عورت اور تہذیب مغرب - بصیرت افروز
×



  • قرآنیات

  • مرکزی صفحہ

  • سیرۃ النبی

  • تاریخ

  • فکرو فلسفہ

  • سیاسیات

  • معاشیات

  • سماجیات

  • اخلاقیات

  • ادبیات

  • سرگزشت جہاں

  • شخصیات

  • اقتباسات

  • منتخب تحاریر

  • مہمان کالمز

  • تبصرہ کتب

  • عورت اور تہذیب مغرب

    اسلام‌میں خواتین کا حقیقی مقام اور آج کل کی دو انتہاؤں کا پس منظر اور نتائج

    By سید فضل اللہ Published on Sep 28, 2020 Views 3558
    عورت اور تہذیب مغرب  
    تحریر : ڈاکٹر سیدفضل اللہ شاہ ترمذی ‌۔ سوات

    انسانی سوسائٹی کی بہترین انداز میں تشکیل کی لیے انبیا علیہم السلام مبعوث ہوئے ہیں تاکہ وہ سوسائٹی میں اعلٰی اخلاق کا نظام قائم کریں۔ اس نظام کے پیچھے ایک فکر کارفرما ہوتی تھی، جیسے جیسے اس فکر پر اجتماعیت قائم ہوتی گئی ایک اعلٰی سماج کی تشکیل ہوتی گئی نیز عمل صالح ہی فکر کی ترجمان ہوتی ہے۔ جب عمل صالح نہ ہو یا اجتماعیت ہی نہ ہو تو وہ فکر ناقص ہوتی ہے.
    انسانی سوسائٹی میں خاندان ایک اکائی کی حیثیت رکھتا ہے اس لیے قران کریم نے خاص طور پر عائلی زندگی کے اصول بیان کیے ہیں اس خاندانی اکائی میں مرد اور عورت ایک نوع کی دو مختلف اصناف ہیں اور دونوں اصناف ایک دوسرے کے لیے ضروری ہیں. گویا اسلام میں انسان کی ممتاز حیثیت ہے اور بہ حیثیت انسان مرد اور عورت میں کوئی تفریق نہیں۔ اسلام کی نظر میں مرد اور عورت کا فرق عمل کے اعتبار سے نہیں بلکہ مقام عمل کے حوالے سے ہے۔ قبل از اسلام مؤرخین عورت کے حوالے سے تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایک مادرانہ یعنی مادرسری اور دوسرا پدرانہ نظام۔ 
    یعنی تاریخ میں ایسا زمانہ بھی گزرا ہے جس میں عورت کو مرد پر بالادستی اور معاشرے میں ممتاز مقام حاصل تھا اور پھر مرد کو عورت پر بالادستی حاصل ہوگئی۔  تمام مذاہب میں انسانیت کو بلا تفریق انصاف کے ترازوں سے تولا گیا ہے لیکن تاریخی اعتبار سے مسخ شدہ مذاہب اور دیگر سوسائٹیز میں عورت کو وہ مقام نہیں دیا گیا جو متعین تھا۔جیسے یہود میں بعض فرقے عورتوں سے دور رہتے تھے، بیماری کی حالت میں ان کو علاحدہ رکھا جاتا تھا۔ مسخ شدہ مسیحیت میں عورت کو جادوگرنی اور شیطان سمجھا جاتا تھا۔ قدیم یونانی عورت کو گھر کے  سازوسامان میں سے ایک سامان سمجھتے تھے اور قدیم رومی عورت کو ضعیف العقل سمجھتے تھے۔ ہندوستان میں عورتوں کے ساتھ جو سلوک کیا جاتا تھا   اس کا اندازہ رسم ستی سے لگایا جاسکتا ہے کہیں عورت کو جائیداد میں وراثت نہیں ملتی تھی اور ان کے ساتھ جانوروں اور محکوموں جیسا برتاؤ کیا جاتا تھا۔ 
    رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اسلام نے عورت کو عزت کا وہ مقام دیا۔ جس کا اعتراف منکرین اسلام بھی کرتے ہیں. اسلام نے سماجی اکائی کو زیر بحث لا کر رشتہ ازدواج کو نکاح کا پابند بنایا۔ بیوی کو حق مہر دیا اور فطری فرق کو مدنظر رکھ کر دائرہ عمل مختلف رکھا۔ لیکن اس فطری فرق کے علاوہ تمام امتیازات ختم کردیے. جائیداد میں وراثت دے کر عورت کو ماں، بہن، بیٹی اور بیوی جیسے عزت والے رشتوں سے نوازا۔ اور ان کے حقوق اور ذمہ داریاں متعین کردیں آپ ﷺ نےفرمایا کہ: 
     عورت کےبارے میں اللہ سے ڈرو اور اپنے اہل وعیال سے بہتر رویہ رکھو۔ 
     حتی کہ ماں کے قدموں تلے جنت رکھی گئی۔عورت کو حصول علم، معاشی، سماجی اور سیاسی سرگرمیوں کی اجازت دی گئی۔ شعبہ علوم میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا حضرت ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور جنگ احد میں ام عمارہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور اس طرح حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی مثالیں موجود ہیں۔ حتی کہ حضرت شفا بنت عبدا للہ رضی اللہ تعا لیٰ عنہا کو مدینہ کے بازار میں معاشی ذمہ دای(Price controller) سونپی گئی۔ غزوات میں مرہم پٹیاں کرنا بھی ان کے ذمہ داری تھی۔ صلح حدیبیہ میں ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا مشورہ کتنی اہمیت کا حامل ہے. اسلام نے عورت کو اظہار رائے اور مطالبہ حق کی اتنی آزادی دی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب مہر کم کرنے کی بات کرتے ہیں تو ایک عورت اس کے لیے کھڑی ہوتی ہے. اسی طرح تجارت میں حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور سیاست میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا قائدانہ کردار کی مثالیں موجود ہیں.
    سولہویں صدی عیسوی میں جب یورپ تاریک دور (Dark age) سے نکل کر مشین کے ایجاد کے بعد فیوڈل ازم  سےمرکنٹائل ازم اور پھر انڈسٹریل ازم میں داخل ہوا۔ اس کے ذریعے پہلے اپنے عوام کا استحصال کیا اور پھر پوری دنیا سے خام مال کو لوٹا اور ساری دنیا کو اپنی مارکیٹ بناکر اس پر قابض ہو گیا۔ اور پھر یورپ کوکم از کم وقت میں زیادہ سے زیادہ لوٹ مار، پیداوار بڑھانے کے لیے سستے مزدور اور زیادہ افرادی قوت درکار تھی  اس کے لیے اس نے افریقا کے لوگوں کو غلام بنایا۔ دنیا بھر میں عورتوں کی آزادی کا ڈھونگ رچایا اور اسی طرح یورپ کی وہ خواتین جو اس وقت تک وراثت سے محروم تھیں، کارخانوں میں دن رات مزدوری کے لیے نکل پڑ یں۔ اور یوں ان کے لیے کم قیمت میں سستا مزدور مل گیا۔ اور اس طرح فیملی سسٹم کو یورپ میں ختم کرکے میاں بیوی کو الگ کردیا گیا۔ والدین اپنے بچوں کے لیے ٹائم نہیں نکال سکے اور ان کا سماجی ڈھانچہ اور کلچر تباہ کر دیا اور ان کی زندگی مشین کے تا بع کر دی گئی۔حتی کے کھانے کےلیے بھی ریڈی میڈ اور جلدی کھائی جانے والی فا سٹ فوڈ خوراک فراہم کردی گئیں۔اچھے گھر سڑکیں، تعلیم صحت جیسی سہولیات مہیا کردی گئی تا کہ مزدور کام میں وقت پر نہ پہنچنے کا کوئی بہانہ نہ کرسکیں. 
    اب وہ سسٹم جو یورپ کی اخلاقیات عزت و آبرو، تاریخی روایات سب کچھ مٹی میں ملا چکا تھا۔ اب  ہم پر مسلط کر دیا گیا۔ ہمار ے کلچر کو ایک غیر فطری آمد سے دھچکا لگا۔ مختلف موویز، سوشل میڈیا سے ہماری روایات کو مسخ کردیا گیا۔ بوائے فرینڈ اورگرل فرینڈ کا کلچر مسلط کیا گیا۔جن چیزوں سے بداخلاقی پھیلتی تھی جسے ہمارے مذہب اور کلچر نے روکا ہوا تھا ان کو اچھا دکھا کر جائز قرار دے دیا گیا اور ایک مخلوط کلچر کی بنیاد رکھی گئی، جس میں ہماری اخلاقیات اور عزت نفس کو بھی پامال کردیا گیا۔ ایک عورت کو مختلف اشتہارات میں شو پیس کے طور پر پیش کیاگیا۔ ہوائی جہاز میں ائیر ہوسٹس بنایا۔ بسوں میں کنڈکٹر بنایا۔ پولیس میں بینکوں میں،مختلف کمپنیوں، ہسپتالوں میں غیرمردوں کے سا تھ نرس، ٹیکنیشن بنایا جو رات کو اکیلی تن تنہا نامحرموں کے ساتھ کام کرنے پر مجبور اور اپنے سینئرز کے ماتحت محتاج اور بے بس ہوتی ہے اور انہیں خوش کرنے کے لیے کسی بھی حد تک جا نے کےلیے مجبور ہوتی ہے۔ اس طرح انہیں روٹی کمانے کے لیے غیر فطری کاموں میں مصروف کیا تو اس کے نتائج ہمارے سامنے ہیں کہ کہیں گھروں میں خادمہ کبھی مالک اور کبھی ان کے بیٹے کی ہوس کا شکار ہوتی ہیں تو کبھی انچارج اور پروفیسرز، ڈاکٹروں کی بلیک میلنگ  سے دوچار ہوتی ہے لیکن دوسری طرف ان کے لیے جائز کاروبار کے مواقع  میسر نہیں ۔جیسا کہ عورتوں کی مخصوص اشیا اب بھی بازاروں میں غیر مردوں سے خریدی جاتی ہیں جس کا نام ایک شوہر اپنی بیوی کے سامنے نہیں لے سکتا وہ چیز غیر مرد دوکان دار سے عورتیں خریدتی ہیں لیکن کوئی خاتون دوکان دار نہیں، کوئی خاتون ٹیلر نہیں پھر بھی ہر جگہ غیر مردوں کے سامنے آنا پڑتا ہے اسلام تو کہتا ہے کہ کام کرو لیکن اپنے مقام اور فطرت کے اعتبار سے، یہی عدل ہے۔ اب خاتون سرجن 'خاتون الٹراساؤنڈ سپیشلسٹ کی کتنی اہمیت ہے۔  یہ مخلوط مغربی کلچر خواتین کی مجبوری، ماتحتی اور محتاجی کا باعث ہیں کیوں کہ جہاں معاشی حالت کمزور ہو  وہاں اخلاق کمزور  ہوتے ہیں۔ اس کلچر کے بدولت نہ جانے کتنے ایکسٹرا میرٹل ریلشنز، کتنے ایبورشنز، کتنی ناجائز ڈلیوریز، کتنی معصوم اور چھوٹی بچیوں کے ساتھ زیادتیاں ہوئیں، کتنی خود کشیاں (سوسائیڈز) اورکتنی طلاق ہوتی ہیں ان کا اندازہ عدالتوں، میڈیا چینلز اور ہسپتالوں کے اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ 
    یہ سب فحاشی عریانی بےشرمی کی انتہائیں ہیں اور یوں مجبور، محتاج و کمزوروں پر ہوس پرستوں کی بادشاہت قائم ہے۔ اس فا سد نظام میں شریف لوگ اپنی بچیوں کو تعلیم دینے سے کتراتے ہیں۔ باہر گھومنے سیر و تفر یح سے ڈرتے ہیں یا اس نام نہاد لبرل کلچر کے خلاف تشدد اور انتہا پسندی کا راستہ اختیار کرتے ہیں یعنی ایک انتہا پر آزاد خیال، بے حیائی کے دلدادہ جو نہ تہذیب سے واقف ہےاور نہ مذہب سے اور دوسری طرف بے شعور مذہبی دقیانوس جو ایک انسان کو بنیادی حقوق سے روک رہے ہیں ۔اس طرح یہ دونوں طبقے اسلام کے حقیقی تصور عدل اور راہ اعتدال سے کوسوں دور ہیں. جب کہ ایک عورت تو گھر کی بہترین منتظم ،اولاد کی تربیت کےساتھ ساتھ باپردہ لباس والی سیاسی، سماجی اور معاشی سرگرمیوں کی حامل شخصیت ہوسکتی ہیں ۔لیکن آج کل کے فاسد معاشرے میں یہ ایسا ہےجیسا ایک پھول کو آگ کے شعلوں میں پھینکنا، جو عورت اپنی آنکھیں نیچے نہیں رکھ سکتی ۔اپنی آواز بارعب نہیں رکھ سکتی۔ مخلوط نظام  معاشرت کی رسیا ہو، وہ آنے والے نسلوں کی کیا تربیت کر ے گی؟ لہٰذا ہمیں اس فاسد سماجی نظام کو جڑ سے ا کھاڑ پھینکنا ہوگا۔ اس سماجی ڈھانچے کو ٹھیک کرنے کے لیے نبوی طریقہ کار اپنانا ہوگا ۔اس کےلیے ہمیں فکری جدوجہد کا راستہ اختیار کرنا ہو گا۔ مغربی تہذیب کی مرعوبیت اور ذہنی غلامی سے نکلنا  ہوگا ۔کیوں کہ ایک باشعور اجتماعیت ہی اس فاسد نظام کو  شکست دےکر اعلٰی اخلاق کےحامل نظام  قائم  کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
    Share via Whatsapp