سرمایہ دارانہ نظام اور بحران
بحران, سرمایہ دارانہ نظام کا خاصہ ہیں۔ تمام بحران اسی نظام کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ بحران اور سرمایہ داریت لازم و ملزوم ہیں۔
سرمایہ دارانہ نظام اور بحران
تحریر: محمد عثمان بلند۔ کہوٹہ راولپنڈی
بحران، سرمایہ دارانہ نظام کا خاصا ہے۔ تمام بحران اسی کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ بحران اور سرمایہ داریت لازم و ملزوم ہیں۔ یہ بحران ہی تو ہیں جو اسے طاقت ور اور توانا بناتے ہیں۔بحران کے دوران رسدکو کنٹرول کر کے اشیاوخدمات کی طلب میں مزید اضافہ کیا جاتا ہے، جس کے باعث ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں ۔
بعض اوقات بحران قدرتی بھی ہوتے ہیں، لیکن اکثر اوقات رسد کو (Manipulate) یعنی کمی بیشی کر کے مصنوعی بحران پیدا کیے جاتے ہیں۔ لیکن اچنبھے کی بات یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں نتائج سرمایہ دار کے حق میں ہی نکلتے ہیں۔وسائل کا ارتکاز اور اِن کی بنیاد پر زیادہ سے زیادہ سرمائے کا حصول سرمایہ دارانہ نظام کے بنیادی اصول ہیں۔مصنوعی بحران حکمت عملی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔موجودہ دور کے چینی بحران،آٹا بحران اور پیٹرول بحران وغیرہ اس کی واضح مثالیں ہیں۔
سرمایہ دارانہ ممالک میں وسائلِ معیشت انفرادی ملکیت میں ہونے کے باعث ملک کی معاشی، اقتصادی اور تجارتی سرگرمیاں سرمایہ دار کی مرہونِ منت ہیں۔ان ممالک کا سیاسی و سماجی نظام بھی سرمایہ دار کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے کیوں کہ اس کی تشکیل میں بنیادی کردار بھی اسی کا ہوتا ہے۔چوں کہ وسائل پر قبضہ سرمایہ دار کا ہوتا ہے اس لیےاشیا و خدمات کی طلب اور رسد کا تعین بھی وہی کرتا ہے۔اشیائے ضرورت کی ذخیرہ اندوزی کر کےان کی قلت پیدا کی جاتی ہے۔رسد پر قابو حاصل ہوجانے سے ملک میں مصنوعی بحران پیدا ہوجاتا ہے۔ اس طرح سرمایہ دار دوہرہ فائدہ اٹھا تا ہے۔
١۔ کاروبار میں خسارہ دکھا کر حکومتی سبسڈی حاصل کرتا ہے۔
٢۔ اشیاوخدمات کی طلب ان کی رسد کے مقابلے میں بڑھ جانے کے باعث ان کی قیمتیں دوگنی چوگنی ہو جاتی ہیں۔
اسی طرح زیادہ سے زیادہ منافع کے حصول کی خاطر اشیائے صرف کی برآمد کے نتیجے میں بھی سرمایہ دار دوہرے فائدے حاصل کرلیتا ہے ۔
١۔ برآمدات کی سپورٹ کے طور پر بھی حکومتی سبسڈی حاصل کرتاہے ۔
٢۔ مقامی سطح پر اشیائے صرف کی قلت پیدا ہوجانے سے بھی ان کی قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔
ایسے نظام میں حکومتی مشینری قلت پیدا کرنے والوں کے خلاف آپریشن کرنے کے بجائے وہ بھی سرمایہ داروں کے معاون کےطور پر کردار ادا کرتی ہے۔
اس ظالمانہ نظام میں کل پیداوار کے 90 فی صد حصہ کے نتائج بھی سرمایہ دار حصل کرلیتا ہے جو زمین، سرمائے اور تنظیم کی صورت میں اس کی تجوری کا حصہ بن جاتا ہے۔ جب کہ بقیہ پیداوار کا بہ مشکل 10فی صد ہی محنت کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔ یہ معمولی سا حصہ بھی سرمایہ دار کی دستبرد سے محفوظ نہیں رہتا۔ جہاں تک ملکی خزانہ بھرنے کی بات ہے اس کی صورت کچھ یوں ہے ۔بالواسطہ حکومتی ٹیکس کولیکشن بلا واسطہ ٹیکس جمع کرنے کی نسبت زیادہ ہوتی ہے ،جس کا بوجھ بھی عوام پر منتقل ہوتا ہے۔ یہ ٹیکس کی رقم بھی سرمایہ دار سبسڈی کی صورت میں بٹور لیتا ہے۔ یہ صورتِ حال بحران کے دنوں اور بھی گھمبیر ہوجاتی ہے۔ سرمایہ دار ان حالات میں بھی فائدہ میں رہتا ہے۔ کیوں کہ بحران کے دور میں ٹیکسوں میں چھوٹ اور سبسڈی کی مد میں وہ حکومت سے سپورٹ حاصل کر لیتا ہے۔بحرانوں کی کئی قسمیں ہیں جیسا کہ وَبائی بحران، غذائی بحران، قدرتی آفات، بدامنی وغیرہ۔ ان تمام بحرانوں میں عوام ہی پستے ہیں جب کہ سرمایہ دار کی چاندی ہو جاتی ہے۔وبائی بحران کی زندہ مثال کورونا کی ہے۔ کسی خاص وبا کا خوف پھیلا کر معاشی سرگرمیوں کو محدود کرنا، جس کے نتیجے میں اشیا و خدمات کی طلب و رسد کے نظام کو غیرمتوازن کرکے اس کے فوائد حاصل کرنا بھی سرمایہ دارانہ نظام کا وطیرہ ہے۔ ملک میں مذہبی، لسانی، علاقائی بنیادوں پر جھگڑا پیدا کر کے علاقہ میں معاشی سرگرمیاں معطل کر دی جاتی ہیں۔اشیا و خدمات کی پیدا وار اس کی طلب کے مقابلے میں کم ہوجاتی ہے۔قیمتیں بڑھنا شروع ہوجاتی ہیں۔جس سے بھی سرمایہ دار کا منافع بھی بڑھ جاتا ہے ۔غذائی بحران بھی ملک میں اشیاۓ صرف کی مصنوعی قلت پیدا کر نے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔
اِسی طرح سرمایہ دارانہ نظام میں چھوٹا تاجر بھی ظلم کی چکی میں پستا چلا جاتا ہے، جس میں عوام پس رہے ہوتے ہیں۔ کیونکہ سرمایہ دار اپنے سرمایہ کے بل بوتے پر پیدائش دولت کے عمل پر اجارہ داری حاصل کرلیتا ہے ۔یوں اشیا و خدمات کی قیمتیں اپنی مرضی سے متعین کرتا ہے ۔یہ قیمتیں چھوٹے کاروباری حلقوں کے دائرہ اختیار میں نہیں ہوتی۔ان قیمتوں پر وہ اپنی مصنوعات فروخت کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر وہ پیدائش دولت کے عمل میں بے دخل ہوجانے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔
الغرض سرمایہ دارانہ نظام اور بحران ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ بحران اس نظام کو مزید تقویت دیتے ہیں۔سرمایہ دارانہ نظام کو بحرانوں کا نظام کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔قومی و بین الاقوامی اداروں اور میڈیا کے ذریعے خوف، استحصال اور منافع کا یہ گھناؤنا کھیل کھیلا جاتا ہے۔آج دنیا کو بحرانوں سے نکالنا ہے تو اس سرمایہ دارانہ نظام کا خاتمہ ضروری ہے، جس کے لیے ایک منظم شعوری جدوجہد وقت کی اہم ضرورت ہے۔