاشروں میں سیاسی، معاشی اضمحلال اور ابتری نے ڈیرا ڈالا وہاں پر انفرادی طور پر لاکھ کوشش کرنے کے باوجود اس سماج نے ارتقاء کی کروٹ نہیں بدلی، کیوں کہ اشرافیہ طبقے کی طاقت پورے نظام پر غالب رہنے سے عوام الناس اس قائم کردہ ظالم سسٹم کا حصہ ہوتے تھے۔
دنیا کا ہر معاشرہ کسی نا کسی فکر و فلسفہ یا نظریہ پر منحصر ہوتا ہے جتنا اچھا بہتر اور فطرت شناس نظریہ ہوگا خارجیت میں وہ اتنا بہتر اور دور رس اثر چھوڑتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہمارا سماج اسلام سے تعلق رکھتا ہے، اس ملک کا معاشی و اقتصادی نظام بھی قرآن و سنت کے اصولوں پر ہونا چاہیے تھا. لیکن بد قسمتی سے یورپ کے فلسفیوں اور دانشوروں کا خود ساختہ سرمایہ داریت پر مبنی ایک غیر فطری اور غیر منطقی نظریہ معاشرے میں سرایت کرنے سے آدھا تیتر آدھا بٹیر کی مانند ہم پر غالب ہے، جس سے اس نظام سے جہاں چند مٹھی بھر طبقے کی چاندی ہے تو وہیں مخصوص خاندان ریاست کے اہم عہدوں اور مقامات پر تعینات ہیں۔ سیاست کے دروازے ان طاقتور طبقات کے لیے کھلے ہیں تجارت اور صنعت کاری میں وہی مخصوص طبقہ حاوی ہے، اسی طرح ٹاپ بیوروکریسی پر بھی اسی طبقے کے افراد متمکن ہیں۔
اسی استحصالی نظام نے ہندستان کے عہد غلامی میں مفادات کی خاطر مذہب کی شناخت دھندلی پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کی، نئے نئے فرقے متعارف کرائے، مذہب کو مذیب سے لڑایا، نفرتوں کا بیج بویا چھوٹی چھوٹی گروہیتیں عمل میں لاکر آپس میں گتھم گتھا کی فضا کو پروان چڑھایا گیا۔
آج بھی شعوری نگاہ سے دیکھا جائے تو اسی برطانوی دور کی غلامانہ روش کا مظاہرہ بڑی عیاری اور چالاکی سے کیا جارہا ہے. نوجوانوں کو ففتھ جنریشن کے بھیانک عزائم سے سوشل میڈیا کے ذریعے سے فضول، لغو اور جزوی مسائل میں الجھا کر دبے پاؤں منظم مقاصد حاصل کیے جارہے ہیں۔
نوآبادیاتی غلامی کے زمانے میں تعلیم کا مقصد جو متعارف کرایا گیا اس کا ایک اہم سبب نظام کی ضرورت پوری کرنے اور سول سرونٹ کا مخصوص طبقہ پیدا کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا تھا۔عقل و شعور کی بڑھوتری میں تعلیم کا شعبہ کلیدی اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔علم کے حصول کو محض ڈگری یا نوکری کے حصول کا ذریعہ بنانے سے شعوری حصہ کا خاتمہ ناگزیر ہوجاتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ملک کی خدمت کے بجائے نوجوان بیرون ملک جاکر اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔
ہمارے مسلم دور عروج میں کبھی بھی تعلیم دین اور دنیاوی بنیادوں پر منقسم نہیں رہی ہے. یہاں تک کہ برصغیر پاک و ہند کی مسلم دور حکمرانی میں بھی عصری اور دینی تعلیم ایک ہی مکتب میں حاصل کرنے کی روایت ہمیں واضح ملتی ہے۔آج تعلیم کو کاروبار کی بھینٹ چڑھا کر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جارہا ہے، تعلیم کا مقصد دولت اور شہرت کمانا ٹھہر گیا ہے، کامیابی کا انحصارصلاحیت کے بجائے رٹّے پر ہے، علاوی ازیں جو کچھ علم دیا جارہا ہے، وہ کتابی دنیا تک محدود ہوتا ہے خارج میں اس کا اطلاق یا اثر طالبعلموں میں کہیں پر بھی نظر نہیں آتا۔
اسی طرح ریاست کے اہم شعبے صحت کا حال بھی دگرگوں دکھائی دیتا ہے۔ ظالمانہ نظام نے دوائیاں فروخت کرنے کے لیے مصنوعی بیماریوں کو جنم دیا. غریبوں، مفلسوں اور بے سہاروں کو دوائی نا ملنے سے ایڑیاں رگڑ رگڑ کر موت کی وادی میں جانا بے کسوں کا مقدر بنایا گیا ہے. نجی میڈیکل کالجز میں زیر تعلیم رہنے والے طالبعلموں سے لاکھوں روپےخرچہ کرا کے ایک ڈاکٹر تیار کرکے ان کے ذریعے کمپنیوں کو پیسہ تو کما کے دے رہا ہے لیکن اس میں قومی اور ملکی سوچ پیدا نہیں ہو رہی ہے۔
جب تلک ظلم اور جبر کایہ سرمایہ داری نظام ہمارے سروں پر قائم رہے گا تب تک ہم غریب عوام ظلم کی چکی کے دوپاٹوں میں پستے رہیں گے. آج اجتماعیت پر مبنی سوچ کا شعور فراہم کرنے کا پلیٹ فارم درکار ہے جس سے باشعور اور باصلاحیت قیادت پیدا کرکے بھوک بدحالی ظلم و استبداد پر مبنی سسٹم کو ختم کرنے کا مزاحمتی شعور پیداکیا جائے ۔ وطن کو جہالت کی تاریکی اور ظلمتوں سے نجات دلا کر نیابت الہی ایک حقیقی مسلمان کا حق ادا کیا جا سکے۔