جاپان کرونا سے محفوظ کیسے ہوا؟
جاپان نے بنا کسی لاک ڈاؤن کے کرونا کا خاتمہ کیا جو خود ایک مثال ہے۔
جاپان کرونا سے محفوظ کیسے ہوا؟
تحریر: ڈاکٹر محمد شعیب اختر۔ٹوکیو، جاپان
دسمبر 2019 کے اختتام پر چینی صوبے ہوبے کے شہر ووہان میں پھوٹنے والی ایک نئی قسم کی وبا نے بہت جلد پوری دنیا کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔ دیکھتے ہی دیکھتے دنوں اور ہفتوں میں یہ وبا دنیا بھر میں پھیل گئی اور عالمی صحت کی تنظیمیوں اور اداروں کا رخ اس وبا سے نمٹنے میں لگ گیا۔ اسی دوران دنیا بھر کے کئی ملکوں نے دوسرے ممالک سے آنے والے لوگوں پر نہ صرف سفری پابندیاں عائد کیں بلکہ پوری دنیا کا رابطہ آپس میں کٹ کر رہ گیا۔ عمومی صحت کے علاوہ اس وبا نے عالمی معیشت اور سیاست پر اپنا بے حد اثر ڈالا۔ اسی اثناء میں کئی ممالک ایک دوسرے پر وبا کے پھیلانے اور وبا کا بطور حیاتیاتی جنگ کے ہتھیار کے استعمال کا بھی الزام لگاتے رہے۔ عالمی اداروں کی ہدایات پر نہ صرف اس وائرس کی تشخیص اور علاج کی تحقیق پر زور دیا گیا بلکہ بیشتر ممالک میں وائرس سے بچاؤ کی خاطر لاک ڈاؤن بھی کیا گیا۔
سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن چین نے متأثرہ مریضوں سے حاصل کردہ نمونوں میں ایک نئے وائرس کی نشاندہی کی۔ اس وائرس کے آر این اے کی ترتیب کی بنیاد پر اسے کرونا وائرس فیملی میں رکھا گیا اور اس وائرس کا عمومی نام کوویڈ-19 یا نوول کرونا وائرس 2019 تجویذ کیا گیا۔وائرس سے بچاؤ کےلیے فطری قوت مدافعت، ویکسین یا لاک ڈاؤن پر دنیا بھر میں آج کل بے شمار نظریات گردش میں ہیں جن پر مختلف حلقے مختلف آراء کا اظہار کر رہے ہیں۔ زیر نظر مضمون میں جاپان کی کرونا سے نمٹنے کی حکمت عملی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ جاپان مشرقی ایشیاء میں واقع ہے اور دنیا بھر میں ہائی ٹیک انڈسٹری کی وجہ سے مشہور ہے۔
جاپان چین کے بعد کوویڈ-19 سے متأثر ہونے والا دوسرا ملک تھا۔ جاپان میں کرونا تین ذرائع سے منتقل ہوا جو درج ذیل ہیں:
1۔ ووہان سے آنے والی چینی مسافر
2- ڈائمنڈ پرنسس نامی بحری جہاز جسے جاپانی شہر یوکوہاما میں لنگر انداز ہونا تھا اور جس میں مختلف ممالک کے سیاح سوار تھے۔ ہانگ کانگ سے سوار ہونے والے ایک مسافر میں کورونا کی تشخیص کے بعد جاپانی حکومت نے بحری جہاز کو لنگر اندازی کی اجازت دینے کے بجائے سمندر میں ہی قرنطینہ کردیا۔ ڈائمنڈ پرنسس پر سوار مسافروں میں سے 712 مسافر کرونا کا شکار ہوئے اور 13 اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بعد ازاں عالمی دباؤ کے زیراثر اس جہاز کو لنگر انداز ہونے کی اجازت مل گئی۔
3۔ ووہان سے خصوصی پرواز کے ذریعے انخلاء کرنے والے جاپانی شہری
اب بات کرتے ہیں ان عوامل کی جن کی بنیاد پر جاپان میں کرونا سے نمٹنے میں مدد ملی۔ یہ عوامل مندرجہ ذیل ہیں:
جاپان کا قدیم مذہب شنتو
جاپان کا قدیم مذہب شنتو ہے اور بیشتر جاپانی اسی مذہب کو مانتے ہیں۔ شنتو کے علاوہ بدھ مت اور عیسائیت کو ماننے والے جاپانی بھی خاصی تعداد میں موجود ہیں لیکن جاپان کی تہذیب کی بیشتر بنیادیں شنتو مذہب کی تعلیمات پر قائم ہیں۔شنتو مذہب کی دیگر تعلیمات کے ساتھ ساتھ صفائی ایک لازمی جزو ہے۔ صفائی صرف مذہب کی تعلیم نہیں بلکہ جاپانی انداز رہن سہن ،تہذیب اور قومی نظام کا لازمی جزو ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاپان میں قدم قدم پر نفاست دیکھنے کو ملتی ہے۔ مثال کہ طور پر عام جاپانی تین طرح کے لباس روزانہ پہنتے ہیں۔ جن میں پہلا لباس گھر سے باہر کام یا بازار جاتے ہوئے پہنا جاتا ہے، دوسرا لباس گھر کی عمومی سرگرمیوں کے دوران اور تیسرا لباس رات میں سونے کےلیے۔ اسی طرح جاپان میں عوامی بیت الخلاء تک بہت زیادہ صاف ستھرے ہوتے ہیں۔ مشہور مقولہ صفائی نصف ایمان کی عملی شکل جاپان میں دیکھی جا سکتی ہے۔ اس صفائی کی ترتیب اور طریقہ کار کی تربیت جاپان کے سکولوں میں دی جاتی ہے اور تمام جاپانی اسے اپنے مذہب اور ملک کی تعلیم سمجھ کر عملی طور پر تسلیم کرتے ہیں۔اس تعلیم نے موجودہ وبا کو پھیلنے سے روکنے میں بے حد مدد دی۔
جاپانی تہذیب
جاپانی تہذیب میں ایک دوسرے سے ملتے وقت نہ تو ہاتھ ملایا جاتا ہے اور نہ ہی گلے ملا جاتا ہے۔ بلکہ دونوں ملنے والے ایک دوسرے کی تعظیم میں جھک جاتے ہیں جس کی وجہ سے دونوں میں کسی طرح کا جسمانی تعامل نہیں ہوتا اور آپس میں ایک محفوظ فاصلہ برقرار رہتا ہے۔
جاپان کا جدید رہائشی طریقہ کار
جدید جاپان اپنی قدیم تہذیب کے باوجود مغرب کی بہت سی رسوم و رواج کا اثر لیے ہوئے ہے جن میں سے ایک جاپان کا جدید رہن سہن کا طریقہ کار ہے۔ مغرب کی طرح جاپان میں بھی بچے جوان ہوتے ہی اپنے والدین سے الگ ہوتے ہیں اور آزاد رہنا شروع کردیتے ہیں ۔ اگرچہ جاپان میں آزادی کا مطلب مغرب جیسی آزادی نہیں مگر اس آزادی کی وجہ سے گھروں میں رہنے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ نہیں ہوتی اور عمومی طور پر دو افراد فی گھر رہتے ہیں۔ اس طریقہ کار کی وجہ سے جاپانی معاشرے میں عمومی طور پر سوشل ڈسٹنسنگ کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ رہنے کے اس طریقہ کار کے علاوہ جاپانی لوگوں میں ماسک پہننا پہلے ہی بہت زیادہ رائج تھا۔ راقم کے مشاہدے کے مطابق لگ بھگ 70فیصد جاپانی وباء سے پہلے بھی عام طور پر ماسک پہنتے تھے (یہ صرف ایک اندازہ ہے حقیقی شماریات اس سے مختلف ہو سکتے ہیں)۔
جاپانی حکومت کے اقدامات
جاپانی حکومت نے کرونا سے نمٹنے کے لیےدنیا کے دیگر ممالک کی طرح لاک ڈاؤن کا راستہ چننے کے بجائے ایمرجنسی کا راستہ اختیار کیا۔ کوویڈ-19 سے بچاؤ کی خاطر لگائی جانے والی ایمرجنسی نے صوبوں کے گورنرز کو اس بات کا اختیار دیا کہ وہ صحت عامہ اور وائرس سے بچاؤ کی اشیاء فروخت کرنے والوں پر کڑی نگاہ رکھ سکیں اور کسی بھی ایسی صورتحال میں جب ان اشیاء کی رسائی عوامی پہنچ سے دور ہونے لگے تو ذمہ دار عناصر کو فی الفور سزا دی جائے۔ گورنرز کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ ایسی ممکنہ صورتحال میں ایسی کمپنیوں کے اثاثہ جات ضبط کر کے انہیں عوامی مقصد کےلیے استعمال کیا جائے۔ اس کے علاوہ اس ہنگامی صورتحال میں گورنرز کو یہ بھی اختیار دیا گیا کہ وبا پھوٹنے کی صورت میں وہ صوبے میں موجود کسی بھی جگہ پرہنگامی ہسپتال قائم کر سکتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں عوامی فلاح کے پیش نظر گورنرز کو جگہ کے مالک سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ مزید برآں اس ہنگامی صورت حال کے دوران گورنروں کو یہ اختیار بھی دیا گیاکہ وہ ہجوم والی جگہیں جیسے شاپنگ مال، سینما گھر، تفریح گاہیں یا شراب خانوں کو بھی عارضی طور پر بند کرسکتے ہیں۔ (یہ ہنگامی صورتحال جاپان میں 31 مئی 2020 تک نافذ رہی۔) اسی طرح سے عام عوام کی مددکی خاطر جاپانی حکومت نے ہر شہری کو 100،000 ین (1،000 امریکی ڈالر تقریبا) بطور مدد بھی فراہم کیے تاکہ ان پر کسی طرح کا معاشی دباؤ نہ پڑے۔ اس کا دوسرا پہلو عام آدمی کی قوت خرید کو سہارا دینا تھا تاکہ چھوٹے دکانداروں کا کاروبار ٹھپ نہ ہو جائے۔ مزید یہ کہ جاپان کی معیشت عمومی طور پر برآمدات سے جڑی ہوئی ہے دنیا بھر میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے بہت سی کمپنیوں کا کاروبار بے حد متأثر ہوا۔ ان کمپنیوں کی مدد کےلیے چھوٹے اور درمیانے کاروباری حجم کی کمپنیوں کےلیے بغیر سود کے قرضے بھی متعارف کرائے گئے۔
جاپانی کارپوریٹس کا کردار
جہاں ہمیں وطن عزیز میں تاجر ، صنعت کار اور حکومت آمنے سامنے نظر آتے ہیں وہیں جاپان میں صورتحال اس کے بر عکس رہی۔ تمام کارپوریٹس نے سرکاری ہدایات پہ عمل درآمد کیا۔ روزمرہ اشیاء کے سٹورز کے داخلے پر عوام کو ہینڈ سینیٹائزر فراہم کیے گئے۔اسی طرح سے عملے کی صحت کا خیال رکھتے ہوئے انہیں فیس شیلڈز بھی فراہم کی گئیں۔ مزید ایسی تمام جگہیں جہاں پر عملے کو صارفین سے رابطہ رکھنا ضروری ہے وہاں حفاظتی سکرینز بھی لگائی گئیں۔
جاپانی ریلوے کی اپیل
جاپانی ریلوے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہر خاص و عام روزمرہ کی نقل و حرکت کےلیے اسی کو استعمال کرتا ہے۔ دفتری اوقات کے دوران ریلوں میں بے حد ہجوم دیکھنے کو ملتا ہے۔ وبا کی روک تھام کےلیے اس ہجوم میں کمی یا اس ہجوم کا ختم کرنا لازمی قرار دیا گیا جس کی ذمہ داری سرکاری اور نجی ریلوے اداروں پر تھی۔اس سے نمٹنے کےلیے ریلوے اداروں کی انتظامیہ نے ہر سٹیشن پر موجود دفتروں اور اداروں کو باہمی تعاون سے مختلف دفتری اوقات کی تجویز دی۔ جس پر عمل درآمد کے نتیجے میں ریلوں میں ہجوم بہت حد تک کم ہوگیا۔ اس کے علاوہ بہت سی کمپنیوں نے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی بھی اجازت دی۔
جاپانی عوام کا رد عمل
عمومی طور پر جاپانی عوام جاپانی حکومت کی اطاعت گزار نظر آتی ہے ۔ بادشاہ کے حکم کی تعمیل اور فرماں برداری بھی شنتو مذہب کی تعلیمات کا لازمی جزو ہے۔ویسے تو ہنگامی صورتحال کے اعلان کے بعد جاپان میں عمومی نقل و حرکت میں خاصی کمی نظر آئی لیکن ساتھ ہی ساتھ انسانی فطرت ایک دوسرا پہلو بھی نظر آیا یعنی لوگ پارکوں وغیرہ میں آ جا رہے تھے۔ شاید انسانی فطرت اپنے پر لگائی گئی پابندیاں برداشت نہیں کرتی۔