آزاد اجتماعی رائے کے اثرات و نتائج
اس تحریر کا مقصد لوگوں کو رائے کی اہمیت اور طریقہ سے آگاہ کرنا ہے
آزاد اجتماعی رائے کے اثرات و نتائج
تحریر : حافظ طلحہ اختر ، ایگریکلچر یونیورسٹی۔فیصل آباد
ایک شخص کا اپنے گردوپیش میں ہونے والےواقعات پرحقائق کا تجزیہ کرتے ہوئے اپنی رائے قائم کرنا، اس کی آزادی اور عقل کا تقاضا ہے نہ یہ کہ معاشرے میں مروج رائے اور افکار کو جوں کا توں قبول کرلیا جائے۔
جب ہم اپنی انفرادی رائے حقائق کی بنیاد پر قائم نہیں کرتے تو وہ اجتماعی تقاضوں سے متصادم ہوتی ہے اور اس کو زندگی کے ہر شعبے میں ناکامی سے ہم کنار ہونا پڑتا ہے۔
یہاں یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں ایک ظاہری اور دوسرا باطنی، اَب اصولی طور پر رائے کے قیام کے لیے دونوں پہلوؤں کو جاننا اور ان کا تجزیہ کرنا ضروری ہوتا ہے اور اس کے ساتھ یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ ایک شخص کا تنہا وجود کوئی قابل ذکر اثرات و نتائج پیدا نہیں کر سکتا جب تک وہ اپنے آپ کو اجتماعیت کا فرد نہ سمجھے۔جو شخص اس طریقے سے اپنی رائے قائم کرے وہ قابل قبول اور خاطر خواہ نتائج پیدا کرے گی جب کہ کسی کی محض انفرادی رائے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، اس کا وجود ایک اجتماعیت کا حصہ ہوتا ہے۔یہ اجتماعیت ہر سطح پر مختلف ہوتی ہے،گھر کا ایک نظام بھی اجتماعیت کی مثال ہے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات میں ہے کہ مشاورت میں برکت ہے اور کوئی بھی ایسا عمل جس میں مشاورت کی جائے تو وہ بہتر نتائج پیدا کرتا ہے۔ اسے لیے حضور صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی کہا گیا: وشاورہم فی الامر
اب بتلائیے کہ ایک کام وہ ہے جسے آپ خود اکیلے سوچ رہے ہیں مثلاً آپ ایک گھر بنانا چاہتے ہیں تو آپ خود ہی اس کے سارے لوازمات کو بالکل درست طریقے سے سوچ لیں تو یہ ممکن نہیں۔ تو آپ اس شعبے سے وابستہ مختلف لوگوں سے رائے اور مشاورت کرتے ہیں اور پھر کسی نتیجے پر پہنچتے ہیں تو کیا خیال ہے کہ اتنے بڑے معاشرے کو چلانے کے لیے کسی مشاورت اور اجتماعی رائے کی ضرورت نہیں؟
رائے کے اظہار میں جس بات کا خیال رکھا جائے وہ یہ کہ آپ کی رائے آزاد ہونی چاہیے کسی کے دباؤ کی وَجہ سے نہ دے رہے ہوں۔مسجد نبوی میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو مجلسِ شوریٰ بنائی اس میں یہ صلاحیت پیدا کی کہ ہر شخص اپنی رائے کے اظہار میں آزاد اور خودمختار ہے تو جب ایک معاشرہ جس کی بنیاد آزاد اجتماعی مشاورت ہو تو وہ کیسے پستی کی طرف جا سکتا ہے؟ اس لیے جو جماعت ملک و قوم کا نظم و نسق چلانے والی ہو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے لوگوں کی تربیت اس نہج پر کرے کہ ان کے اندر سے مرعوبیت ختم ہو جائے اور وہ اپنے عمل و افکار میں آزاد اور خودمختار ہوں۔ جب ایک ایسی جماعت جو مشاورتی عمل سے ملک کا نظم و نسق چلائے تو اگر اس جماعت کا کوئی فیصلہ غلط بھی ہو جائے تو اللہ تعالیٰ اس سے درگزر کر تے ہیں۔
بہ قول علامہ اقبال:
فرد قائم ربط ملت سے ہے تنہا کچھ نہیں
ایک شخص جو اپنی رائے کو حقائق کی بنیاد پر اجتماعیت کا حصہ بن کر پیش کرے گا تو اس کی رائے قابل قبول سمجھی جائے گی ۔ اس کی اساس پر تشکیل شدہ معاشرے پر مثبت اثرات مرتب ہوں گے اور ایسا معاشرہ آزاد اور ترقی یافتہ سمجھا جائے گا۔
آپ ایک شخص کو لیں جو اپنی رائے صرف ظاہری چیزوں سے مرعوب ہو کر قائم کرے تو اس رائے کا معیار قابل قبول نہیں سمجھا جائے گا۔
ایک شخص جو اپنی رائے میں آزاد ہو اور عقل و شعور رکھتا ہو اس کی آزادی اور عقل کا تقاضا ہے کہ وہ اپنی رائے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھ کر قائم کرے تاکہ جب وہ کسی اجتماعیت کا حصہ بنے تو وہاں بھی اپنی رائے کا اظہار معاشرے کی اجتماعی ترقی کے لیے پیش کرسکے۔
مندرجہ بالا گفتگو کے تناظر میں اگر پاکستانی سماج اور معاشرے کا تجزیہ کیا جائے تو یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ ہماری اجتماعی سطح پر کوئی رائے موجود نہیں۔ہر شخص اپنی انفرادی رائے تو دیتا ہے مگر اس کی بنیاد پر وہ ایک اجتماعیت کا حصہ نہیں بنتا۔
آج ہماری جتنی مذہبی اور سیاسی جماعتیں موجود ہیں کیا ان میں کوئی بھی شخص اپنی رائے کے اظہار میں آزاد اور خودمختار ہے؟ کیا وہ اس قابل ہے کہ کسی اجتماعیت کا حصہ بن سکے؟ وہ تو جو رائے دے گا، اپنے ذاتی مفادات کو پیشِ نظر رکھ کر قائم کرے گا تو جس معاشرے اور ملک میں ایسے لوگوں کو اظہار رائے کا حق ہو اور ایسے ہی لوگ اس اجتماعی نظام کا حصہ ہوں، جس نے ملک کے نظم و نسق کو چلانا ہے تو وہ ملک کیسے ترقی کر سکتا ہے؟آج ہماری ناکامی کی سب سے بڑی وَجہ یہ ہے کہ ہم اپنے حکمران ان لوگوں کو بناتے ہیں جو اپنی رائے کا اظہار ذاتی اور گروہی مفادات کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اسی طرح اگر ایک نظر نام نہاد میڈیا کے کردار پر بھی ڈال لی جائے تو نتائج مختلف نہیں ہوں گے۔آج میڈیا پر ایک شخص آتا ہے اور اپنی رائے سامراج کے حق کے لیے دیتا ہے پھر باقاعدہ ایک پروپیگنڈا کے ذریعے سے اسے ملک وقوم کی رائے بنا کر لوگوں کو ذہنوں کو مسخ کر کے دنیا کے سامنے پیش کیا جاتا ہے جب کہ ایک آزاد اور ترقی یافتہ معاشرے میں ہر ادارہ ریاست کی زیر نگرانی ہوتا ہے ۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے حال ہی میں آئی اس کورونا کی وَبا کو لیجیے۔جو سروے مختلف کمپنیز کی طرف سے کروائے گئے اس میں ہر شخص کا اپنے طور پر یہ کہنا تھا کہ یہ وَبا کم اور خوف پھیلانے کی کوشش زیادہ ہے مگر کیا اجتماعی سطح پر اس رائے کا اظہار ہوا ؟ یقیناً جواب نفی میں ہے۔
جب قوموں پر غلامی کے اثرات مرتب ہوں تو وہ اپنی رائے کا اظہار کبھی بھی اجتماعی طور پر نہیں کر سکتے بلکہ ان کے اندر تو اپنے حقوق کے لیے لڑنے اور آواز اٹھانے تک کی بھی سکت نہیں رہتی۔
آج ضرورت ہے کہ ہم شعور حاصل کریں کہ کس طریقے سے ہم اپنی رائے کو بہتر طریقے سے قائم کر کے اپنے فیصلہ جات کو اجتماعی سطح پر قابلِ قبول بنا سکتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو حقائق کا تجزیہ کرنے اور اجتماعی رائے قائم کرنے کی ہمت اور عقل وشعور عطا فرمائے تاکہ ہم اپنی ذاتی زندگی اور اجتماعی زندگی میں بہتر طریقے سے آگے بڑھ سکیں آمین!