سماجی دوری اور سامراجی ہتھکنڈے
آج سامراج نے اپنی ڈوبتی کشتی کو بچانے کے لیے نئےسائینسی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ساری دنیا کو معاشی و معاشرتی طور پر یرغمال بنا کر رکھ دیا ہے-
سماجی دوری اور سامراجی ہتھکنڈےہارون الرشید۔ راولپنڈیاللہ تعالی نے انسان کو فطری طور پر اجتماعیت پسند پیدا کیا ہے. ایسے میں جہاں انسان اپنے جیسے دوسرے انسانوں کے ساتھ مل جل کر رہنا پسند کرتا ہے تو اس کے معاشی و معاشرتی تقاضوں کی تکمیل بھی باہمی تعاون و اشتراک کے بغیر ممکن نہیں۔ ایسے میں جبری و قانونی سماجی دوری کے نتیجے میں اس کی معاشی و معاشرتی زندگی کے ساتھ ساتھ اس کی صحت پر جسمانی و نفسیاتی اثرات بھی مرتب ہو رہے ہیں۔خوف کی فضا:خوف اور ڈر کی فضا انسانی صحت کو بری طرح متأثر کر رہی ہے۔ جب انسان ذہنی دباؤاور اضطراب کا شکار ہوتا ہے تو اس کے مدافعتی نظام میں عام سی بیماریوں سے مقابلہ کرنے کی صلاحیت اور طاقت بھی کم ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً وہ ایسی بیماریوں کا بھی شکار ہونا شروع ہو جاتا ہے، جس کا وہ عام حالات میں آسانی کے ساتھ مقابلہ کر سکتا ہے۔سماجی دوری کے SOPs اور دور رس مضر اثرات:جہاں اس بیماری ( کرونا)کے وبائی اثرات کو میڈیا نے اپنے مفادات کے پیش نظر انسان دشمن کردار ادا کرتے ہوئے بڑھا چڑھا کر پیش کیا ہے وہاں سماجی دوری اختیار کرنے کے ساتھ بار بار اور کم از کم بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھونے پر زور دیا گیا ہے۔ یہاں پر ہاتھ دھونے یا صفائی ستھرائی اختیار کرنے پر قطعاً اعتراض نہیں ہے، بلکہ صفائی تو ہمارے ایمان کا حصہ ہے ،لیکن یہاں یہ بات دیکھنے والی ہے کہ کیا اتنے زیادہ ہاتھ دھونے اور سینیٹائزر کا بےجا استعمال اور اس کے ساتھ ساتھ سماجی دوری اختیار کرنا، انسان کے مدافعتی نظام کو کمزور ہی نہیں بلکہ تباہ کر رہا ہے۔ڈرگ ریزسٹینس اور اینٹی بائیوٹک ادویاتامیون سسٹم نام ہی اس چیز کا ہے کہ جب بھی بیرونی چیزیں یعنی وائرس بیکٹیریا وغیرہ جسم پر حملہ آور ہو تو انسانی جسم اپنے مؤثر ہتھیاروں یعنی اینٹی باڈیز کے ذریعے ان کا مقابلہ کریں۔ اس لیے جب ہم ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملاتے ہیں یا گلے ملتے ہیں تو جذبات و احساسات کے تبادلے کے ساتھ ساتھ ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں نئے وائرس بیکٹیریا اور دیگر جراثیم کا تبادلہ ہوتا ہے، جس کے نتیجے میں ہمارے جسم میں نت نئی اینٹی باڈیز بنتی رہتی ہیں اور قوت مدافعت مزید مضبوط ہو جاتی ہے ایسے میں اگر ہمارے جسم کا کسی نئے وائرس سے سامنا ہوتا ہے ،جس سے مشابہت رکھنے والے جراثیموں سے ہمارا نظام قدرتی طور پر پہلے سے ہی نبرد آزما ہوچکا ہوتا ہے تو پھر اس نئے آنے والے جراثیم یا وائرس سے مقابلہ کرنے کے لیے اتنی مشکل پیش نہیں آتی اور تھوڑی بہت تکلیف برداشت کرنے کے بعد وہ اس بیماری کی پریشانی سے نکل آتے ہیں۔ مثال کے طور پر بچوں کا مٹی میں کھیلنا، ہر چیز منہ میں ڈال لینا ہاتھ ملانا، بچوں کو کیچڑ میں کھیلنے کا شوق۔ یہ قدرت کی طرف سے نیچرل ویکسین سسٹم ہے.جن ملکوں میں یہ سب نہیں ہوتا تو وہ کمزور وائرس سے بھی جلد بیمار ہوجاتے ہیں۔لیکن یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ جراثیموں کے انتخاب میں صرف خطرناک وائرس ہی ہمارے جسم میں میں نہیں آتے بلکہ بہت سارے ایسے جراثیم بھی ہیں جو ہمارے جسم کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں جیسے بیکٹیریا جس میں کچھ ایسے ہیں جو کہ ہماری آنتوں میں ہوتے ہیں اور وہاں پر پہنچنے والی خوراک کی توڑ پھوڑ اور اس میں مدد گار ہوتے ہیں، جس کے نتیجے میں وہ خوراک سے غذائی اجزا ہمارے جسم میں شامل ہوجاتے ہیں جو کہ نہ صرف غذائی عمل کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ،بلکہ باہر سے آنے والے نقصان دہ بیکٹیریا کے خلاف بھی مؤثر ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ ایسے بیکٹیریاکو سائنس کی زبان میں پروبایوٹکس بھی کہا جاتا ہے اسی طرح کافی سارے وائرسز ایسے بھی ہیں جو ہماری قوت مدافعت بڑھانے کے ساتھ ساتھ خطرناک بیکٹیریا اور وائرس کا بھی کام تمام کر دیتے ہیں ایسے وائرسز کو *بیکٹیرو فیجز* کہا جاتا ہے۔آج کے دور میں ایک اور ابھرتی ہوئی پریشان کن صورت حال اینٹی بائیو ٹکس ادویات کے بے تحاشا اور بلا ضرورت استعمال سے ان ادویات کےخلاف پیدا ہونے والی جراثیموں کی وہ مزاحمت یعنی Drug resistance ہے، جس کے بعد براڈ سپیکٹرم اینٹی بائیوٹکس بھی بے اثر ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔اس مشکل کا حل نکالنے کے لیے بھیGenetic Engineering یعنی جینیاتی طور پر تیار کردہ وائرسز کو استعمال کیا جا رہا ہے اگر چہ یہ ایک مہنگا علاج ہے ،لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج بر آمد ہو رہے ہیں۔ مثال کے طور پر حال ہی میں برطانیہ میں ایک سترہ سالہ لڑکی جس کا نام ایزابیل ہے جب پھیپھڑوں کے ٹرانسپلانٹ کے بعد شدید انفیکشن کا شکار ہو گئی اور کسی بھی اینٹی بائیو ٹکس سے اس کا علاج نہ ہو سکا تو تجرباتی طور پر اس کا علاج جینیاتی طریقے سے تیار شدہ وائرس سے کیا گیا اور وہ صحتیاب ہونے والی پہلی مریضہ بن گئی۔ بدقسمتی سے ماضی کی طرح یہ تحقیق بھی میڈیکل ریسرچ کرنے والی عالمی سرمایہ دار کمپنیوں کے لا محدود منافع کا ذریعہ بننے جا رہی ہے۔سماجی دوری کی سائنسی حقیقت:کرونا وائرس کے سائز اور ہوا میں موجودگی کے حوالے سے امریکا میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ میں وائرسز کے ماہر نیلجے وان دورمالن مختلف سرفیسز یعنی سطحوں پر ان وائرسز پر ٹیسٹ کرنے والوں میں سے ایک ہیں۔ان کی تحقیق بتاتی ہے کہ کھانسنے یا چھینکنے کے بعد یہ وائرس ہوا میں تین گھنٹے تک رہ سکتا ہے۔کھانسی کے ایک سے پانچ مائیکرو میٹر چھوٹے چھوٹے قطرے ہوا میں کئی گھنٹوں تک رہ سکتے ہیں۔ یہ سائز انسانی بال سے 30 گنا کم ہے۔یعنی کسی بغیر فلٹر والے اے سی کے نظام میں یہ زیادہ سے زیادہ کچھ گھنٹے ہی رہ سکتا ہے کیوں کہ جہاں ہوا گھوم رہی ہو وہاں پر یہ قطرے جلدی سرفیسز پر بیٹھ جاتے ہیں۔لیکن یہاں یہ بات اہل علم و شعور والوں کے لیے قابل غور ہے کہ جو انتہائی معمولی جسامت کا جرثومہ ہوا میں کئی گھنٹوں تک معلق رہ سکتا ہے اور یقیناً ہوا کے دوش پر چند فٹ نہیں، میٹر نہیں، بلکہ کئی میلوں دور تک پھیل سکتا ہے اور جسامت میں اتنا چھوٹا ہونے کی وجہ سے بغیر فلٹر والے اے سی میں گھس سکتا ہے تو بڑےآرام سے یہ ہمارے گھر، دفتروں، عبادت گاہوں، تعلیم گاہوں غرض کہ کسی عمارت میں داخل ہونا ،اس وائرس کے لیے نا ممکن نہیں تو ایسے میں اس وائرس کے لیے صرف 6 چھ فٹ کی دوری کیا معنی رکھتی ہے۔ لیکن مسلسل یہ پروپیگنڈہ کیے جانا کہ بیس سیکنڈ تک ہاتھ دھوئیں اور 6 فٹ کا فاصلہ اختیار کریں تو اس کے پیچھے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں۔ کیا ایسا نہیں کہ یہ ساری نام نہاد حفاطتی تدابیر اور پروٹو کول کو جبری طور پر عوام پر مسلط کر کے مستقبل کےحوالے سے کوئی نئی منصوبہ بندی کی جا رہی ہے۔کورونا کی "وبا" اور فارما سرمایہ داروں کی عید:مثلاً ایک طرف تو بے تحاشا فیس ماسک، ہینڈ سینیٹائزر، ذاتی حفاظتی آلات جیسے فیس شیل، گاؤن گلوز وغیرہ کوکئی گنا مہنگے فروخت کر کے فارما سوٹیکل اور سرجیکل پراڈکٹ بنانے والی سرمایہ دارانہ کمپنیوں کو فائدہ پہنچایا گیا تو اس کے ساتھ ساتھ تیسری دنیا کے ممالک جیسے پاکستان کی اشرافیہ نے بھی اس میں خوب حصہ بٹورا۔(ایک خبر کے مطابق پاکستان کے صرف نیشنل ڈیساسٹر مینجمنٹ ادارے نے کرونا بیماری کی روک تھام اور علاج کے حوالے سے 500 ارب روپے خرچ کیے جس کا مناسب ریکارڈ وہ ابھی تک سپریم کورٹ کو جمع نہیں کروا سکے)۔اس کے ساتھ ساتھ ناپید ہوتی ہوئی اور نسبتاً کم استعمال ہونے والی اینٹی وائرل اور دیگرادویات جس پر ملٹی نیشنل کمپنیوں نے بھاری انویسٹمنٹ کی ہوئی تھی، کو بھی ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے جھنڈے تلے نئی روح پھونک کر ان کو کرونا کے مرض کا مؤثر علاج تجویز کیا گیا۔مگر اس کے ساتھ اہم چیز کرونا وائرس کی ویکسین کی تیاری ہے، جس کے حوالے سے امریکا،یورپ ،چین انڈیا اور بہت سے ممالک اس کی تیاری میں لگے ہوئے ،بلکہ امریکا نے تو اس سلسلے میں فارما سوٹیکل کمپنیوں کو اربوں ڈالر کی فنڈنگ کے بعداعلان کیا ہے اور یورپی یونین نے بھی اس کے لیے تقریباً 8 ارب ڈالر کا فنڈ قائم کیا ہے۔تو یہاں یہ بات بھی قابل غورہے کہ جس چیز کی تیاری میں اربوں ڈالر خرچ ہو رہے ہیں تو یہ سامراجی(انسان دشمن) سرمایہ دار کمپنیاں مستقبل میں اس سے کتنے گنا زیادہ فائدہ اٹھانے کی منصوبہ بندی کر چکی ہوں گی۔یہی وجہ ہے کہ اس معمولی وائرس کی پیدا کردہ عام سی بیماری جس کی شرح اموات 0.1% سے بھی کم ہے، کو ایک مربوط اور مذموم پروپیگنڈے کے ذریعے ساری دنیا کو یرغمال بنا کر گھروں میں بٹھانے کے لیے استعمال کیا گیا۔اس لیے آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم درست طور پر ان سامراجی ہتھکنڈوں کو سمجھیں۔ اور اس مذموم عمل کے مقابلے کا شعور، اہلیت اور صلاحیت اپنے اندر پیدا کریں۔